’’جینیس‘‘ کی فاضل پیداوار

ہم نے جب بھی مرزا تنقید بیگ کے سامنے مغرب کی کسی بڑی کامیابی کا ذکر کیا ہے اُنہوں نے بے ساختہ قہقہہ لگاکر اُس کامیابی کا مذاق اُڑایا ہے۔ اور جب بھی ہم نے سبب پوچھا ہے تو مرزا نے صرف اِتنا کہا ہے کہ اہلِ مغرب ہر معاملے میں تھوڑی بہت نہیں، اچھی خاصی دیر کردیتے ہیں۔ ایک بار ہم نے بتایا کہ اہلِ مغرب نے کام کی جگہ یعنی workplace کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون بنانے پر خاص توجہ دی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ لوگ معاشی سرگرمیوں میں بھی اِس طرح مگن رہتے ہیں کہ ذہن پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا، گویا پکنک منا رہے ہوں۔ اِس پر مرزا نے انکشاف کیا تھا۔ ’’اہلِ مغرب نے یہ آئیڈیا یقینی طور پر پاکستانی معاشرے اور بالخصوص سرکاری دفاتر سے لیا ہوگا! ہم نے من حیث القوم کچھ کئے بغیر کمانے، بلکہ سب کچھ حاصل کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اور اِس قسم پر عمل بھی کر دکھایا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ ہفتے کے پانچ دن سَر توڑ محنت کرتے ہیں اور دو دن تعطیل کا مزا لیتے ہیں۔ اور سادگی دیکھیے کہ اِسی پر خوش ہو رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں خیر سے ہفتے بھر کی تعطیل کا نظام رائج ہے!‘‘

گزشتہ دنوں مرزا سے ملاقات ہوئی تو ہم نے بتایا کہ اہلِ مغرب اب سوچنے کی صلاحیتوں کو بھی تجربہ گاہوں میں پروان چڑھا رہے ہیں اور تجربات کے ذریعے ’’جینیس‘‘ تیار کرنے کی سمت سفر شروع کردیا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ مرزا یہ خبر سُن کر چونک پڑیں گے اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر تفصیل جاننا چاہیں گے مگر یہ کیا؟ ہماری بات سُن کر اُن کی تو ہنسی چُھوٹ گئی۔ اُن کی ہنسی ایسی جامع اور ہمہ گیر تھی کہ ہم حیرت کی تصویر بن کر اُنہیں تکنے لگے۔ مرزا چیز ہی ایسی ہیں کہ دیکھنے سے زیادہ لُطف اُنہیں تکنے کا ہے! جب ہم نے بے لگام ہنسی کی ’’وجہِ تسمیہ‘‘ جاننا چاہی تو مرزا نے بمشکل ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ’’میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ مغرب کے لوگ نئی شراب کو نئی بوتل میں پیش کرنے پر کیوں تُلے رہتے ہیں۔‘‘

ہم نے کچھ بھی سمجھ نہ پانے کا اعتراف کرتے ہوئے مزید وضاحت طلب کی تو مرزا نے سلسلۂ توضیح آگے بڑھایا۔ ’’بات یہ ہے کہ بھائی کہ جن آئیڈیاز کو ہم روند کر، کچل کر آگے بڑھ جاتے ہیں اُنہیں مغرب والے ہنس کر گلے لگاتے ہیں اور ڈِھٹائی کی انتہا یہ ہے کہ کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جینیس تیار کرنے کے معاملے ہی پر غور کرو۔ ہم یہ آئیڈیا کب کا پامال کرچکے ہیں اور اُنہیں اب خیال آیا ہے۔ ہمارا تو پورا مُلک ہی جینیس تیار کرنے کی تجربہ گاہ، بلکہ کارخانہ ہے۔‘‘

مرزا کی بات سُن کر ہم نے سوچا اُن سے پوچھیں آج کیا کھایا ہے کیونکہ جب بھی اُن کے گھر میں اُن کی کوئی پسندیدہ چیز پکتی ہے تب وہ پیٹ بھرے کی مستی میں ایسی ہی باتیں خاصی بے فکری سے کرتے چلے جاتے ہیں! مگر پھر ہم نے اُن کی ’’دانش‘‘ پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ اُن کی بات یکسر بے بنیاد قرار نہیں دی جاسکتی۔

مرزا نے ہمیں حیرت کے سمندر میں غرق دیکھا تو شفقت کے اظہار کے طور پر اپنے خیال کو شرح و بسط سے بیان کرنا شروع کیا۔ ’’ترقی یافتہ معاشرے اب تک تجربہ گاہوں کے محتاج ہیں۔ کوئی ہمیں دیکھے کہ ہم نے تو جینیس کی تیاری جیسے عمل سے بھی تجربہ گاہ کو خارج کردیا ہے۔ اب کوئی شعوری کوشش نہیں کی جارہی، جینیس اپنے آپ تیار ہو رہے ہیں!‘‘

