بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو۔ سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے ۔
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہیں، یہ وہ ترانہ تھا جو مائیں اپنے بچوں کو
لوری کے طور پر سنایا کرتیں تھیں،لیکن حقیقت میں یہ خراج عقیدت تھا ان کے
لیے جنھوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطن کی ابرو رکھ لی تھی۔
میرا جب لا شعور سے شعور میں داخلہ ہوا تو میں سوچا کرتا تھا کہ ایسا کیا
ہوا تھا جس کی و...جہ سے فوج کی اتنی داستانیں رقم ہو چکی ہیں ۔ پھر بھی
عقل سخن طرازی کی محتاج تھی ،کچھ اور آگئی کا دامن ہاتھ آیا تو جانا یہ تو
سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے جب کہ میرے وطن کی سپاہ اس سے کہیں گنا
زیادہ قابل ستائیش ہے۔
آگ اگلتی توپوں کے سامنے سینہ سپر ہونا، ٹینکوں کے سامنے جسموں کی دیوار
بنا دینا بہادری کی وہ انمٹ داستاں ہے جو صفحہ تاریخ پر شمع فروزاں رہے گی۔
یہ پاک آرمی کا ایسا کارنامہ تھا جو فراز تاریخ پر انمٹ تقوش چھوڑ گیا ۔
کہا جاتا ہے جیو تو علی کی طرح مرو تو حسین[ رضی اللہ عنہما ] کی طرح، اس
قول زریں کو عملی جامہ صرف افواج پاکستان نے پہنایا ہے اور اسی کہ مصداق
راہ حیات پر گامزن ہے۔ یہ سرحدوں کے آمین ماوں کی گود کو خیرآباد کہہ کر
دھرتی کے سینے پرسربسجود ہو جاتے ہیں ان کی زندگی کا واحد مقصد دھرتی ماں
کی حفاظت اور اللہ کے دین کی سرخروئ ہوتا ہے ،وہ ذاتی مفادات کو وطن کی
ابرو پر قربان کر دیتے ہیں ، اپنے آج کو دوسرں کے کل پر قربان کرنا ہی ان
کا نصب العین ہوتا ہے۔یہ وہ ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ کے شیر کہا جاتا ہے
اور بقول شاعر اللہ کے شروں کو آتی نہیں روبائ ۔ یہ اللہ کے مجاہد وطن کی
ایک ہی پکار پر پہلی رات کی سجی سجای دلہن کی سیج کو خندق کی مٹی پر وار
دیتے ہیں۔ نرم گرم بستر چھوڑ کر یہ سوچتے ہوے برف پوش پہاڑوں کو مسکن بنا
لیتے ہیں کہ ہماری اس ادنی سی قربانی سے اگر وطن کی سلامتی اور بہنوں
کی عزت محفوظ ہے تو یہ یخ بستہ ہواہیں ہمارے لہو کی آتش کو ٹھنڈا نہیں کر
سکتیں۔ یہ حب الوطنی انہیں مادرشکم بہنوں سے وطن کی بیٹیویوں کے سروں کے
آنچلوں کا محافظ بنا دیتی ہے ۔ یہی حب الوطنی انہیں برف پوش پہاڑون سے اٹھا
کر آسمان کی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔
اللہ تبارک تعالٰی پھر ان کو مذید سرفراز کرنے کے لیے ان کے گھوڑوں کی سموں
سے اڑتی دھول کی قسمیں کھاتا ہے اور پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
معرفت سے مجاہد کے پہرے کو عابد کی شب بیداری پرترجیح دیتے ہوئے فرمایا ان
آنکھوں پر جہنم کی اگ حرام ہے جو فی سبیل اللہ پہرا دیتے ہوئے جاگی ہو۔
اللہ تعالی خود فرماتا ہے 'جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گے ان کو ہر گز
مردہ نہ سمجھیں بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے " پاس روزیاں دیے جاتے جاتے
ہیں '[ الاعمران] پھر خبردار کرتے ہوے کہا"جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں
انہیں مردہ مت کہا کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے "البقرہ
یہ محب الوطن ہر وقت چاک و چوبند سرحدوں پر مستند رہتے ہیں موسم کی ردوبدل
سے بے فکر نگائیں دشمن کی نقل و حرکت پر گاڑھے سینہ سپر رہتے ہیں موسموں کے
تغیران کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر
سکتے-
دریاؤں کی طغیانیاں ان کی راہوں کی رکاوٹ نہیں بن سکتیں شاید انہی اوصاف کی
بنا پر شاعر نےکہا تھا بحرظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
شہادت کا جام بھی انہی کے نصیب ہوتا ہے جو دشمن سے برسرپیکار ہوتے ہیں یہ
رتبہ کب گرم نرم لحافوں میں کب ملتا ہے ،اسی رتبے کہ پیش نظر کہا گیا ہے
"چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم، رسول
پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بانہوں میں لیا ہو گا،علی رض تمہاری شجاعت پہ
جھومتے ہونگے،حسین رض نے یہ ارشاد کہا گا، تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی
ہیں" |