جی ہاں، سرکل بکوٹ کی ابھی تک سیاسی میدان
میں ناقابل تسخیر قومی سطح کی شخصیت سردار مہتاب احمد خان کی 27 سالہ سیاسی
زندگی کا یوم سعید ہے جب انہوں نے 1985ء میں مولاچھ،یونین کونسل بیروٹ میں
پہلا عوامی جلسہ کیا تھا جس کے شرکاء میں سے تین چوتھائی اللہ کو پیارے ہو
چکے ہیں۔9ہزار8سو55ایام کے اس سیاسی سفر میں ایسے صبح و شام بھی آئے جب
سردار مہتاب احمد خان جنوبی سرکل بکوٹ کی پسماندہ ترین یونین کونسلوں میں
کاہنڈاں کے تہن ساتھرے اپنے چچا مرحوم حاجی سرفراز خان کے نقش قدم پر ان کے
برسوں کے ہوم ورک کو عملی شکل دینے کیلئے گرتے پڑتے پیدل سفر کرتے رہے،
صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کی وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ منصب کی دستار ان کے سر
سجنے کا عمل سرکل بکوٹ کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش اور تاریخی واقعہ تو
تھا ہی،ان کی حلف برداری کے روزہفت روزہ ہل پوسٹ نے یہ شہ سرخی لگائی تھی
کہ " 800سو سال بعد عباسیوں کا اقتدار دوبارہ بحال"راقم الحروف سمیت میرے
اس وقت اور آج کے ساتھی اشتیاق عباسی،طارق نواز عباسی، کلیم عباسی اور دیول
کے نظار عباسی سردار مہتاب کی بطور وزیر اعلیٰ تقریب حلف برداری کے مہمان
اور عینی شاہد تھے،اگلے روز پشاور کے اخبارات میں یہ نوٹیفیکیشن دیکھ کر ہم
حیران رہ گئے کہ سردار مہتاب احمد خان نے صوبے کی اسٹیبلشمنٹ کو یہ حکم دیا
تھا کہ میرے نام کے ساتھ لفظ "عباسی" کا لاحقہ نہ لگایا جائے کیونکہ میں
صرف سرکل بکوٹ کے عباسیوں کا ہی نہیں بلکہ پورے صوبہ سرحد کے عوام کا وزیر
اعلیٰ ہوں۔پھرچشم فلک نے دیکھا کہ پشاور سے دور ایک جرگہ سے بطور وزیر اعلیٰ
خطاب کرنے والے سردار مہتاب احمد خان کو وقت کے ڈکٹیٹر نے تاریخ کا حصہ بنا
کر اٹک قلعہ کا اسیر بنا دیا،آفریں کی گئیں، ترغیبات اور حرص و ہوس کے لالچ
دئے گئے مگر اس فرزند کوہسار نے اپنی اعلیٰ قیادت کے ملک سے باہر ہونے
اوراپنے اہل خانہ پر ٹوٹنے والے مصائب و آلام کے باوجود وفا، خودداری،اپنے
ارادے اور ایمان کے جس استقلال کی داستانیں رقم کیں اس پر کوہسار کا ہر
بزرگ، جوان اور بچہ نازاں و فرحاں ہے۔
فرمان خداوندی کے مطابق پھر ایام بدلے، سورج بھی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ
رہا تھا کہ ایبٹ آباد کی سڑکیں سات انسانی جانوں کے خون سے لہو لہان تھیں
کیونکہ سردار مہتاب احمد خان نیاسلامی جمہوریہ پاکستان کے مخالف سرحدی
گاندھی غفار خان کی وارث عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے والی نواز
لیگ کی نواز شریف کو تیسری بار منصب وزیر آعظم پر متمکن کرنے کے خواب کو
عملی شکل دینے والی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے سردار مہتاب نے پلٹن میدان
ڈھاکہ میں 17دسمبر1971ء کو جنرل نیازی اور جنرل اروڑہ کے درمیان ہونے والے
عبرتناک، المناک، حسرتناک اور شرمناک معاہدہ کی دستاویز کی طرح صدیوں کے
صوبہ سرحد کو آن واحد میں خیبر پختونخوا بنانے کی دستاویز پر دستخط ثبت کئے
