ہمارے گرد ہر سمت وسیع و بسیط
کائنات ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے ہم اب درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے۔ کسی نے
خوب کہا ہے ع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
اور کائنات کہاں روز آتی جاتی ہے؟ یہ تو دَم بہ دَم برقرار ہی رہتی ہے۔ یہ
کبھی ہمارے گرد و پیش سے معدوم، ناپید یا نادیدہ نہیں ہوتی۔ چار دیواری سے
نکلیے، پلکیں اُٹھائیے اور کائنات کی پہنائیوں میں پنہاں ہوجائیے!
مگر یہ کوئی ’’ون وے ٹریفک‘‘ نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم کائنات میں گم
ہیں۔ کائنات بھی تو ہم میں گم ہے۔ کیا ہمارے اپنے وجود میں کوئی کائنات
نہیں؟ حقیقت، بلکہ ابدی حقیقت یہ ہے کہ ہم خود اپنی ذات میں ایک مکمل
کائنات ہیں۔ کائنات اگر ہم پر محیط ہے تو ہم خود بھی اِس کائنات کا احاطہ
کئے ہوئے ہیں۔ اگر پوری کائنات ہم میں جھلک رہی ہے تو کیا ہوا؟ ہم بھی تو
ہر شے میں، ہر ذَرّے میں منعکس ہو رہے ہیں۔ غور سے، بلکہ ذرا پیار سے
دیکھیے تو پوری کائنات شیش محل کی سی ہے جس میں ہمیں ہر طرف اپنی ہی ذات
منعکس ہوتی دکھائی دے گی۔
اپنی ذات کا پھیلاؤ اٹل حقیقت ہے مگر مشکل تب کھڑی ہوتی ہے جب اپنی ذات کے
پھیلاؤ میں پوری کائنات سُکڑتی دکھائی دیتی ہے۔ وسعت پذیر ہونا بڑا وصف ہے
مگر توسیع اتنی ہو کہ سنبھالی جاسکے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنے سے بڑھ کر کچھ بھی،
کوئی بھی اہم محسوس نہ ہو۔
پاکستانی معاشرہ اُس مرحلے سے گزر رہا ہے جس میں ہر شخص اپنی ذات کے پھیلاؤ
میں پوری کائنات کو سمیٹ لینے کے درپے ہے۔ مُٹھی میں دُنیا بند کرنے کا
زمانہ گزر گیا۔ اب تو لوگ ہتھیلی کے کھیت میں پوری کائنات اُگانا چاہتے ہیں!
رائی اگر پربت بننے کا خواب دیکھے تو جائز ہے۔ ذَرّہ اگر خورشیدِ جہاں تاب
کا سا رتبہ پانے کا آرزو مند ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر یہ کیا کہ کچھ نہ
ہونے پر بھی بہت کچھ، بلکہ سب کچھ ہونے کا خبط سَروں پر سوار ہے! خالی برتن
خوب کھنکتا ہے۔ باطن کمزور ہو تو ظاہر بھی بھونڈے پن کی تصویر بن جایا کرتا
ہے۔ اور پھر اِس میں تصنع اور بے ہودگی کی بھی آمیزش ہوتی جاتی ہے۔ اِن
اجزائے ترکیبی سے چلتے پھرتے، سانس لیتے تماشے تشکیل پاتے ہیں!
ہر انسان اپنی اصلیت جانتا ہے مگر اُسے بھول جانا بھی چاہتا ہے۔ ہم اچھی
طرح جانتے ہیں کہ ذہن کے پردے سے کوئی چیز مٹتی نہیں مگر پھر ہم اُسے مٹانا
چاہتے ہیں۔ خصوصاً ہر اُس چیز یا بات کو جو ہمیں ذرا بھی پسند نہ ہو۔ اپنے
دہی کا کھٹّا پن سب جانتے ہیں مگر کوئی بھی اُسے کھٹّا کہنے یا سمجھنے کے
لیے تیار نہیں۔
اپنی ذات کی تفہیم دو انتہاؤں کا سفر ہے۔ ایک انتہا یہ ہے کہ ہم خود کو کچھ
نہ سمجھیں، کچھ نہ گردانیں۔ ایسی حالت میں بے دِلی، بے حِسی اور بے عملی
جنم لیتی ہے۔ جب اپنے ہی وجود کو اہمیت نہ دی جارہی ہو تو کون سی چیز یا
بات اہم محسوس ہوگی؟ جب انسان اپنی نظر میں بلند نہ ہو تو ہر معاملہ اپنا
مُنہ پستی کی طرف کرلیتا ہے۔
فہمِ ذات کے مرحلے میں دوسری انتہا یہ ہے کہ انسان خود کو بہت کچھ، بلکہ سب
کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ جب یہ مقام آ جائے تب بھی بے عملی ہی درشن دیتی ہے۔
ضیاءؔ جالندھری مرحوم نے خوب کہا ہے
اُفتادِ طبیعت سے اِس حال کو ہم پہنچے
شِدّت کی محبت میں شِدّت ہی کے غم پہنچے!
