لگتاہے کہ پاکستان میں اب
حکمرانوں کے پا س عوام کے مسائل پر توجہ دینے کی بجائے دوسروں پر الزام
تراشی کرنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ مہنگائی ،دہشتگردی جسے ہزاروں مسائل ہیں
شائدحکومت کے پاس اس سوااور کوئی راستہ نہیں اس کی مثال ’’یوم تاسیس‘‘کے
موقع پر پاکستان کی پیپلزپارٹی کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات کے ردعمل
میں حکومتی بیانات ہیں ۔کہ پیپلز پارٹی کسی جاگیردار، سرمایہ دار، کھلاڑی
یا ملا کی جماعت نہیں، یہ وہی ہے جو پہلے تھی، ہم پرائیویٹائزیشن کے نام پر
قومی اداروں کی پرنسلائزیشن نہیں ہونے دیں گے۔ اگلے انتخابات سے پہلے دنیا
کو دکھا دیں گے کہ پیپلز پارٹی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ بے
نظیر انکم سپورٹ پروگرام بند کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں سندھ سے اس
کا حصہ چھین لیا گیا ہے۔ پرائیویٹائزیشن کے نام پر ا پنوں کو نوازا جا رہا
ہے۔ حکمران نجکاری کے نام پر قومی ادارے دوستوں کو دے رہے ہیں۔ بے نظیر نے
اسلام کے ٹھیکیداروں اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کے علمبرداروں کو چیلنج کیا جب عوام
کے دلوں سے بھٹو کی محبت نہ نکل سکی توبے نظیر کو شہید کر دیا گیا بے نظیر
نے عوام کے لئے اپنی جان دی ذوالفقار علی بھٹو ہاری ہوئی زمین اور جنگی
قیدیوں کو واپس لائے سچ کہا گیا ہے کہ جس کے ساتھ احسان کرو اس کے شر سے
بچو ذوالفقار علی بھٹو کو صرف اس لیے پھانسی پر چڑھا دیا گیا کہ وہ غریب کی
آواز تھے جب جمہوریت کی بات کی تب بے نظیر نے امریکہ کے پالتو غداروں کو
للکارا تھا صدر زرداری نے بیسویں ترمیم کے ذریعے تحت اسلام آباد کی آمریت
کو للکارا انہوں نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک قرار دیا گیا
محترمہ نے دنیا کے سامنے اسلام کو امن کا سفیر بنا کر پیش کیا صدر زرداری
نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کر کے غریبوں کو ان کا حق دیا اور
عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف پاکستان کو گوادر پورٹ اور ایران پاکستان گیس
پائپ لائن کا تحفہ دیا۔ صدر زرداری نے پاکستان کو جمہوریت کا تحفہ دے کر
آمریت کا سٹیٹس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جھوٹ ہے کہ پیپلز پارٹی بدل گئی
یہ بھی جھوٹ ہے کہ پیپلز پارٹی اب وہ نہیں رہی جو پہلی تھی یہ پارٹی کسی
جاگیردار سرمایہ دار، کھلاڑی، ملا کی میراث نہیں پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی
کوئی ف،ن،ق نہیں لگا ہوا ہے عوام کی پارٹی ہے، جذبہ جنون روایت ہے اور
روایتیں بدلا نہیں کرتیں جذبے مرا نہیں کرتے۔ پیپلز پارٹی بھی وہی ہے بھٹو
بھی وہی ہے عوام اور جنون بھی وہی ہے آؤ ایک بار پھر اس منزل کی طرف چلیں
جس کا راستہ شہید بھٹو نے دکھایا تھا جیالا کبھی مایوس نہیں ہوتا بھٹو کی
محبت عوام کے دلوں سے نہیں نکل سکتی ہم 2018ء سے پہلے دنیا کو دکھائیں گے
پاکستان پیپلز پارٹی زندہ بھی ہے اور پہلے سے بھی بہتر ہے۔ 46 سال پہلے ایک
وعدے کی زنجیر نے ملک کے ہر شخص کو باندھ دیا تھا اس زنجیر کا نام تھا
پیپلز پارٹی آج ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے مہنگائی آسمان پر پہنچ
گئی ہے غریب سے نوالہ چھین لیا گیا ہے۔یہ بات پیپلز پار ٹی کے یوم تاسیس کی
تقریب سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہی ۔
لاہور سمیت کئی شہروں میں تقریبات ہوئیں جن میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے
شرکت کی، اس موقع پر کیک کاٹے گئے۔ ایوان اقبال میں تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو
نے مفاہمت کی سیاست کی اور ملک کو ایک متفقہ آئین دیا۔ بے نظیر بھٹو اور
آصف زرداری نے بھی مفاہمت کی سیاست کی۔ موجودہ حکومت نے ملک کا برا حال کر
دیا ہے۔ تقریب سے پی پی پی لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی، تنویر اشرف
کائرہ، راجہ ریاض، چودھری منظور، نوید چودھری، الطاف قریشی، بیگم بیلم
حسنین، فائزہ ملک نے بھی خطاب کیا۔ امتیاز صفدر وڑائچ، مشتاق اعوان، اسلم
گل، چودھری غلام عباس، عزیز الرحمن چن، غلام فرید کاٹھیا، میاں مصباح
الرحمن، رانا فاروق، زاہد ذوالفقار خان، نوابزادہ غضنفر علی گل، فضل الرحمن
بٹ، میاں اصغر، افنان صادق بٹ، عارف نسیم کاشمیری، حافظ اخلاق، زرقا بٹ،
عفت بٹ، بشارت صدیقی، شکیل ملک، مانی پہلوان اور دیگر بھی موجود تھے۔
مقررین کا کہناتھا کہ جب تک جیالے موجود ہیں پیپلز پارٹی پاکستان کی سب سے
بڑی جماعت رہے گی۔ لاہور کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ جیالوں
نے آج بھرپور شرکت کر کے ثابت کردیا ہے کہ اب لاہور میں تبدیلی آ کر رہے گی۔
ہم بھٹو، نظیر اور جمہوریت کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والے تمام کارکنوں
کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی بحالی اور اس کے
مضبوطی کیلئے اپنی جانوں اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ہے جس کو پاکستان
کی سیاست کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔شیخوپورہ میں پیپلز پارٹی کے
یوم تاسیس پر پارٹی کی ضلعی اور ذیلی تنظیموں کی طرف سے بے حسی کا مظاہرہ
کیا گیا اور کسی بھی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں
میاں محمد پرویز،ملک رضا خان جمالی، سید ظفر ہاسی نے انفرادی طور پر اپنی
رہائش گاہوں پر تقاریب منعقد کیں۔ قمر زمان کائرہ نے سابق صدر پرویز مشرف
اور انکے ساتھیوں کا احتساب 12 اکتوبر 1999ء سے کیا جائے، حکومت نے 5 ماہ
میں عوام کی چیخیں نکال دیں، پیپلز پارٹی نے بڑی قربانیاں دی ہیں، کوئی پی
پی کوختم نہیں کر سکتا۔ خورشید احمد شاہ اور سنیٹر اسلام الدین شیخ کے
اختلافات ختم نہ ہو سکے، علیحدہ علیحدہ تقاریب منعقد کی گئیں۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بلاول بھٹو زرداری کی تقریر پر ردعمل میں کہتے
ہیں کہ بلاول دوسروں پر الزام تراشی سے پہلے حقائق جان لیں، اداروں کو فوجی
تحویل میں رکھنے سے بہت نقصان ہوا، ہم نے تو ابھی کوئی نجکاری نہیں کی جب
نجکاری کریں گے تو جواب دہ ہوں گے۔ |