ہمارے شہر میں سرکاری سطح پہ جشنِ عید میلاد النبی ﷺ
منایا جاتا اور ہر سال ایک مشہور و معروف عالم اور خطیب کو سیرت النبی ﷺ کے
موضوع پہ خطاب کے لئے بلایا جاتا۔مذہبی گھرانے اور ماحول کی وجہ سے بچپن ہی
سے ہم علماء کی تقاریر سنتے آئے تھے لیکن اس نوجوان اور نوخیز نے وہ سماں
باندھا کہ لوگ مبہوت ہو کے رہ گئے۔ان دنوں میں اسلامی مدارس کی ایک طلباء
تنظیم کا مرکزی جوائنٹ سکریٹری ہوا کرتا تھا۔ہم بھی اس مقرر کے عشق میں یوں
گرفتار ہوئے کہ انہیں اپنے شہر میں دوبارہ خطاب کی دعوت دینے ڈھونڈتے
ڈھانڈتے لاہور کے لاء کالج میں ان کے گھر جا پہنچے۔چھوٹا سا صاف ستھرا گھر
مکینوں کے نفاست پسند ہونے کا پتہ دے رہا تھا۔ہمیں کسی نے ڈرائینگ روم میں
بٹھایا اور تھوڑی ہی دیر بعد ہمارا محبوب مقرر ہماری آنکھوں کے سامنے
تھا۔بہت محبت کے ساتھ انہوں نے ہماری دعوت قبول کرنے سے معذرت کی۔انداز
ایسا تھا کہ ہم انکار کے باوجود ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔میرے مرحوم
دوست مسعود بھٹی گھر سے باہر نکلتے ہی کہنے لگے کہ دوست !یہ شخص ایک دن
اپنے علم اور فضل کی بناء پہ دنیا میں جانا جائے گا۔
ہم سنتے رہے وہ نوجوان پہلے پروفیسر بنا۔پھر ڈاکٹر اور قائد انقلاب بننے سے
پہلے دوبارہ ہمیں انہیں بالمشافہ سننے کا موقع ملا۔اب کی بار ان کے سارے
سامعین فوجی افسران تھے۔اسلام اور سائنس کے موضوع پہ ڈاکٹر صاحب کا خطاب
اور بعد ازاں سوالات و جوابات کا سیشن اتنا مسکت تھا کہ فوجی جو علمائے وقت
کی کم ہی سنتے اور مانتے ہیں ،انگشت بدنداں تھے کہ آج کے دور میں بھی ایسے
عالم موجود ہیں جو دینی اور دنیوی دونوں علوم پہ ایک جیسا عبور رکھتے
ہیں۔فوجی بھائی کافی عرصہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہے اور اسی اثناء
میں وہ عالم ِ بے بدل میاں شریف جیسے جوہری کی نظروں میں آیا اور اتفاق
مسجد کا خطیب بن گیا۔یہیں سے شاید تباہی کا آغاز ہوا۔میاں شریف اور ان کے
بیٹے سیاست میں بھلے جیسے بھی ہوں لیکن مذہب کے معاملے میں پاکستان کے
حکمرانوں میں ان جیسا شاید ہی کوئی ہو۔انہوں نے اس مقرر خطیب اور عالم کو
سر پہ بٹھایا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔پروفیسر، علامہ اور ڈاکٹر
بننے کے بعد یہ کمال کا عالم،بلا کا خطیب اور انتہاء کا منتظم قائد انقلاب
بننے کا خواب دیکھنے لگا۔اس شخص کی شریف فیملی سے علیحدگی کے بعد بھی علمی
اور مذہبی خدمات ایسی تھیں کہ یہ شخص تھوڑا صبر کرتا تو پاکستانی قوم اسے
نجات دہندہ سمجھ کے خود امام خمینی کی مانند اس کے در دولت پہ حاضر ہوتی
لیکن آپ کے سامنے لاکھوں لوگوں کا جمِ غفیر آپ کو ایک نظر دیکھنے کا مشتاق
ہو تو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ ہی جاتا ہے اور انتظار موت سے زیادہ شدید
محسوس ہوتا ہے۔
آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ وہ عالمِ بے بدل کون تھا۔ میری مراد حضرت علامہ
مولٰنا ڈاکٹر پروفیسر قائد انقلاب ،شیخ الاسلام جناب طاہر القادری صاحب سے
ہے۔خدا گواہ ہے کہ میں ان کے علم کا،ان کی تقریر کا، ان کے انتظام کا،ان کے
شاگردوں کا،ان شاگردوں کی محنت اور ان سے عقیدت کادل سے معترف ہوں ۔مجھے
دکھ ہوتا ہے جب کوئی اس پائے کے شخص پہ طنز کی نظر ڈالتا ہے۔جب عدالت انہیں