ہم نے عرض کیا آپ جینیس کی بات کر رہے ہیں، ہمیں تو عمومی عقل رکھنے والے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ اِس پر مرزا نے خاصی طنزیہ مسکراہٹ سے ہماری ’’سادگی‘‘ کو ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا۔ ’’عمومی عقل والوں کو پاکستان میں تلاش کرنا ایسا ہے جیسے بُھوسے میں سُوئی تلاش کی جائے! اِس ملک میں عمومی عقل والا کوئی بچا ہوگا تب تو ملے گا۔ اب اِس سر زمین پر صرف اعلیٰ ترین عقل رکھنے والے بستے ہیں۔ تمہیں ہر وقت سَر جُھکاکر لِکھنے سے فُرصت ملے تو کچھ سوچو۔ اور سوچوگے تب ہی تو سمجھ پاؤگے نا۔ کبھی کچھ دیر سُکون سے، جم کر ٹی وی کے سامنے بیٹھو اور چینل بدل بدل کر کرنٹ افیئرز کے تین چار ٹاک شو دیکھو تو معلوم ہوگا کہ اِس ملک میں کتنے اور کیسے کیسے جینیس پائے جاتے ہیں۔ لاکھ کوشش کر دیکھو، اندازہ نہیں لگا پاؤگے اِن میں کون کِس سے اور کِتنا بڑا …… ہے!‘‘

ہالی وڈ کی فلم ’’ماسکو آن ہڈسن‘‘ میں سابق سوویت یونین کے ایک ایسے منحرف کی کہانی بیان کی گئی تھی جو نیو یارک میں سکونت اختیار کرتا ہے۔ وہ جب پہلی بار ایک سُپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو ہر چیز کی اِتنی ورائٹی دیکھتا ہے کہ چند ہی لمحوں میں چکراکر گر پڑتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے! ہمارے ہاں بھی اب کچھ کچھ یہی کیفیت پیدا ہوچلی ہے۔ ہر طرف جینیس اِتنی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں کہ عوام بے چارے چکرا جاتے ہیں اور فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس کی پیروی کریں! لوگ تو یہ بھی سمجھ نہیں پاتے کہ اداکار کون ہیں؟ ڈراموں میں کام کرنے والے یا ٹاک شو میں شریک ہونے والے؟ جسے دیکھیے وہ ’’جینیس پن‘‘ کی انتہا پر ہے۔ ع
جو ذرّہ جس جگہ ہے، وہیں آفتاب ہے!

ٹی وی پر جوشِ خطابت میں تُھوک اُڑاتے ہوئے سیاست کی گتھیاں سُلجھانے والے آزاد طبیعت رکھتے ہیں۔ وہ کسی ایک موضوع کے پنجرے میں قید نہیں رہ سکتے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ بسا اوقات کسی موضوع کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ بولنے پر آئیں تو کسی بھی لائن آف کنٹرول کی طرف دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ آن کی آن میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ جس طرح تیز ہوا میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں بالکل اُسی طرح اِن کی باتوں سے تازہ نظریات جھڑتے ہیں۔ علم و حکمت کی دُنیا کے یہ وہ giants ہیں جو ہزار سال کی دانش کو دو تین جملوں میں سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اندازِ بیان ایسا کہ مدِ مقابل کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنی بات منوالیتے ہیں!

گلوکاری میں سانس کی بہت اہمیت ہے مگر ٹی وی پر بولنے والوں کے فن اور ریاض کو بھی داد دیجیے کہ سانس توڑے بغیر بے تکان بولتے ہیں۔ اِن کاکام صرف بولنا ہے، اعصاب پر تھکن سوار کرنے کا ٹھیکا سُننے والوں نے لے رکھا ہے! یہ ایسے جینیس ہیں جو کبھی ہار اور کسی کی بات نہیں مانتے۔ اگر کبھی کسی اور کو تسلیم کرنا پڑے تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر تسلیم کرتے ہیں!

جینیس کی تیاری کا عمل کچھ مِنی اسکرین پر موقوف نہیں۔ اپنے علاقے میں بکھرے ہوئے چائے پراٹھے کے ہوٹلوں پر ایک نظر ڈالیے۔ وہاں رات رات بھر جینیس صرف بیٹھے نہیں رہتے بلکہ باتوں کی پیالیوں سے نکات بھی لنڈھاتے چلے جاتے ہیں! اِس ملک، برِاعظم یا دنیا ہی نہیں بلکہ کائنات کے کسی بھی مسئلے میں دم ہے تو اِن سے بچ کر دِکھائے!

اہلِ جہاں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر مغربی دُنیا یہ سمجھتی ہے کہ اُس کے ہاں جینیس پیدا نہیں ہو رہے تو ہرگز دِل چھوٹا نہ کرے، ملول نہ ہو۔ ہمارے ہاں جینیس اُسی طرح ضرورت سے زیادہ ہوگئے ہیں جس طرح کسی زمانے میں افغانستان میں افغانی زائد ہوگئے تھے اور کابل انتظامیہ نے اُنہیں دنیا بھر بھر میں ایکسپورٹ کرکے معاشرے کا توازن برقرار رکھا! ہمارے ہاں بھی ضرورت سے زائد جینیس بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ اگر کسی ملک کو جینیس درکار ہوں تو تجربات میں وقت ضائع نہ کرے بلکہ پاکستان آئے اور ضرورت کے مطابق جتنے چاہے جینیس لے جائے! اُن ملک کا کام (تمام) ہوجائے گا اور ہماری بقاء کا سامان!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524700 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More