نئے آرمی اور طالبان چیف

پچھلے دنوں پاکستانی فوج کے سپہ سالارکی تبدیلی کی خبر ہر زبان پہ تھی۔جنرل کیانی اپنی عمر عزیز کے پورے بیالیس سال اس قوم کی نذر کر کے اطمینان عزت اور احترام کے ساتھ رخصت ہو رہے تھے۔دم رخصت ان کے پرانے ساتھی بھی موجود تھے اور ان کی جگہ لینے والے بھی۔خواجہ آصف جو کہ ڈنگ ٹپاؤ وزیر دفاع ہیں بھی اپنی چھب دکھا رہے تھے۔نئے سپہ سالار نے جب اپنے وزیر دفاع کو سیلیوٹ کیا تو کئی کیمروں کی فلیش لائٹس اس تاریخی لمحے کو قید کرنے کے لئے یوں چمکیں جیسے برق کوندی ہو۔نہیں تھے تو جنرل مشرف اور لیفٹینٹٹ جنرل ہارون اسلم ۔ایک کا تعلق پرانے آرمی چیف سے تھا اور دوسرے کا نئے آرمی چیف سے۔تقریب کے بعد جنرل مشرف کی طرف سے بیان آیا کہ ہم تو منتظر تھے کسی نے دعوت ہی نہیں دی۔ہارون اسلم کو دعوت دی گئی تھی لیکن وہ اپنی وجوہات کی وجہ سے شریک نہ ہوئے۔بعد ازاں انہوں نے اپنے پرانے رفیقِ کار سے مل کے اور ان کو مبارک باد پیش کر کے اس عدم ِ شرکت کی تلافی کر دی۔

جنرل راحیل شریف اپنی خاندانی شرافت اور پیشہ وارانہ مہارت کی بناء پہ چیف آف آرمی سٹاف بن گئے۔بعد میں عقدہ کھلا کہ ہارون اسلم کے چیف نہ بننے میں جہاں اور بہت سی وجوہات تھیں وہیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے کبھی نئے طالبان چیف اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ سوات میں دو دو ہاتھ کئے تھے جس کی وجہ سے" اسسٹنٹ امیر المومنین" اور ان کے ساتھیوں کو افغانستان بھاگنا پڑا تھا۔ممکن ہے جیسے یورپی یونین نے سزائے موت کو دوبارہ شروع کرنے کی صورت میں موجودہ حکومت کو پابندیوں کی دھمکی دی تھی اور طالبان نے اس دھمکی کو یوں سپورٹ کیا تھا کہ اگر ہمارے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو ہم پنجاب کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ہم اب کی بار عوام کو نہیں قیادت کو نشانہ بنائیں گے۔یونہی شاید کوئی دھمکی جنرل ہارون اسلم کی تعیناتی کی لئے بھی آئی ہو۔قومی اخبارات کے مطابق طالبان نے جنرل ہارون اسلم کو چیف نہ بنانے پہ اپنی خوشی کا اظہار کیااور یہ بھی کہا کہ جنرل راحیل شریف کے چیف بننے کی وجہ سے مذاکرات کو دوبارہ شروع کئے جا سکتے ہیں۔گو کہ پاکستان چھیاسٹھ برس کا ہو گیالیکن ابھی تک سیٹیوں اور اشاروں پہ ہی چل رہا ہے۔

نئے آرمی چیف کی طرح ان کے مقابل نئے طالبان چیف مولٰنا فضل اﷲ بھی اپنے بیس ساتھیوں کے ساتھ اپنے جی ایچ کیو یعنی شمالی وزیرستان پہنچ گئے ہیں جہاں وہ باقاعدہ طورپہ اپنے عہدے کی کمان سنبھالیں گے۔اس کے بعد ان کی شوریٰ یعنی کور کمانڈرز کا اجلاس ہو گا اور پھر طے کیا جائے گا کہ مستقبل میں پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہئیے۔اگر اسلام بزورشمشیر پھیلانے کا فیصلہ برقرار رہا تو مزید پاکستانیوں کو مشکوک اور سوالیہ نشان والی شہادت کی پیشگی مبارک۔ اور اگر کہیں طالبان نے مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا تو اس کے ساتھ ہی شمالی وزیرستان میں ڈرون اڑنا شروع ہو جائیں گے اور جلد ہی طالبان نئے امیر کا انتخاب کرنے کے لئے پھر اکٹھے ہو رہے ہوں گے۔حکومت کا پھر وہی حال ہو گا جو حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ اب کی بار اگر حکومت طالبان سے کسی طرح کا کوئی مذاکراتی معاملہ کرنا چاہتی ہے تو ممکن حد تک اسے دنیا کی نظروں سے چھپا کے رکھا جائے۔اگر میرے جیسے بے خبر کو یہ خبر ہے کہ حکومت ایک بار پھر طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے تو کیا دجالی آنکھ رکھنے والے اس کاروائی سے بے خبر ہوں گے۔یہ وقت کا جبر نہیں تو اور کیا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے ہمارے پچاس ہزار لوگ شہید کر رکھے ہیں۔جنہوں نے ہماری فوج کے جی ایچ کیو پہ حملہ کیا۔جنہوں نے ہمارے دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتے اورین اور اواکس طیارے تباہ کئے۔ان سے مذاکرات کے لئے پہلے ہمیں ان کی حفاظت بھی کرنا ہو گی۔