اپنی ذات کو کچھ نہ گرداننے کا انجام؟ تباہی! اور خود کو سب کچھ سمجھ
بیٹھنے کے خبط کا نتیجہ بھی بربادی! انتہا خواہ کسی معاملے میں ہو اور کسی
بھی چیز کی ہو، ایسے ہی گل کھلایا کرتی ہے!
ستم ڈھانے میں آئینے کا حریف کوئی ہوسکتا ہے؟ آپ کا جواب نفی میں ہونا
چاہیے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوجائیے اور پھر دیکھیے کہ یہ کس کس طرح آپ کو
شیشے میں اُتارتا ہے! آئینے میں اپنے وجود کا جائزہ لیجیے اور اپنی آنکھوں
کے عکس میں جھانک کر دیکھیے، کئی داستانیں خاصی بُلند آواز سے خود کو
دُہراتی محسوس ہوں گی۔ آئینے میں اپنے ہی وجود کا عکس کچھ کا کچھ دکھائی
دیتا ہے۔ اپنی آنکھوں کے عکس میں جھانک کر خود کو تلاش کیجیے تو سرگوشی
شروع ہو جاتی ہے۔ کیسی سرگوشی؟ یہی کہ ’’ہم‘‘ سے اچھا کون ہے! اور ہو بھی
کون سکتا ہے؟ لیجیے، بات ہی ختم ہوگئی۔ آئینہ پلک جھپکتے میں آپ کو ’’فوٹو
فنش‘‘ کی منزل تک پہنچاکر میچ جتوا دیتا ہے! جب آئینے نے طے کردیا کہ آپ سے
اچھا، آپ سے بہتر اور آپ سے بڑھ کر کوئی ہے ہی نہیں تو پھر کسی کو، کسی بھی
چیز کو کیوں اہمیت دی جائے؟
آئینے نے کتنوں کو بگاڑا ہے، کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا۔ اگر آپ کی خواہش ہے
کہ آئینہ آپ کو کچھ کا کچھ بلکہ بہت کچھ بناکر پیش کرے تو بس اِتنی شرط ہے
کہ اُس کے سامنے کھڑے ہوکر صرف اپنی آنکھوں کے عکس میں جھانکیے۔ پھر کوئی
عیب دکھائی نہیں دے گا۔ اپنا سراپا دیکھیے گا تو دِل بیٹھتا چلا جائے گا۔
آئینے میں صرف چہرہ دیکھیے۔ اور ہوسکے تو قدِ آدم آئینے کے استعمال سے گریز
کیجیے۔ یہ آئینہ آپ کے پورے وجود کو جُوں کا تُوں پیش کرکے حقیقت پر سے
پردہ اُٹھانے کی گستاخی کر بیٹھے گا اور آپ کا دل دَورِ سحر کی شمع کی
مانند بُجھ جائے گا۔
جب اِنسان کچھ نہ ہونے پر بھی خود کو سب کچھ سمجھ بیٹھے تو ہر ایک کو اپنا
بندۂ بے دام گرداننے لگتا ہے۔ میدان علم و فن کا ہو، سیاست کا یا پھر صنعت
و تجارت کا، جب آپ نے ایک بار طے کرلیا کہ آپ سے بڑھ کر کوئی نہیں تو پھر
کس کی مجال ہے کہ آپ سے بلند ہوکر دکھائے۔ اور کوئی بلند ہو بھی جائے تو آپ
کیوں اُسے بلند ماننے لگے؟ کوئی کچھ بھی ہوجائے، جب تک آپ ’’ہم سے اچھا کون
ہے؟‘‘ کی ’’خوشبو‘‘ کو جسم و جاں میں بسائے رکھیں گے، تب تک کوئی بھی کوئی
بھی اوجِ ثُریا کو چُھو نہ سکے گا۔ آپ خواہ تحت الثّرٰٰی میں ہوں!
جب اِنسان میں کوئی تعمیری وصف نہ ہو، کوئی خوبی نہ پائی جاتی ہو تب خود
فریبی نعمتِ غیر مُترقّبہ معلوم ہوتی ہے۔ باقیؔ صدیقی مرحوم نے خوب کہا ہے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے!
اہلِ وطن اِسی عالم اور کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ کسی میں لاکھ خوبیاں ہوں تو
ہوا کریں، مدِ مقابل نہ مانے تو کس میں دم ہے کہ خود کون منوائے!
جنہوں نے کبھی ہاتھ میں گیند نہ تھامی ہو وہ اُن باؤلرز کی ’’خامیاں‘‘
گنوانے بیٹھ جاتے ہیں جو دو ڈھائی سو بین الاقوامی میچ کھیل چکے ہوں!
لیڈری کا خبط اُن کے ذہن پر بھی سوار رہتا ہے جن کی پارٹی کے تمام ارکان
ایک تانگے یا سی این جی رکشے میں آسانی سے سما سکتے ہیں!
کالج یا یونیورسٹی کے زمانے میں دَرسی کتب کے ’’مطالعے‘‘ کے بعد جنہوں نے
ایک کتاب بھی، جی ہاں ایک کتاب بھی نہ پڑھی ہو وہ نئی نسل کو پڑھانے پر
مامور ہیں!
جو بھولے بھٹکے تین چار کتابیں پڑھ لیں اور دس بیس کتابوں پر اُچٹتی سی نظر
ڈال لیں وہ موقع ملتے ہی ہزیانی کیفیت میں مُبتلا ہوکر دانش وری جھاڑنے
لگتے ہیں! دانش وری تو کیا جَھڑے گی، اُن کے ذہنی برگد سے جہالت کے پَتّے
البتہ ضرور جھڑتے جاتے ہیں!
’’ہم سے اچھا کون ہے؟‘‘ وہ جادو ہے جو اپنے ہی نہیں، دوسروں کے بھی سَر چڑھ
کر بولتا ہے۔ چند سو افراد کو جمع کرنے میں کامیاب ہونے والا اپنے تئیں قوم
کا نجات دہندہ اور مسیحا سمجھنے لگتا ہے۔ آئینہ اُسے مزید بانس پر چڑھاتا
ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک یا دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والے بھی
وزارتِ عُظمٰی سے کم کا خواب دیکھنے پر راضی نہیں ہوتے!
اپنے آپ سے گزر کر دیکھیے تو دنیا میں اور بھی کچھ ہے، بلکہ بہت کچھ ہے۔
مگر ہم تو سفر کی ابتداء ہی کو منزل قرار دے کر خوش ہولیتے ہیں۔
خود پسندی وبا ہے مگر ہم نے اِسے گلے لگایا ہے۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اپنے آپ
پر مَر مِٹنا سب سے آسان آپشن ہے۔ اپنے تئیں برتر سمجھنے میں کون سے زمانے
لگتے ہیں۔ جب جی میں آئے اپنے آپ پر مَر مِٹیے، کس نے روکا ہے!
خود پسندی اور خود فریبی کا زہر ہم نے ایسا پیا ہے کہ اب ڈھنگ سے جینے کے
قابل نہیں رہے۔ ہر شعبے کی رگوں میں یہ زہر یوں اُترا ہے کہ رگیں کھنچ گئی
ہیں، تشنّج کی کیفیت طاری ہے اور ہم اِس کیفیت سے نجات پانے کا سوچنے کے
بجائے اِس سے محظوظ ہو رہے ہیں!
اچھا ہے کہ آئینہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کرے اور ہم اُس کام کا نتیجہ
قبول بھی کریں۔ آئینے کا بیان کیا ہوا پورا سچ قبول کرنے ہی پر ہمارے قبول
کئے جانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ بہ صورتِ دیگر خود فریبی کا زہر تو ہر آن
موجود ہے، پیجیے اور جیتے جی مَر رہیے! |