ہول ناک جنگ میں شامل نوجوان سوشل میڈیا پر متحرک

سوشل میڈیا
شام کے محاذ سے
ہول ناک جنگ میں شامل نوجوان سوشل میڈیا پر متحرک
مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اپنے تجربات شیئر کر رہے ہیں

سلگتے مسائل کے شکار خطے مشرق وسطیٰ کا ملک شام گذشتہ کئی سال سے خانہ جنگی کا سامنا کر رہا ہے۔ جہاں شامی عوام بشارالااسد کی حکومت سے برسرپیکار ہیں اور سرکاری فوج انھیں کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے، وہیں بعض دوسرے ممالک کے جنگ جو بھی فریقین کے ساتھ اس معرکہ آرائی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے لبنان سے حزب اللہ کے رضاکار اور خبروں کے مطابق ایرانی کمانڈوز شام میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، تو حزب اختلاف کی اعانت کے لیے مختلف مسلم ممالک کے علاوہ مغرب کی کچھ ریاستوں کے مسلمان نوجوان بھی شام میں مصروفِ جنگ ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں سے ہر ملک کا کہنا ہے کہ ان کی شہریت رکھنے والے سیکڑوں نوجوان شام میں جنگ لڑ رہے ہیں۔

شامی عوام کی حمایت اور بشارالاسد حکومت کے خلاف صف آراء جنگ جو سوشل میڈیا پر بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور اپنی مصروفیات اور کارروائیوں کی بابت اطلاعات اور معلومات شیئر کرتے رہتے ہیں۔ مختلف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، جیسے ٹوئٹر، بلاگنگ پلیٹ فارم ٹمبلر اور سوال وجواب کی سائٹ ”آسک ڈاٹ ایف ایم“ پر یہ نوجوان شام میں جاری ہول ناک جنگ کے بارے میں نادر معلومات فراہم کررہے ہیں اور اس صورت حال کے مختلف گوشے سامنے لارہے ہیں۔

ساتھ ہی وہ ان سائٹس پر اپنے جذبات واحساسات اور روزوشب کی بابت بھی اظہارکرتے رہتے ہیں، مثلاً یہ کہ اپنے گھر کے حوالے سے انھیں کیا یاد آتا ہے اور حالت جنگ میں رہتے ہوئے وہ کیا کھاتے پیتے ہیں۔ وہ ان گروپس کے شانہ بہ شانہ لڑنے پر فخر اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں، جنھیں مغربی ممالک دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔

ان نوجوانوں میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والا تئیس سالہ افتخار بھی شامل ہے، جو برطانیہ کے شہر Portsmouth کا رہائشی ہے۔ برطانیہ چھوڑ کر شام روانہ ہونے سے قبل وہ سوشل میڈیا کا ایک سرگرم یوزر تھا اور سوشل ویب سائٹس پر اپنی سرگرمیاں باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ تھے۔ وہ Keek.com پر مختصر دورانیے کی وڈیوز اپ لوڈ کرتا اور آسک ڈاٹ ایف ایم پر سوالوں کے جواب دیتا تھا۔ اس نے برطانیہ سے ترک وطن کرکے شام جانے کی اپنی خواہش کا اظہار برسرعام کیا تھا۔ اس سال 14مئی کو اس نے ترکی کی سرحد پار کرتے ہوئے اس حوالے سے ٹوئٹ کیا۔

وہ اب بھی سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ اپنے ہر روز کے معمولات کے بارے میں ٹوئٹ کرتا ہے۔ گذشتہ ماہ ٹوئٹر پر کتے کے بچوں کی ایک تصویر پوسٹ کرتے ہوئے اس نے لکھا،”کتے کے بچے بہت خوب صورت ہیں۔ ان میں سے تین میرے پاس سے گزر رہے تھے۔“ ایک اور ٹوئٹ میں افتخار کہتا ہے،”(روزوشب کو) کم ازکم کچھ بہتر بنانے کے لیے ہم نے دو بِلیاں پال رکھی ہیں۔“ اس طرح کے ٹوئٹس بتاتے ہیں کہ مغرب کے پروپیگنڈے کے برعکس مجاہد کہلانے والے ان نوجوانوں کے سینے میں بھی دل ہے اور وہ زندگی کی خوب صورتیوں سے محبت کرنا اور ان سے لطف اندوز ہونا جانتے ہیں۔

افتخار آسک ڈاٹ ایف ایم پر اپنا اکاؤنٹ فالو کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان سے کہتا ہے کہ وہ اس کے روزوشب کے بارے میں اس سے زیادہ سے زیادہ سوال پوچھیں۔

وہ بتاتا ہے کہ شام میں اس کی فرانس، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور فِن لینڈ سے تعلق رکھنے والے جنگ جوؤں سے ملاقات ہوچکی ہے۔

افتخار کی طرح شام میں برسرپیکار بہت سے دیگر نوجوان میں سوشل میڈیا پر اپنی حالیہ زندگی کی بابت معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں، جن میں عبداللہ ابواللیث بھی شامل ہے۔ اس نے ٹوئٹر پر ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں جنک فوڈ سے بھرے دو تھیلے دکھائے گئے تھے۔ یہ گویا اس حقیقت کا اظہار تھا کہ یہ نوجوان کس نوعیت کی خوراک سے پیٹ بھرتے ہیں۔

ایک اور جنگ جو نوجوان، جس نے Chechclear کے نام سے اکاؤنٹ بنارکھا ہے، آسک ڈاٹ ایف ایم پر سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس لوگوں کے سامنے لانے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ وہ کہتا ہے،”میں یہاں (ویب سائٹ پر) اس ارادے کے ساتھ نہیں آتا کہ مجھے واپس جانا ہے۔“

شام میں مصروفِ جنگ ان نوجوانوں میں سے بہت سے محض اس لیے سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں اور یہاں اپنے تجربات سامنے لارہے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے شام پہنچیں اور بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ مثال کے طور پر ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے ابوفلان المہاجر نے شام جانے سے پہلے وہاں جانے کی خواہش شیئر کی اور وہاں جانے کے بعد اعلان کیا کہ وہ پہنچ چکا ہے۔ اس نے ٹوئٹ کیا،”اپنے دورے کے بارے میں میری ٹوئٹنگ کرنے کی واحد وجہ ہے کہ ان کی ہمت بڑھائی جائے کہ جو میں نے کیا ہے وہ بھی وہی کریں۔“ ابوفلان نے محاذجنگ کی مختلف تصاویر بھی ٹوئٹر پر پوسٹ کی ہیں۔ ساتھ ہی اس نے شام کے شہر الیپو میں قید ایک جنگ جو کے محاذجنگ سے دور ہونے پر اظہار افسوس پر مبنی الفاظ بھی پوسٹ کیے ہیں۔

شام میں جنگ لڑنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے یہ نوجوان جنگ کے حوالے سے اور وہاں گزرتی اپنی زندگی کے بارے میں تجربات شیئر کرکے سوشل میڈیا کو ایک نئی جہت دے رہے ہیں، امکان ہے کہ رجحان تیزی سے فروغ پائے گا۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311677 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.