سیکولرزم قدیم لاطینی لفظ
سیکولارس (Secularis)سے لیا گیا ہے۔جس کے معنی ’وقت کے اندر محدود‘ کے
ہیں۔اس لفظ کو باقاعدہ ایک اصطلاح کی حیثیت سے ۶۴۸۱ میں جارج جیکب ہیولیوک
(1906-1817) نے متعارف کرایا۔ اس سے مراد ’ دنیاوی امورسے مذہبی تصورات کا
اخراج اور ان کی بے دخلی‘ ہے۔یہودیوں نے اس اصطلاح کا اس طور سے ڈھنڈورا
کیا کہ ساری دنیا میں جمہوریت کا ڈنکا بجنے لگا۔سوال یہ ہے کہ یہودیوں نے
صرف سیکولرزم ہی کو کیوں اختیار کیا ؟اس کی وجہ یہ تھی کہ لامذہبیت (سیکولرزم
) ہی کے ذریعہ اہلِ مذاہب کو ان کے مذہب سے دور کیا جا سکتا تھا تا کہ ان
پر تسلط جمایا جا سکے اور اس سے ایک ایسے نظامِ حکومت کی داغ بیل ڈالی جا
سکے جن پر ان کا پورا کنٹرول ہو۔ یہ ایک آسان طریقہ تھا جس کویہودیوں نے
انتہائی قلیل تعداد میںہونے کی وجہ سے اختیار کیا ۔
آزادی کے بعد ہندوستان میںبھی جمہوری نظام ( سیکولرزم) کا نفاذ ہوا۔ اس کا
مطلب یہ ہے کہ حکومت کاروبارِ زندگی چلانے میں کسی بھی مذہبی رہنمائی سے
آزاد ہو گی یا اس میں کسی مذہب کے احکام کی پاسداری نہیں کی جائے گی ۔ہر
فرد کو اپنی ذاتی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔
حیرت اس بات پر ہے کہ مسلمان اپنے پسندیدہ مسلکی اختلافات کو تو چھوڑنے میں
یکجہتی نہ دکھا سکے مگر اس کو تسلیم کرنے میں انھوں نے پوری یکجہتی دکھائی
اور حد تو یہ ہے کہ جمہوریت کے تمام معاملات پر قرآن و حدیث سے رہنمائی کی
جا رہی ہے لیکن مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ دین کو فرد کا پرائیوٹ
معاملہ قرار دے کر مطمئن رہیں۔شریعت کی نظر میں زندگی کے کسی بھی گوشے میں
اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت سے عمداً پہلو تہی کرنا یا اس کوکنارے کر دینا
کفر کے مشابہ ہے اور ایسا کرنے والے خود اپنے ہاتھوں اپنی آخرت تباہ کر رہے
ہیں۔جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ و ہو فی الآخرة من الخٰسرین( اٰلِ
عمران:۵۸ )
”جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے،اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور
وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا“
اگر بات جمہوری نظام کی ہو تو اسلام ایسے جمہوری نظام کا سرے سے قائل ہی
نہیں جس میں اقتدار ِ اعلی اللہ تعالی کے بجائے اوروں کے ہاتھ میں ہو۔اللہ
تعالی فرماتا ہے:
ہو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ
المشرکون (التوبہ:۳۳)
”اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام
مذہبوں پر غالب کر دے“
آزادی کے بعد ملی قائدین اور سیاسی رہنماﺅں نے بھی قرآنی احکام سے قطعِ نظر
کرکے جمہوریت کا راگ الاپنا شروع کردیا۔لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم
ہوگا کہ مسلمانوں کی سیاست شروع سے ہی بے یقینی اور بے سمتی کا شکار رہی ہے
۔مسلمان جس بے سمتی میں آج سے پینسٹھ سال پہلے تھے کم و بیش آج بھی وہیں
پرہیں۔اس دوران اگرچہ سیاسی میدان میںوہ آگے بڑھے مگر کوئی واضح مقصد نہ
ہونے کی وجہ سے ایک ہی دائرے میں گھومتے ہوئے آغازِ نقطہ ہی پر پہنچتے رہے
۔
تقسیمِ ہند کے بعد مسلمانوں کے پاس تین راستے تھے۔اول یہ کہ متحدہ قومی
تصور کے ساتھ ملک کی سیاست میں حصہ لیتے ۔دوم یہ کہ متحدہ قومیت کو تسلیم
