گذشتہ دنوں اُمورخارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے ڈرون حملے
نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی،لیکن ابھی اُن کے بیان کی سیاہی بھی خشک
ہونے نہ پائی تھی کہ امریکہ نے ہنگوکی تحصیل ٹل کے علاقے ٹنڈر میں واقع ایک
مدرسے پر ڈرون میزائل داغ دیئے،گزشتہ دنوں مشیر خارجہ نے سینیٹ کی قائمہ
کمیٹی برائے امور خارجہ کو بتایا تھا کہ امریکہ نے اس بات کی واضح یقین
دہانی کرا دی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہیں کرے
گا،مگر افسوس کہ مشیر خارجہ کے بیان کو ابھی 24 گھنٹے بھی نہیں گزرنے پائے
تھے کہ امریکہ نے ڈرون حملوں کا دائرہ خیبر پختونخوا تک بڑھا دیا،جسے بعض
تجزیہ نگار وفاقی حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی سے تعبیر کررہے ہیں،قدرتی
طور پر اس حملے سے عدم تحفظ کا احساس عام ہوا اور اس نے امریکی عزائم کے
بارے میں شکو ک و شبہات کو جہاں مزید مزید گہرا کر دیا ہے،وہیں اِس بات کو
بھی واضح کردیا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بول کر نہ صرف
قوم کو بے وقوف بنارہاہے بلکہ اہم قومی اُمور سے پارلیمان کو بھی بے خبر
رکھے ہوئے ہے۔اَمر واقعہ یہ ہے کہ حکومتی دعوو_¿ںکے باوجود ڈرون حملوں کا
سلسلہ نہ تو رک سکا اور نہ ہی اِس میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔
بلکہ ڈرون حملے بندکرنے کے مطالبے کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے اس
مطالبے کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا
ہے اور مستقبل میں بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ وہ یہ حملے کرنا
بند کر دے گا،دوسری طرف جمعیت علماءپاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر
محمد زبیر سمیت متعدد سیاسی رہنماوں نے ہنگو میں ڈرون حملے کو ملکی سا لمیت
اور خود مختاری پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے،جبکہ ہنگو میں امریکی ڈرون
حملے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اب کسی امریکی یقین
دہانی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا،امریکہ کو اب کوئی کیسے اپنا ”دوست“ کہہ
سکتا ہے، قوم کو ہنگو ڈرون حملے کے بعدامریکی ڈالروں اور” عزت نفس“ میں سے
کسی ایک کا چناؤ کرنا ہو گا۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان
کی جانب سے ڈرون حملوں کی بندش کے پرزور مطالبے اور وزیر اعظم نواز شریف کی
جانب سے دورہ امریکہ میں ان حملوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود حملے جاری
رکھنے کے اقدام سے ثابت ہوگیا کہ امریکہ پاکستان کے اندر امن قائم ہونے
دینا چاہتا ہے اور نہ ہی امن کیلئے مذاکرات کا عمل آگے بڑھنے دینا چاہتا
ہے۔
جبکہ خود وزیراعظم صاحب اظہار بے بسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ڈرون حملے
غیر مناسب،تکلیف دہ اور کسی صورت قابل قبول نہیں، امریکی ڈرون حملے کی وجہ
سے طالبان سے مذاکرات کی تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔قارئین محترم !دفتر
خارجہ ،وزیر داخلہ اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ان ظاہری در عمل کے
باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلم لیگ ن ڈرون حملوں کی بندش کے
حوالے سے منقسم نظر آتی ہے، چوہدری نثار،عمران خان کی طرح امریکہ کے خلاف
سخت موقف اختیار کرنے کے حامی ہیں، جبکہ وزیراعظم نواز شریف امریکہ کی
ناراضی سے بچنا چاہتے ہیں،گو ہنگو میں امریکی حملے کی وجہ سے نواز شریف کے
گرد گھیرا کیے ہوئے حلقے کسی حد تک کمزور پڑ گئے ہیں،تاہم اب بھی چوہدری
نثار کیلئے یہ مشکل بات ہوگی وہ نواز شریف کو پاک امریکہ تعلقات اورتعاون