کہ ان کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی ہندکواور پشتو کا تنازعہ آتش فشاں بن
گیا۔فرزند کوہسار کی اس لمحے کی خطا نے سات بیگناہ انسانوں کی جان لے
لی،سرکل بکوٹ کی عظمت کے امیں کلاہوں کے شملے جھک گئے اور ملک کی تیسرے سر
بفلک کوہسار موشپوری کے رفعتیں سرنگوں ہو گئیں، ہزارہ وال عوام کے خون سے
رنگین احتجاج سے مجبور ہو کر سردار مہتاب احمد خان پھر اپنا استعفا قومی
اسمبلی کی سپیکر کے بجائے رائے ونڈ کے مکینوں کو فیکس کر دیا، اس کے باوجود
سردار مہتاب احمد خان آج بھی قومی اسمبلی کی نشست نمبر 17پر حاضر سروس رکن
پارلیمان ہیں اور اپنے حلقہ کے عوام کاعبادت سمجھ کر خدمت کا حق ادا کر رہے
ہیں۔
ایک فرزند کوہسار ہونے کی حیثت سے سردار مہتاب احمد خان کا ذاتی
کردار،خصائل،خاندانی شرافت اور اخلاق و ذہانت پر کوئی بات کرنا ایسے ہی ہے
جیسے آفتاب جہاں تاب کو انگلیوں کے پیچھے چھپانا،مگرسردار مہتاب احمد خان
کے بیتے گزشتہ 27سالوں کے روز و شب پر نگاہ دوڑائی جائے توایسے محسوس ہوتا
ہے کہ انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ اپنے ذاتی کردار و عمل میں ڈھلی اپنے
جیسی کسی شخصیت کو کلون کر سکیں،ان 27برسوں میں ان کے ساتھ ڈمی وزرائے
اعلیٰ،ان کے جلسوں کی رونقیں بڑھانے والے ٹھکیدار اور پرمٹ مافیا،مفادات کے
اسیراپنے ایک پائو گوشت کیلئے دوسروں کی بھینسیں ذبح کرنے کے متمنی ہٹو بچو
گروپ ضرور نظر آتا ہے،یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اربوں روپے کے مفادات حاصل
کرنے کیلئیسردار مہتاب احمد خان اور سردار شمعون یار خان کے قلم کی روشنائی
استعمال کی مگر جب سردار مہتاب اٹک جیل میں جنرل پرویز مشرف کے جبروت تلے
کراہ رہا تھا تو دودھ پینے والے یہ مجنوں اپنے اپنے بلوں میں گھسے اپنے
مستقبل کے تانے بانے بن رہے تھے، ایسے مشکل ترین وقت میں بھی چند سر پھرے
اور بے لوث ساتھی اپنی تنہائیوں میں رو رو کر سردار مہتاب احمد خان کی جان
اور عزت و آبرو کی حفاظت کیلئے بارگاہ ایزدی میں جھولیاں پھیلا رہے تھے، ہر
پیشی پر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے، 1985ء میں سردار مہتاب احمد خان
کے قافلے میں شامل ہو کر اپنا سب کچھ نچھاور کر چکے تھے، انہیں کسی پرویز
کا خوف تھا نہ ڈر…انہیں سردار مہتاب کے 27سالہ دور سیاست میں کیا ملا
؟…فقط…میرے نغمے تمہارے لئے ہیں…اور بہتی گنگا میں ھاتھ انہوں نے دھوئے جو
سردار مہتاب کی 27سالہ تلخ و شیریں سیاسی زندگی کے شریک سفر ہی نہ تھے۔
آج ہر زبان پر صرف ایک سوال ہے کہ خطہ کوہسار نے سردار مہتاب احمد خان کو
کیا دیا اور انہوں نے اس قرض کو فرض سمجھ کر سرکل بکوٹ کو کیا لوٹایا؟باقی
سرکل بکوٹ کو جانے دیجئے،یونین کونسل ملکوٹ جہاں سردار مہتاب کے آباء و
اجدادآسودہ خاک ہیں وہاں کے بی ایچ یو میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور ادویات
تو ایک طرف، کھیرالہ میں موجود ملکوٹیوں کے شفا خانہ کی ٹوٹی پھوٹی عمارت
میں پٹھانوں کے بد بو دار گدھے بندھے ہوئے ہیں،سردار مہتاب کے ملکوٹ کے
ٹیڑھے میڑھے وہ راستے جہاں سے وہ بستہ لٹکائے ہائی سکول اوسیاہ کی درسگاہ