کرنے کے بجائے کتاب و سنت کے مطابق ایک نیا لائحہ عمل تیار کرتے ۔سوم یہ کہ
صورتِ حال کے یکسر تبدیل ہو جانے کی وجہ سے ایک نیا رویہ اختیار کرتے ۔مگر
مذہبی قائدین ہوں یا دینی جماعتیں شاید ہی کسی کے ذہن میں یہ تصویر صاف ہو
کہ امت کو آخر اب کس رخ پر لے جانا ہے؟ مسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو اپنے
علماءکرام کی بس پیروی کرنی ہے۔ اس طرح سے قرآن و سنت کے مقابلے میں
علماءکرام کی رائے کو ترجیح دی جانے لگی اور اس کے ساتھ ہی اہم مسائل پر
قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا دروازہ بند ہو گیا ۔ جب مسلمانوں نے مختلف
مسائل کے حل کے لیے علماءکرام کی طرف نظرپھیری تو ان ’معصوم‘ علماءکرام میں
آپسی اختلافات اور متضاد فیصلے دکھائی دیئے چنانچہ ان لوگوں نے بددل ہو
کرخود کو حالات کے دھارے پر بہنے دیا ۔
شروع سے ہی ان علماءکرام اور قائدین ملت (الا ما شاءاللہ)نے یہ راگ الاپا
کہ مسلمان اس ملک میں اپنی بقا اور تحفظ کی فکر کریں ، اختلافات کو مٹائیں
اور آپس میں بھائی چارہ پیدا کریں اور اجتماعی قوتوں کا استعمال کر کے’
صحیح نظام‘ پر گامزن رہیں۔اب کوئی ان سے پوچھے کہ اسلامی نظام کے ہوتے ہوئے
آخر وہ کون سا’صحیح نظام‘ ہے جس کی اتنی تلقین کی جا رہی ہے؟؟ آخرکار سب نے
مل کر ایسی’ تحفظی مہم ‘چلائی کہ عام ذہن سے یہ بھی محو ہو گیا کہ اس امتِ
رسول پر تحفظ کا نہیں بلکہ دنیا کی رہنمائی کا فریضہ عائد کیا گیا ہے۔تحفظ
بذاتِ خود ایک مدافعانہ رویہ ہے اور مدافعت سے قیادت یا رہنمائی کا کام
نہیں لیا جا سکتا ہے نہ اس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ یہ کسی چیز کا مکمل
طور سے تحفظ کر سکے۔
قدرت کا اصول ہے کہ کوئی بھی چیز ایک حالت میں زیادہ دیر تک باقی نہیں رہ
سکتی۔یا تو وہ ترقی کرے گی یا وہ زوال پذیر ہو جائے گی۔ یہی حال قوم اور
امت کا ہوا کرتا ہے۔اگر کوئی قوم آگے کا سفر چھوڑ کر موجودہ پوزیشن پر
برقرار رہنا چاہے تو عملًا یہ ہوگا کہ ہر آنے والا دن اس کی تخلیقی صلاحیت
کو خشک کرتا جائے گا اور وہ دوسری قوموں سے بچھڑتی چلی جائے گی۔ یہی وجہ ہے
کہ اس امت نے تحفظ کی جان توڑ کوشش کے باوجود رفتہ رفتہ اپنا قیمتی سرمایہ
کھو دیا ہے اور مزید کھوتی چلی جا رہی ہے۔
اس سرمایہ میں ہماری تاریخ ،تہذیب وتمدن ،سیاسی،سماجی اور معاشرتی نظامِ
زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے افکار و نظریات بھی شامل ہیں۔اسی وجہ سے ہم نے
ایک ہاتھ آگے بڑھ کر انبیائی خواب کو خیرآباد کہہ کر غیر اسلامی خواب کو
تعمیری شکل دینا شروع کر دیا ہے۔چنانچہ اب تقریبا ہماری محترم شخصیات علی
الاعلان سیکولر اور جمہوری نظام کو مکمل طور سے فعال بنانا چاہتی ہیں کہ
مسلمان اس نظام کی برکتوں سے محروم نہ ہونے پائیں۔اس مقصد کو پورا کرنے کے
لیے مختلف مسلم سیاسی پارٹیاں وجود میں آئیں، جن کی تعداد میں روز بروز
اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے ۔سب لو گ اپنی اپنی دوکانیں سجائے عام مسلمانوں کو
اپنی طرف لبھانے میں لگے ہوئے ہیں ۔مسلمان بے چارہ جذباتی ٹہرا، جائے تو
کدھر جائے ؟ان لوگوں کے زبانی دعوے تو آسمان کو چھو رہے ہیں مگر عملی طور
پر زمین پر چاروں خانے چت نظر آتے ہیں۔
مسلم سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں نہ تو مقصد کا
