(مظفر حسن )
قانون ، انصاف اور سیکولرز م صرف مسلمانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اس ملک کی
ضرورت ہے۔ اگر ملک میں قانون کا راج رہے گا، ملک کے لوگوں کو انصاف ملتا
رہے گا، ملک کی جمہوریت قائم رہے گی، تبھی ہندوستان جنت نشان بنا رہے گا۔
ورنہ آج دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ہم اپنے شہریوں کے ساتھ
ناانصافی کرکے، ان کی حق تلفی کرکے،مذہب ، زبان و علاقہ کے نام پر ہم کسی
خاص طبقہ، فرقہ کے لوگوں کے ساتھ امتیاز برت کرہم دنیامیں سر اٹھاکر نہیں
جی سکتے۔
21برس قبل آج ہی کے دن یعنی 6دسمبر 1992کو جب دن کے اُجالے میں ، دنیا بھر
کی میڈیا کے سامنے ایک خاص دھرم کے ماننے والے لوگوں کے مشتعل ہجوم نے ،
ملک میں ذات، پات اور نفر ت و فرقہ پرستی کی سیاست پر یقین رکھنے والی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کے اُکساوے پر اتر پردیش کے شہر فیض آباد (اجودھیا
)میں قائم ساڑھے تین سو برس پرانی مسجد (بابری مسجد ) کو شہید کردیا تھا،تو
اس واقعہ نے پوری دنیا میں ہندوستان کا سر شرم سے جھکا دیا تھا۔ دنیا بھر
میں یہ سوال پوچھا جانے لگا تھا کہ یہ کیسا سیکولرزم ہے، یہ کیسی جمہوریت
ہے، یہ کیسا قانون ہے، جہاں شر پسندوں کا ایک ہجوم ملک کی سب سے بڑی اقلیت
یعنی مسلمانوںکی مسجد کو مسمار کردیتا ہے۔ہم اس سوال کا جواب دے سکتے تھے،
اگر ہم نے بابری مسجد منہدم کرنے والے بلوائیوں، اس کیلئے ملک بھر میں
اشتعال پھیلانے والے سیاستدانوں کو قانون کے کٹہرے میں کھینچ کر انہیں قرار
واقعی سزا سنا دیتے ۔لیکن افسوس ،صد افسوس کہ ہم آج تک یہ بھی طے نہیں
کرپائے کہ بابری مسجد مسماری کا مجرم کون ہے؟ حیرت ناک ؛شرمناک؛اور مضحکہ
خیز اس سے زیادہ اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔دن کےاُجالے میں پوری دنیا کے
سامنے جو واقعہ پیش آیا، اور جولوگ ساری دنیا کے سامنے تھے،جن مجرموں کو
بابری مسجد شہید کرتے ہوئے ،دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر دکھایاگیا،آج اس
واقع کے بارے میں ہم مجرم کا نام تلاش کررہے ہیں؟
الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے سی بی آئی کے ذریعہ دائر مقدمہ کی
سنوائی کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنادیا کہ لال کرشن اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی،
ونئے کٹیار ،اومابھارتی، سادھوی رتم بھرااور ان کے دوسرے ایک درجن سے زائد
ساتھی بابری مسجدمسماری کے مجرم نہیں ہیں۔کیا آپ حیرت کر سکتے ہیں ؟کیا سی
بی آئی کا مقدمہ اتنا کمزور تھا کہ عدالت میں یہ مجرم ثابت نہیں ہوسکے؟اس
وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کو سپریم کورٹ نے ایک دن کی سزا
دی تھی،اس لئے نہیں کہ وہ بابری مسجد مسماری کیلئے مجرم ٹھہرا یا گیا تھا۔
بلکہ اس لئے کہ اس نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے یہ یقین دہانی
کرائی تھی کہ وہ ہر حالت میں بابری مسجد کی حفاظت کرے گا۔لیکن وہ اپنی اس
یقین دہانی کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
بابری مسجد کی مسماری محض ایک قدیم مسجد کا دنیا سے نابود کردیا جانا نہیں
ہے، دراصل یہ ایک تہذیبی جنگ کا آغاز ہے۔ کیوں کہ ہندوستان میں آر ایس ایس
جیسی تنظیم اسی نظر ئیے پر قائم ہے کہ وہ اس ملک سے مسلم حکمرانوں کے تمام
نام و نشاں مٹا ڈالنا چاہتی ہے۔ وہ دراصل آج بھی پانچ ہزار سال قبل کے
ہندوستان میں خود کو زندہ سمجھ رہی ہے۔ لال قلعہ ، تاج محل ، شاہجہانی جامع
مسجدجیسی یاد گاریںآر ایس ایس کو ملک کی غلامی کی یاد دلاتی ہے۔ لیکن ایسا
سوچنے والے لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں نے بھارت پر ساڑھے سات
سو برس حکمرانی کی ہے۔ لیکن اس میں سے کوئی بھی مسلم بادشاہ ایسا نہیں تھا،
جس نے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر حملہ کیا ہو۔ ہندو مت اور روایات کو
کچلنے کی کوشش کی ہو،امپریلزم کے دور میں بھی مسلم شہنشاہوں کی سماجی و
معاشرتی رواداری قابل تقلید اور قابل مثال رہی ہے۔ انہوںنے رعایا کو ہمیشہ
صرف رعایا سمجھا،ہندواور مسلمان کے چشمے سے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر وہ ایسا
کرتے تویقین مانئے کہ ساڑھے سات سو برس میں ہندوستان میں صرف مسلمان ہی
مسلمان رہتے۔
اپنی وراثت، اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کیلئے کوشش کرنے کا حق ہر کسی کو
حاصل ہے۔ لیکن کسی دوسری تہذیب و ثقافت اور ورثے کو ملیا میٹ کرنے کاحق کسی
کو بھی حاصل نہیں ہے۔ جب شہنشاہی کے دور میں حکمرانوںنے ایسا نہیں کیا ، تو
آج ہم 21ویں صدی کے جمہوری دور میں جی رہے ہیںآج تو یہ اور بھی ناممکن ہے۔
آج ہم ایک مہذّب قوم کہلاتے ہیں۔ اپنے تہذیبی سرمائے اور ثقافتی و تہذیبی
دولت پر فخر کرتے ہیں ، تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن ذرا تصور کیجئے کہ
ہماری آنے والی نسلیں جب یہ جانیںگی کہ ان کے آباو اجداد نے نفرت کی بنیاد
پر کسی خاص مذہب کی پہچان مٹانے کی سازش کی تھی، اس کیلئے خون بہایا تھا،تو
کیا وہ اس پر فخر کرسکیں گے؟
|