طالبان سے مذاکرات کے مخالف جو بھی کہیں۔طالبان کی نیت میں بھلے جتنا بھی فتور ہو لیکن مذاکرات اس لئے بھی ضروری ہیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ ان میں کون سے ایسے ہیں جو شریعت کے نفاذ کے لئے لڑ رہے ہیں۔کون ایسے ہیں جو افغان طالبان کی حمایت اور امریکہ دشمنی میں ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور کون ایسے ہیں جو ہمارے دشمنوں کے اشاروں پہ معصوم اور بے گناہ شہریوں کے کشتوں کے پشتے لگا رہے ہیں۔ابھی تو یہ عالم ہے کہ ان سارے طالبان کو جو بھی افواج پاکستان اور پاکستانی حکومت کا مخالف نظر آتا ہے یہ اس کے ساتھ تعلق جوڑنے ہی کو اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ہمارے پاس شاید وقت کم ہے لیکن لگتا نہیں کسی کو اس مصیبت کا احساس ہے۔امریکہ نے افغانستان میں جو کمانا تھا سو کما لیا۔اب وہ جانے کی تیاریوں میں ہے۔نیٹو افواج کی واپسی کے خلا کو کون پر کرے گا۔کیا افغان کٹھ پتلی حکومت یہ بوجھ برداشت کر پائے گی۔طالبان بھی وہ قوت لگتے ہیں جو اب کی بار زیادہ قوت اور ایک سپر پاور کو ہر ا کے زیادہ تفاخر کے ساتھ بر سر اقتدار آئیں گے۔

معاملہ افغانستان تک ہی رہے تو طالبان کو یہ فتح مبارک لیکن پاکستانی قارئین یاد رکھیں کہ علامہ اقبال ساری دنیا کے مسلمانوں کی طرح طالبان کے بھی شاعر ہیں اور انہوں نے فرما رکھا ہے کہ
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا۔مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔

طالبان سر حدوں کو نہیں مانتے اور دیورنڈ لائن کو تو بالکل نہیں۔لگتا ہے اب کی بار سٹریٹیجک ڈیپتھ والی سٹریٹیجی افغانستان کے نئے طالبان حکمرانوں کی طرف سے دی جائے گی۔پاکستان کے قبائلی علاقے تو پہلے ہی ان کی دسترس میں ہیں۔کے پی کے پہ ایک بار تو وہ اپنا قبضہ جما چکے۔وہ دن یاد کریں جب کچھ لوگ اسلام آباد میں بیٹھ کے ساری دنیا کو مارگلہ کی پہاڑیوں پہ طالبان کی موجودگی سے ڈرایا کرتے تھے۔سوچتا ہوں کیا مولٰنا فضل اﷲ ہی پھر اسسٹنٹ امیرالمومنین ان پاکستان ہوں گے۔

پاک آرمی چیف اور تحریک طالبان چیف دونوں ہی نئے ہیں۔کیا اس نئے پن سے ہم حرماں نصیبوں کے لئے بھی کچھ نیا برآمد ہو گا۔کیا ہم امید کریں کہ اب کی بار ریاست ریاست ہونے کا ثبوت دے گی اور کیا ہم امید کریں کہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کے بعد طالبان کو بھی صحیح معنوں میں اندازہ ہوا ہو گا کہ ان کا دوست کون ہے اور دشمن کون؟

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291852 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More