آیا کرتے تھے وہ تو پختہ سڑک میں تبدیل ہو چکے ہیں،ملکوٹ میں ہی سردار
مہتاب کے گلابی رنگوں میں نہائے ہوئے محلات وہاں کے رئوساء کی آنکھیں خیرہ
کر رہے ہیں مگر وہاں کے بے وسائل، بے کس و بے بس طلباء و طالبات کیلئے کوئی
انٹر کالج، دستکاری و ٹیکنیکل سکول نہیں ہے۔اسی ملکوٹ کو ملانے والی رابطہ
سڑکوں کی برف کو کروڑوں روپے وصول کرنے والے منظور نظر چہیتے ٹھیکیدار صاف
کرنے سے قاصر ہیں،ملکوٹ کا پل مدت ہوئی پہلے بہہ گیا تھا، حالیہ بارشوں میں
بیروٹ خورد کو ملانے والا پل بھی ٹیڑھا ہو گیا ہے، بیروٹ کے طلباء و طالبات
در بدر ہیں، منظور نظرچہیتے ٹھیکیداروں کے ادھورا کام چھوڑ کر فرار ہونے کے
بعد طالبات ٹھٹھرتی سردی اور چلچلاتی دھوپ میں پتھروں پر بیٹھ کر تحصیل علم
میں مصروف ہیں،بیروٹ کا بی ایچ یو جامع مسجد کے تہہ خانہ میں سسک رہا
ہے،بوائز ہائی سکول کے کاغذات اراضی نون لیگی ناظم اور اس کی کابینہ گم کر
چکی ہے، اب میرے اور ناظم آفاق عباسی سمیت بیروٹ کے ہزاروں طلباء کی یہ
مادر علمی نوحہ کناں ہے کہ ہمارے اسلاف نے کراچی سے گلگت تک آنہ آنہ چندہ
اکٹھا کر کے جسے تعمیر کیا تھا، جو 1965ء سے آج تک بیروٹ کلاں اور خورد کے
بے وسائل بچوں کیلئے ایک درخشاںمستقبل دینے کی ضمانت تھی اسے لوٹ لیا گیا
ہے، اب اس کی تجہیز و تکفین ہی باقی رہ گئی ہے۔زلزلہ کے دوران بیروٹ میں
کیا کیا نا انصافیاں ہوئیں، بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام میں اندھوں نے کیا
کیا ریوڑیاں بانٹیں کہ سماجی انصاف کا بیروٹ میں جنازہ نکل گیا…کیا سرکل
بکوٹ کے عوام نے 27سال کے دوران اسی سماجی نا انصافی کیلئے سردار مہتاب کو
اتنا ہیوی منڈیٹ دیا تھا؟
سردار مہتاب احمد خان ایک بڑے قد آور قومی لیڈر ، نون لیگ کی ٹاپ قیادت کے
پانچ پیاروں میں سے ہیں اور قومی اسمبلی کی درجن بھر کمیٹیوں کے ممبر
بھی،پارلیمان کے فلور پر ان کی رائے کا احترام اور وزن بھی دیا جاتا ہے،ان
کے سیاسی ناقدین کہتے ہیں کہسردار مہتاب بھی وزارت اعلیٰ پر فائز رہے اور
اکرم درانی بھی…بنوں آج یونیورسٹیوں، اعلیٰ طبی اداروں اور شاہراہوں کا
علاقہ ہے جبکہ اپنا راخیل ہونے کے باوجودسرکل بکوٹ آخری ہوتر کی طرح نمی
اور بتر کیلئے ترس رہا ہے…ان 27برسوں کا حاصل وصول یقینا سوار گلی بوئی روڈ
اور دیگر مواصلاتی زرائع ہیں، کانڈھاں اور برمنگ میں سیاسی بصیرت اور شعور
کا ارتقاء ہوا ہے…مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلیان سرکل بکوٹ کی قسمت کے
اندھیرے اور پتھر کے دور کے مصائب و مشکلات میں تخفیف کے بجائے اضافہ ہی
ہوا ہے،وہ پچھلے 27برسوں کی طرح آئندہ بھی لقمان عباسی جیسا ڈی ای او،ظفیر
چوہدری کی طرح ڈی ایچ او اورحفیظ عباسی کی طرح ڈی ایس پی بننے کے سپنے دیکھ
تو سکتے ہیں مگر سردار مہتاب احمد خان کے سیاسی قوت و اختیار کے بیتے 27سال
ان کے ان سپنوں کو تعبیر نہیں دے سکتے…ان27سالوں کی صرف ایک عطا ہے اور وہ
ہے …خانوادہ ملکوٹ کا جواں سال ایم پی اے سردار شمعون یار خان یا عشرے سے
ارتقاء پذیر سیاسی ڈاکٹرائن یعنی نظریئہ مہتاب ازم…اوربس |