پتہ ہے اور نہ ہی منزل کا ۔ پرانی نسل میں کم از کم اس بات کا احساس تھا کہ
وہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں اور کسی اسلامی سرمایے کو ضائع ہونے دینا کسی
لحاظ سے صحیح نہیں ہے مگر موجودہ نسل کا صرف یہ مقصد ہے کہ اپنے ہم وطنوں
کی طرح اس میدان میں بھی اپنی صلاحیت کا استعمال کر لیا جائے ۔اس لیے یہ
لوگ صرف اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں البتہ اگر اس سے کہیں امت کا بھی بھلا
ہو جائے تو کوئی اعتراض نہیں ۔آخر سیاست تو بہرحال ’مسلم ٹھپہ‘ سے ہی کرنی
ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے سیکولر آڈر کے قیام کو اپنا مقصد بنا لیا ہے اور ہر
وقت حکومت سے اپنی التجا اور فریاد کے ذریعہ سیکولرزم اور جمہوریت کے تقدس
کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ جو لوگ حکومت سے براہِ راست مستفید ہو رہے ہیں ،ان
بے چاروں کوبھی بار بار دستور ،جمہوریت اور ملک کے تئیں اپنی وفاداری کا
اعلان کرنا پڑتا ہے اور اگر ترنگ میں آکر کبھی غلطی سے بھی مسلمانوں کے حق
میں منہ سے کچھ نکل گیا اور ’اوپر ‘سے پھٹکار پڑ گئی تو فورااپنا قبلہ
تبدیل کر لیا جاتا ہے اورایک غلطی کی ہزاروں’ سجدہ سہو‘ سے تلافی کی جانے
لگتی ہے۔
اس نظام کا اتنا سخت دباﺅ ہے کہ صحیح مسلم شناخت کے ساتھ اس نظام میں کوئی
جگہ نہیں بنائی جا سکتی ہے ۔اسی وجہ سے ملی قائدین و علماءکرام جب جب
مسلمانوں کا مقدمہ لے کر مختلف وزرائے اعظم کے پاس گئے تو ان کی گفتگو میں
فدویانہ ،ملتجیانہ اور خوشامدانہ لب و لہجہ غالب رہا ۔ایساکیوں ہوتا ہے اس
لیے کہ ہم میں جرات کی کمی ہے اوربزدلی ہماری شناخت بن چکی ہے۔آزادی کے بعد
سے ہمارے اندر چیلنج قبول کرنے کا جذبہ ر وزبروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔کسی
بڑے مقصد کے حصول کے لیے خود کو خطرے میں ڈالنے کی نہ تو عادت ہے اور نہ اس
کو پسند کرتے ہیں ۔محض مطالبات اور خوشامدوں سے سارے مسائل کو حل کرنا
چاہتے ہیں۔
اگر ہمارے ملی قائدین ،علماءاوردانشوران پر نظر ڈالی جائے تو بمشکل ہی چند
ایسے افراد ملیں گے جنھوں نے امت کے لیے مصیبتیں جھیلی ہوں بلکہ اب تو سب
سے معتبر وہ قائد ہے جسے اسلام کی راہ میںکوئی خراش بھی نہ آئی ہو۔ان میں
سے اکثر علماءکرام نے تو خود کو مدارس اور مساجد اور تنظیموں تک محدود کر
رکھا ہے ۔وہ نماز ، روزہ ،زکوة ،حج یا زیادہ سے زیادہ نکاح اور طلاق کے
معاملات میں شرعی رہنمائی کرتے ہیں اور معاشی،تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں
خود کو شریعت سے باہر تصور کرتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عام مسلمان
مسجد کے اندر تو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اور مسجد سے باہر
نکلتے ہی خود کو کفریہ نظام کے حوالے کر دیتے ہیںاور کیوں نہ کریں؟جب نظام
ِ کفر کے اندر رہ کر اسلامی زندگی کا کاروبار آسانی سے چل رہاہو ۔ جب کسی
مہم جوئی کے بغیرجنت کا حصول ممکن ہو۔جب شخصی مغفرت کے لیے اس نظام میں رہ
کر خوشی خوشی دونوں ہاتھوں ثواب کا ڈھیرحاصل کیا جا سکتا ہو ۔ جب کئی سارے’
امیر الہند‘ الگ الگ امت کی نگہبانی کر رہے ہوں تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ ا