کی موجودہ سطح میں بڑی تبدیلی لانے پر راضی کرسکیں، محترم وزیر داخلہ اس
وجہ سے بھی امریکہ سے خائف ہیں کہ واشنگٹن نے حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے
میں ہلاک کرکے امن عمل کیلئے کی جانے والی اُن کی کوششیں سبوتاژکردیں،
چوہدری نثار سمجھتے ہیں کہ امریکہ جان بوجھ کر پاکستان میں دہشت گردی کو
ہوا دے رہا ہے اور وہ یہاں امن کی کسی کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دے رہا۔
دوسری طرف ہنگو حملے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک پریس
کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ سرتاج عزیز کے ڈرون حملے نہ کرنے کی امریکی
یقین دہانی کے بعد ہنگو میں ہونے والے حملے سے ثابت ہو گیا کہ امریکہ
پاکستانی حکمرانوں کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے،تحریک انصاف نے ڈرون حملوں
کی بندش تک نیٹو سپلائی کے خلاف دھرنوں کا بھی اعلان کیا ہے، عمران خان نے
ڈرون حملوں کے خلاف مہم شروع کرتے ہوئے کہا کہ جب تک امریکہ ڈرون حملے بند
کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتا،ہم نیٹو سپلائیز کو مکمل طور پر بند رکھیں
گے اور نیٹو کنٹینرزکو افغانستان جانے نہیں دیا جائے گا۔ گوعمران خان کا
ڈرون حملوں کے خلاف بیان اور نیٹو سپلائی کی معطلی کا اقدام قومی جذبات کی
بھرپور ترجمانی کرتا ہے،مگر مسلم لیگ ن کی قیادت اور حکومت تحریک انصاف کے
اس اقدام کا مذاق اڑارہی ہے،جبکہ اس پہلو سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ
ماضی میں مسلم لیگ ن خود پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اس مہم میں سرگرم رہی
اور امریکی ڈرونز کو مارگرانے کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہے اورخود مسلم لیگ ن
کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم نواز شریف ڈرون حملوں کو رکوانے کیلئے نیٹو
سپلائی کی بندش کے خیال کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میںنواز شریف نے نیٹو سپلائی بند کروانے کے حوالے
سے اُس شق کا سہرہ بھی اپنے سرلیا تھا جو کہ گزشتہ برس پارلیمنٹ کی متفقہ
قرارداد میں شامل تھی،حیرت کی بات ہے کہ وہ مسلم لیگ ن جوکہ آج تحریک انصاف
کی جانب سے نیٹو سپلائی بند کرنے کے اقدام کی مخالفت کررہی ہے اور اس اقدام
کو پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیے جانے کے مترادف قرار دے رہی ہے، اسی
مسلم لیگ ن کا پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد میں امریکی ڈرونز کو مارگرانے کی
شق ڈلوانے میں کلیدی کردار تھا۔ 27 دسمبر 2011 کو نواز شریف نے کہا
تھاکہ”یہ ن لیگ ہی تھی جس نے ڈروں حملے نہ رکنے کی صورت میں نیٹو سپلائی
بند کروانے کی شق شامل کروائی تھی۔“ 30 مارچ 2012 کو نواز شریف نے اس وقت
کے امریکی سفیر کیمران منٹر کو بتایا تھاکہ ڈرون حملوں کا تسلسل پاک امریکہ
تعلقات کو سنگین نقصان پہنچائیگا،اس وقت میاں صاحب کا موقف تھا کہ ڈرون
حملے پاکستان اور امریکا کے تعلقات معمول کی سطح پر واپس لانے میں بنیادی
رکاوٹ ہیں۔
اُن دنوں مسلم لیگ ن اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے پارلیمانی
قرارداد نظرانداز کیے جانے پر تنقید کرتی رہی اور اس نے پیپلزپارٹی کی
حکومت کی جانب سے نیٹو سپلائی کھولنے پر بھی احتجاج کیا تھا۔ یہی مسلم لیگ
ن پارلیمنٹ میں نعرہ لگایا کرتی تھی کہ’ ’بدعنوان حکومت نامنظور“،” امریکا
سے ڈکٹیشن لینا بند کیا جائے“ ،”آئی ایم ایف کا بجٹ نامنظور“ اور’ ’ڈرون
حملے بند کیے جائیں۔“ 14 مئی2011 کو میڈیا پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز
شریف نے کہاتھا کہ ”ہم نے قرارداد کے ذریعے حکومت سے امریکہ کو انتباہ
کروایا ہے کہ اگر ڈرون حملے فوری طور پر نہیں رکتے تو نیٹو سپلائی بند کردی