بڑ بولا کہتی ہے جب لوگ انہیںover ambitious سمجھتے ہیں تو مجھے ذاتی طور
پہ دکھ ہوتا ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں اور نعمتوں کے حامل اس بے بدل انسان نے
صرف اقتدار اور شہرت کے لئے اپنا کیا حشر کر لیا ہے۔پاکستان عوامی تحریک ان
کی زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی تھی۔اس پہ طرہ یہ کہ سیاست کے لئے بھی
بجائے سیاسی مشیروں کے انہوں نے اپنے ارگرد اپنے مرید بٹھا لئے جو ان کے
کہے کو شاید اﷲ کی طرف سے الہام سمجھا کرتے تھے۔سیاست میں ان کے فیصلوں اور
غلطیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جسے دوبارہ گنوانے کا یہ موقع نہیں۔قائد
انقلاب سیاست میں" وہ آیا اس نے دیکھا فتح کیا اور اس کے بعد خود کشی کر لی
"کی عملی تصویر ہیں۔
سیاست میں ان کا تازہ کارنامہ ان کا وہ دھرنا ہے جس کے آخری دن ان کی بے
تابی کا یہ عالم تھا کہ اس دن اگر حکومتی وفد ان کی دست گیری اور داد رسی
کو نہ آتاتو محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب باقاعدہ رونا شروع کر دینگے۔سلام
ان کے مریدین اورمعتقدین کو جو اپنے شیر خوار بچوں سمیت باہر بارش میں ان
کا ایک ایک لفظ سننے کو ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔کاش اس وقت
کوئی انہیں بتاتا کہ میدان میں لیڈر اپنے کارکنوں کے ساتھ ہوتا ہے۔سردی
گرمی بارش آندھی اور طوفان میں ان کا ہم قدم ہوتا ہے۔ان سے بڑھ کے تکلیف
برداشت کرتا ہے گرم کنٹینروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پسینے نہیں
لیتا۔قائد انقلاب اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کی اس انتہائی غیر
سیاسی حرکت پہ بھی ان کا کوئی معتقد انہیں میدان میں چھوڑ کے بھاگا نہیں۔
تازہ خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوبارہ پاکستان تشریف لانے والے ہیں ۔وہ جنرل
مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ مل کے مہنگائی کے خلاف جلسے کریں گے
اور رسپانس اچھا ہوا تو پھر دھرنوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔مشرف کے وکیل احمد
رضا قصوری بھی ان جلسوں اور دھرنوں میں طاہر القادری صاحب کے شانہ بشانہ
ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے قبل بھی ایک بار مشرف کی حمایت کر کے دیکھ چکے اب
اسی سوراخ سے اپنے آپ کو دوبارہ ڈسوانا ان کے کسی بھی متوقع انقلاب کی منزل
کھوٹی کر سکتا ہے۔جیسا کہ مجھے خبر ہے شیخ الاسلام کے ہاں مشورہ نام کی
کوئی چیز نہیں۔اس لئے کہ ان کے ہاں مشیر نہیں مرید ہیں اور جو لوگ تصوف کی
تنگنائیوں سے واقف ہیں انہیں خبر ہے کہ شیخ کا حکم مرید کے لئے کیا معنی
رکھتا ہے۔ان کے علم وفضل اور ان کے شاگردوں اور مریدوں کی کوششوں کا مداح
ہونے کے باوجود اﷲ کا شکر ہے کہ میں ان کا مرید نہیں۔اس لئے میرا انہیں
مشورہ ہے مہنگائی کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں۔ڈرون مار گرانے کے لئے بھی
اپنی کوششیں جاری رکھیں لیکن مشرف سے دور رہیں ۔میری معصوم سی خواہش ہے کہ
کاش شیخ الاسلام سیاست پہ چار حرف بھیج کے اگر اپنا علمی کام آگے بڑھائیں
اور خدمت کا کوئی باقاعدہ مشن شروع کریں تو مجھے یقین ہے کہ لوگ انہیں رہتی
دنیا تک یاد رکھیں گے۔ |