س فکر میں گھلے کہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت مغلوب ہے اور جگہ جگہ اس
کی پامالی ہو رہی ہے تووہ اس کو غالب کرنے کے لیے کوئی مشکل ترین اور لمبا
راستہ اختیار کرے اور جان و مال کی قربانی دے ۔خاص کر جان کی ،مال کی تو آج
کے دور میں باآسانی دی جا سکتی ہے۔
مسلم قائدین کی اس سیاست کا مقصد کیا ہے؟اگر صرف یہ مقصد ہے کہ مسلمانوں کے
لیے کچھ تحفظات حاصل کر لیے جائیں اور غیر مسلم آقاﺅں سے زندگی جینے کی کچھ
زیادہ مراعات لے لی جائیں یا ووٹوں کے عوض ان سے اپنی جان ومال کے تحفظ کا
سودا کر لیا جائے یایہ کہ ہم ملک کے تئیں وفادار ہیں اور ہم نے آزادی کی
جنگ میں ملک کے لیے خدمات انجا م دیں ،اس لیے اس کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں
بھی جینے کا حق دیا جائے ،یا ہم پر وطن سے بے وفائی کا جو الزام ہے اور ہم
نے ماضی میں علیحدہ شناخت یاقومیت کا جو مطالبہ کیا تھا اس کو دھویا جا سکے
تو اس کے لیے الگ سے سیاسی پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں ،اسے تومختلف سیاسی
پارٹیوں کی خوشنودی کے ذریعہ زیادہ آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اسی وجہ سے باوجود اس کے کہ ہندوستان میں مسلم سیاسی پارٹیاں بارش کی طرح
برس رہی ہیں اور یکے بعد دیگرے وجود میں آتی جا رہی ہیںلیکن اب تک مسلمانوں
کی کوئی بھی پارٹی ایک طاقتور متبادل کی حیثیت سے ہندوستان میں منظرِ عام
پر نہیں آسکی ہے۔اگر مقصد موجودہ نظام کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی نیا نظام
ِحق قائم کرنا نہیں ہے تو آخر اس ساری دوڑ دھوپ ،وعظ و نصیحت ،کانفرنس،جلسے
جلوس کی ضرورت کیا ہے؟؟اگر یہ سب جان و مال کے تحفظ،چند مراعات حاصل کرنے
ہی کے لیے تھا تو اس کے لیے آزادی کی جنگ لڑنے اور اس میں لاکھوںخواتین کی
عصمت دری اور بے انتہا جانی و مالی قربانیوں کی کیا ضرورت تھی؟یہ مقصد تو
انگریزوں کے دور میں حاصل ہو رہا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی بھی مسلم سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو
کسی اسلامی سیاسی ایجنڈاپیش کرتی ۔جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں سب کا مقصد
یہی ہے کہ کسی خاص غیر مسلم سیاسی پارٹی کو ہٹا کر دوسری غیر مسلم پارٹی کو
اقتدار بخش دیا جائے۔مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود جانتے
بوجھتے اقتدار غیر مسلم حکمرانوں کی تحویل میں دے دیتے ہیں ۔جب کہ قرآن
واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ کفار مسلمانوں کے امور کے نگراں نہیں متعین کیے
جا سکتے ہیں ۔قرآن کریم میں ہے:
ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا(النسائ:۱۴۱)
”اللہ تعالی نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کی ہر گز کوئی سبیل
نہیں رکھی ہے“
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی امت سے با حوصلہ لوگوں کی نسل ختم ہو جائے ، سخت
حالات میں اللہ کے کلمے کو بلند کرنے والے نہ ہوں اور معمولی فوائد کے لیے
دین و ایمان بیچنا عام ہو جائے اور قائدین خطرات سے کھیلنا چھوڑ کر ’بے ضرر
میٹنگیں ‘ کر کے امت کی قیادت کرنے کی کوشش کریں تو امت کے زوال کے بڑھتے
قدم کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ |