سعودیہ عرب کا ایٹمی پروگرام

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور معاہدے کے بعد سے عالمی ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر مشرق وسطی میں یہ خبر گردش کررہی ہے کہ اگر مغربی دنیا ایران کے ایٹمی پروگرام کو تسلیم کرلے گی تو مشرق وسطی میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ یہ مسئلہ اتنا بڑھا کہ اب خبریں آرہی ہیں کہ سعودیہ عرب پاکستان سے ایٹم بم خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بی بی سی نے بھی خبر دی تھی کہ سعودیہ عرب پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سرمایہ کاری کرکے ایٹمی اسلحہ کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے۔ دوسری طرف سعودی حکام کی طرف سے ایران اور عالمی طاقتوں کے معاہدے کے بعد کچھ ایسا ردعمل سامنے آرہا ہے جس میں یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عرب ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ امریکہ کے اقدامات کی وجہ سے کافی ناراض ہے۔ اسرائیل کے سابق انٹیلی جنس چیف آموس نے سوئیڈن میں منعقدہ کانفرنس میں تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ایران ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگیا تو سعودی عرب ایک مہینہ بھی صبر نہیں کرے گا، انہوں نے پاکستان کو بم کے پیسے تو پہلے ہی دیدیئے ہیں بس صرف اس بات کی دیر ہے کہ وہ پاکستان کے پاس جائیں اور انہیں جو کچھ چاہیے ہے وہ پاکستان سے لے لیں!

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ جس بات پر مشرق وسطی میں شور مچایا جارہا ہے کہ سعودی عرب ایٹم بم بنانے کا سوچ رہا ہے کیا واقعی ممکن ہے؟ کیا سعودی عرب اس قسم کی ٹیکنالوجی سے مسلح ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ ذیل میں چند نکات کی روشنی میں اسی موضوع کے بارے میں مختصر سی گفتگو کی گئی ہے:
۱۔ایٹمی پروگرام میں سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ ایٹمی اسلحہ کی تیاری ہے جس کے لیے ٹیکنالوجی کے علاوہ ضروری مہارت بھی ہونا چاہیے جس سے فی الحال سعودی عرب تہی دامن ہے، نیز ایٹمی پروگرام کو اسلحہ سازی کے عمل تک پہنچانے کے لیے دسیوں سال درکار ہوتے ہیں تب جاکر وہ کسی اہم مرحلہ پر پہنچتا ہے۔
۲۔ سعودی عرب نے این پی ٹی، سی ٹی بی ٹی اور ایس کیو پی پر بھی دستخط کررکھے ہیں اور ان عالمی معاہدوں کی موجودگی میں کسی ملک کا ایٹمی اسلحہ بنانے کی طرف جانا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔
۳۔امریکہ اور اسرائیل سعودی عرب کے لاکھ دوست سہی لیکن وہ سعودی عرب کی اندرونی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی صورت اسے اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ایٹم بم تک رسائی حاصل کرسکے۔
۴۔ ریاض کی ایٹمی صلاحیت نہ صرف اس کی دفاعی پوزیشن کو مستحکم نہیں کرے گی بلکہ القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کی طرف سے درپیش خطرات کو مزید بڑھادے گی۔
۵۔ پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے نبٹنے اور ملک کی معاشی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے ممکن ہے سعودی عرب کو جھوٹے سچے وعدے کردے اور اسے ایٹمی دفاع کا یقین بھی دلادے لیکن اس کے باوجود امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور عالمی برادری اسے اس قسم کے کسی اقدام کی اجازت نہیں دے گی۔
۶۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے ممکن ہے بعض مغربی ممالک سعودی عرب کو ایٹمی تعاون کی یقین دہانی کروائیں اور سعودی عرب میں ایٹمی پروگرام کی داغ بیل بھی ڈال دیں لیکن یہ عمل سعودیہ سے زیادہ ایٹمی سرمایہ کاری کرنے والے ملک کے مفاد میں ہوگا۔ امید کی جارہی ہے کہ اس سنہری موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے فرانس پیشقدمی کرسکتا ہے۔

بعض مبصرین کی رائے ہے کہ سعودی عرب کے ایٹم بم کی بحث صرف اس وجہ سے خطے میں اٹھائی جارہی ہے تاکہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مذاکرات پر اثرانداز ہوا جاسکے اور ان ممالک کے ساتھ مستقبل قریب میں ہونے والے مزید کسی معاہدے کو ختم کیا جاسکے۔
Dr Azim Haroon
About the Author: Dr Azim Haroon Read More Articles by Dr Azim Haroon: 10 Articles with 7870 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.