جائیگی۔“ انہوں نے مزیدکہا تھا کہ ڈرون حملے بند نہ ہونے کی صورت میں نیٹو
سپلائی کی بندش کا نکتہ مسلم لیگ ن نے شامل کروایا ہے۔ مگر افسوس کہ آج
اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف کی حکومت وہی کررہی ہے جس کیلئے مسلم لیگ
ن، پیپلزپارٹی پر تنقید کرتی تھی،یہی وہ تضاد ہے جس کی وجہ سے عوام
حکمرانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔آج نواز شریف کی حکومت اپنے ترجمان
کے ذریعے ناصرف تحریک انصاف اور اسکے قائد عمران خان کا مذاق اڑارہی ہے
بلکہ اس نے ڈرون حملے بند کروانے کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے 9مئی
2013ءکے فیصلے کو بھی نظرانداز کردیاہے جس میں پشاور ہائیکورٹ نے” ڈرونز کے
خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنا، نیٹو سپلائی بند کرنا، واشنگٹن سے
قطع تعلق کرنا، ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونیوالے عام شہریوں کو بطور مداوا
معاوضے کی ادائیگی اور امریکی جارحیت سے معصوم شہریوں کی جانوں کو مزید
نقصان سے بچانے کیلئے ڈرون مارگرانے“ کی ہدایات جاری کی تھیں۔
اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ ن اپنے اُس موقف کی یکسر نفی کررہی ہے جس
کا اظہار وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے کرتی رہی ہے،اَمرواقعہ یہ ہے کہ ڈرون
حملے ملکی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی ہیں اور ان سے شدت پسندی کے
خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، امریکہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ
ہر ڈرون حملہ کے خلاف انتقامی کارروائی کا سامنا پاکستان کے عام شہریوں کو
کرنا پڑتا ہے، حالیہ ڈرون حملے اس پہلو سے اور بھی زیادہ قابل مذمت ہیں کہ
ان کی مدد سے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور مفاہمت کی کوششوں کو
ناکام بنایا گیا ہے،آج پاکستانی عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکی
حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے مسئلے کے حل میں عملی تعاون کیلئے ڈرون
حملے بند کرکے اس آگ کو بجھانے میں مدد دینے کے بجائے ان کا استعمال اس
انداز میں کیوں کرنے پر تلی ہوئی ہے جس سے کھلی دراندازی کا دائرہ پاکستان
کے دیگر علاقوں تک بڑھتا محسوس ہورہا ہے اورامریکی انتظامیہ کے اس رویے سے
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے تعاون ختم کرنے کے حق میں
بڑے پیمانے پر رائے عامہ ہموار ہورہی ہے۔
حتیٰ کہ وفاقی وزیر داخلہ تک پکار اٹھے ہیں کہ ہمیں امریکی ڈالروں یا عزت
نفس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، قومی مذہبی جماعتوںکی طرف سے نیٹو
سپلائی روکنے کی کارروائی کا اعلان فی الحقیقت پاکستان کی آبادی کے بہت بڑے
حصے کے جذبات کی ترجمانی ہے، پاکستانی عوام یہ سمجھتی ہے کہ ماضی کی
حکومتوں نے پاکستان کو پرائی آگ میں جھونک دیا ہے، جس سے اب اسے جلد ازجلد
باہر آجانا چاہئے۔لہٰذا اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مشاورت
جاری رکھیں اور امریکہ کو پاکستان کی علاقائی حدود کے احترام پر مجبور کرنے
کے لیے مشترکہ حکمت عملی بروئے کار لائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا
ہے کہ پاکستانی حکومت قوم کو مزید دھوکہ دینے کے بجائے ڈرون حملوں اور دہشت
گردی کی جنگ کے حوالے سے اپنی واضح پالیسی کا اعلان کرے ،ہمارا ماننا ہے کہ
حکومت کا ایک دلیرانہ فیصلہ پاکستان کو دہشت گردی کے اُس عذاب سے نجات
دلاسکتا ہے،جس میںہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہہ چکا ہے اور بھاری
مالی نقصانات نے پاکستان کو معاشی بحران سے دو چار کر دیا ہے۔ |