مظفرآبادسٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے ڈائیریکٹر نے اعلان
کیاہے کہ ایم سی ڈی پی کے منظورشدہ 64منصوبوں میں سے 10پرتعمیراتی کام مکمل
ہوچکاہے،35زیرکار،4پرکام جاری اور 5منصوبوں کاعمل ڈیزائننگ کے مراحل میں ہے
۔ان کایہ بیان ریاست کے تقریباً تمام موء قراخبارات میں نمایاں طورپر شائع
ہواہے۔اس بیان کے شائع ہونے کے اگلے ہی روزصاحب موصوف نے ایک اوربیان داغ
دیاکہ ایم سی ڈی پی کے تحت جاریہ سیوریج منصوبے کا60فیصدکام مکمل
ہوچکاہے۔جبکہ اس سے اگلے روز پراجیکٹ ڈائریکٹر برگیڈئر(ر)ریاض نورکابیان
سامنے آیااورپھر سیکرٹری سیراء سرداررحیم خان نے پشاورمیں پراوینشل
سروسزاکیڈمی کے زیرتربیت آفیسران کو بریفنگ میں خطاب کے دوران کہاکہ
آزادکشمیرکے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں کل 7965منصوبے ڈیزائن کئے گئے تھے جن
میں سے5044منصوبے مکمل کرلئے گئے ہیں ،1810منصوبوں پرکام جاری ہے اور
2918منصوبوں کی تکمیل کے لئے انہیں فندزمیسرنہیں ہیں اورسیراء کو ان منصبوں
کی تکمیل کے لئے14.000بلین روپے کے فنڈزکی ضرورت ہے۔سرداررحیم کاکہناتھاکہ
متاثرہ علاقوں میں تعلیم،صحت،لاؤلی ہڈ،ٹرانسپورٹ اینڈکمیونیکیشن اوراربن
ڈویلپمنٹ کے1108منصوبے مالیاتی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے شروع ہی نہیں کئے
جاسکے۔انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات کابرملاطورپر اظہارکیاکہ جتنی جلدی
انہیں فنڈزفراہم کئے جائیں اسی تیزی سے وہ منصوبوں کومکمل کریں گے۔سیکرٹری
سیراء سرداررحیم خان کی جانب سے و قتاًفوقتاًتعمیرنوپروگرام کے حوالے سے
میڈیاکواور مختلف تقریبات میں Updatesملتی رہتی ہیں لیکن ایم سی ڈی پی کی
تازہ ترین صورتحال پرغالباًپہلی بارمیڈیاکو بیانات جاری کرنے والے
ڈائریکٹرایم سی ڈی پی کے بیان نے مجھ سمیت متاثرہ خطے کے دیگرحلقوں کو
چونکادیاہے۔میرے ذہن میں پہلاسوال یہی ابھر اکہ آج زلزلے کے 9 سال بعدانہیں
کیوں کرمیڈیاکو بیان جاری کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اورپھر ڈائریکٹرایم سی
ڈی پی نے یہ اعتراف اور ہمارے لئے انکشاف کیا کہ اہل مظفرآبادکوپیرس اور
سنگاپورکے خواب دکھانے والوں نے درحقیقت دارلحکومت مظفرآبادکوصرف 64منصوبوں
تک ہی محدودکرنے کی منصوبہ بندی کرلی ہے اوریہ کہ جن 104منصوبوں کاروناشہری
رورہے ہیں، وہ ان متاثرہ شہریوں کی خام خیالی ہی ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق آفت ذدہ مظفرآباد کی تعمیرنوکے 104منصوبوں کے لئے
عالمی ڈونرزکانفرنس کے بعد353ملین یوایس ڈالرزکی خطیررقم مختص کی گئی تھی
جو دوست ملک چائینہ نے Soft Loneکی شکل میں 300ملین اور بقیہ53ملین حکومت
پاکستان نے فراہم کرناتھی،لیکن ستم ظریفی کی انتہایہ ہے کہ ہمارے
خودغرض،متعصب اورکرپٹ حکمرانوں،بشمول اپوزیشن ،جن میں سابقہ وموجودہ سبھی
شامل ہیں،نے مظفرآبادکے لئے مختص ان فنڈزکو تین حصوں میں تقسیم کیااورپھر
اسی رقم سے راولاکوٹ اور باغ کے منصوبوں کوحتمی شکل دی گئی۔حالانکہ ان
تینوں متاثرہ اضلاع کے لئے سابق صدرجنرل ریٹائرڈپرویزمشرف کے دورمیں علیحدہ
علیحدہ فنڈزمختص کئے گئے تھے ۔دارلحکومت کو مظفرآباد سے منتقل کرنے کی سازش
بھی اسی ابتدائی مرحلے میں کی گئی۔جب یہ سازش کامیاب نہ ہوسکی تو اس ضلع کے
فنڈز اس قدرمحدوداور معاملہ اتناپیچیدہ کردیا گیاکہ اب مختص شدہ فنڈزسے
دوگنا فنڈزحاصل کرکے بھی مجوزہ تمام منصوبوں پر کام مکمل نہیں کیاجاسکتا۔اس
فتنے میں سب سے بڑااورگھناؤناکردارسابق وزیراعظم عتیق خان کاتھا۔جوابھی بھی
نہیں چاہتے کہ مظفرآباد تعمیروترقی کی راہ پر قدم رکھ سکے،اگران کو کوئی
دلچسپی ہوتی تو عثمان عتیق اپنی الیکشن مہم ختم ہونے کے بعد بھی کبھی
مظفرآبادمیں نظرآتایاپھرکبھی اس شہرکے باسیوں کے حق میں بادلِ نخواستہ ہی
سہی ،کوئی بیان ہی دے دیتا،لیکن یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ ان لوگوں کو
اہل مظفرآبادسے کبھی پہلے کوئی ہمدردی تھی نہ اب ہے اور نہ آئندہ کبھی
ہوسکتی ہے،اس لئے کہ ان کی سیاست ہی یہی ہے کہ اہل مظفرآبادکااستحصال
کیاجائے۔ان لوگوں کے طرزعمل سے تولگتاہے کہ یہ اہل مظفرآبادکواپنا ’’ہاری
‘‘ہی سمجھتے ہیں۔خیرچھوڑیئے ،یہ تذکرہ پھرسہی،یارزندہ، صحبت باقی۔بات ہورہی
تھی مظفرآباد سٹی ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کی۔ایم سی ڈی پی کے ڈائریکٹرموصوف نے یہ
اعلان تو کیاہے کہ انہوں نے10منصوبے مکمل کئے ہیں لیکن ان کی کوئی تفصیل
بیان نہیں کی۔لگتاہے موصوف این جی اوز اور دست ممالک کے منصوبے بھی اپنے ہی
کھاتے میں ڈالناچاہتے ہیں۔مظفرآبادجوڈیشل کمپلیکس،نڑول سٹیڈیم سے ملحقہ
کالونی،جلال آبادعثمانیہ مسجد،شیخ خلفہ بن زائدالنہیان ہسپتال(سی ایم
ایچ)،نوچھی پل،اب تک زیرکاریاتعمیرہونے والے تقریباًتمام تعلیمی اداروں
سمیت جو بھی منصوبے نظرآرہے ہیں۔ترکی،جاپان،یواے ای،سعودی عرب اور دیگر
ممالک اور این جی اوزکے ہیں،ہاں، اراضی کی فراہمی میں حکومت کا احسان کسی
حدتک تسلیم کیاجاسکتاہے ،جبکہ بیشترمنصوبے زلزلے سے پہلے والے مقامات پر ہی
تکمیل یاتجویزکئے گئے ہیں۔سالانہ کرڑوں روپے تنخواہوں اور دیگرمراعات کی مد
میں ڈکارنے والے ایم سی ڈی پی حکام اگر اتنے پاک صاف،دیانت داراورفرض شناس
فرشتے ہیں تو اخلاقی جر ء ات کامظاہرہ کرتے ہوئے میڈیااور شہریان مظفرآباد
کا سامنا کیوں نہیں کرتے۔مظفرآباد سٹی ڈیلپمنٹ پراجیکٹ کے فنڈزپہلے لگ
بھگ45ارب کو سوات اور پھر55ارب کو بی آئی ایس پی میں جب منتقل کیاگیاتو اس
وقت ان کی دیانت داری انہی مراعات میں گُم کیوں تھی۔کیا آپ نے آج تک یہ
حقیقت متاثرہ عوام کو بتائی ہے کہ متاثرہ علاقوں کے لئے کتنے فنڈزمختص تھے
اورکتنے فنڈز منتقل ہوئے،اب کتنے فنڈزموجودہیں اور منصوبوں کے لحاظ سے کتنے
فنڈزکی ضررت ہے؟آپ نے کیوں خاموشی اختیارکررکھی،جب حکومتیں یہ اعلان کررہی
ہوتی ہیں کہ تمام منصوبے مکمل کررہے ہیں،فنڈزکی کوئی کمی نہیں ہے،
وغیرہ۔مان لیا،سیاسی لوگوں کی مجبوریاں ہیں، وہ’’ ٹی سی‘‘ کئے بغیر نہیں چل
سکتے ۔مگر آپ کیا مجبوری تھی،چندلاکھ روپے ماہانہ؟ایم سی ڈی پی کے لئے رواں
مالی سال کے دران کم وبیش 24ارب روپے کی ضرورت تھی اورایم سی ڈی پی کو محض
ایک ارب روپے بھی نہیں ملے۔اس کا ذمہ دارکون ہے؟وفاقی حکومت بالکل ذمہ
دارنہیں ہے اس لئے کہ وفاق سے تو کسی نے ڈیمانڈ ہی نہیں کیا۔اگر آپ نے
کیاہے تو لائیں ریکارڈ پر۔
مجھے ایم سی ڈی پی کے ڈائریکٹرکی جانب سے یہ بیان پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی
کہ ’’بعض لوگ ایم سی ڈی پی پر سیاست کررہے ہیں اورلوکل میڈیاسے یہ رپورٹس
انٹرنیشنل میڈیاکوملتی ہیں اور ڈونرزکی دلچسپی کم ہوتی ہے‘‘۔اوران کایہ
اشاہ آل پارٹیز کانفرنس کی جانب تھاجو زلزلہ زدگان کے منتقل شدہ فنڈزکی
واپسی کے لئے تحریک لارہے ہیں۔آج آپ کو یہ سیاست تو نظرآنے لگی ہے لیکن جو
سیاست آپ پچھلے 8سالوں سے زلزلہ زدگان سے کرتے چلے آرہے ہیں وہ کیوں
نظرنہیں آتی۔اگراپنے حق کے لئے آوازبلندکرنا ہی سیاست ہے اوراس سے آپ کے
ڈونرزبھاگتے ہیں توایسی سیاست جاری رہے گی۔ڈونرزنے یہ خیرات آپ کی ذاتی
تجوریوں کے لئے نہیں دی تھی بلکہ اہل مظفرآباد کے شہیدہونے والیس ان کم
وبیش 22ہزار معصوم بچوں کو دی تھی، جن کی سانسیں آپ جیسے ہی کنٹریکٹرز کی
بنائی ہوئی ناقص تعمیرات کی گرد میں جم کر رہ گئیں تھیں۔اہل مظفرآباد کی
آواز اب ضروراونچی ہو گی اور بہت جلد یہ آوازآہنی زنجیربن کر آپ کے رگ وپے
میں دھنستی ہوئی چلی جائے گی۔وہ وقت بہت قریب ہے جب تمہارایوم حساب
ہوگا۔کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ
مظفرآبادکے دوران بھی ایم سی ڈی پی کے منتقل شدہ فنڈزکے حوالے سے بات
کرنابھی گواراہ نہ سمجھی گئی۔میاں نوازشریف اگر مظفرآبادسے راولپنڈی ٹرین
منصوبے کااعلان کرسکتے ہیں جوآئندہ پچاس برسوں میں بھی قابل عمل نہیں
لگتا،توکوئی وجہ نہیں کہ وہ زلزلہ زدگان کے فنڈزکی واپسی کااعلان نہ
کرتے۔یہ موجودہ حکومت اوربالخصوص مسلم لیگ ن آزادکشمیرکی قیادت کی نااہلی
ہے کہ وہ اپنے اصل مسائل کی جانب توجہ مبذول نہیں کرواسکے۔ جن منصوبوں
کامیاں صاحب نے اعلان کیاہے ان سے زیادہ ضروری ہمارے بنیادی انفرسٹرکچرکے
لئے درکارفنڈزہیں مگرہمارے چاپلوس سیاستدانوں نے اس طرف کوئی دھیان نہیں
دیاگیا۔ |