کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ایک دن ہم نے بیٹھے بیٹھائے اپنے
پیروں پر کلہاڑی مار لی کیونکہ ہمیں مضمون نویسی کی سوجھی ویسے اسمیں ہمارا
کوئی قصور نہیں تھا۔آخر ہم نے بھی ’ڈگری‘ حاصل کی ہے، کوئی مذاق تو ہے نہیں
۔اب ڈگریوں کو ہم نے حاصل کیا ہے یا ڈگریوں نے ہم کو حاصل کیا ہے اس راز کو
راز ہی رہنے دیئے البتہ ڈگریاں ضرور اپنی جگہ حق بجانب ہیں کہ انکا استعمال
مضمون نویسی میں کیا جائے ویسے اسکو شادی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا
ہے کیونکہ پھر ’بولی‘اچھی لگ جاتی ہے۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔بات مضمون
نویسی کی چل رہی تھی۔تو ہم نے مضمون نویسی کے لیے پوری طرح سے کمر کس لی
اور مکمل طور سے کمرکس لینے کے بعد خیال آیا کہ آخر لکھیں گے کیسے؟؟قریب
تھا کہ کمر ڈھیلی پڑ جاتی اچانک سے ایک خیال آیا کہ کیوں نہ ہم بھی اس ملک
کے عظیم مضمون نگاروں کی طرح لائبریری جائیں اور وہاں سے دو یا تین بوسیدہ
اور گرد سے اٹی ہوئی کتابیں لیں اوراسمیں سے تھوڑا تھوڑا کٹ اینڈ پیسٹ کر
کے ایک’ تحقیقی مضمون ‘تیار کردیں ( اور کتاب کو غائب کردیں) کوئی کیا جانے
گا بھلا، بالکل ایسے ہی جیسے جاہلی دور میں عرب قبیلے قصاص سے بچنے کے لیے
کسی ایک قبیلہ پر حملہ کرتے تھے کہ وہ قبیلہ بیچارہ کس کس سے انتقام لے گا
اسطرح سے ہمار ا ’ مضمون‘ تیار ہو جائے گا مگر برا ہو ہمارے دوست کا جب
انہیں خوشی خوشی اپنا خیال بتایا تو انھوں نے ہمارے ارمانوں پر’ سوڈاواٹر‘
پھیردیا(کیونکہ خالص پانی آج کل کسے نصیب ہے) انھوںنے فرمایا ارے میاں!
لگتا ہے تمہارے سوچ بھی امتِ مسلمہ کی طرح کئی سال پیچھے چل رہی ہے ۔یہ تو
پرانی ترکیب ہو گئی ہے ایم فل،پی ایچ ڈی والے تم سے اس سلسلے میں سبقت لے
گئے۔اور فرمانے لگے کہ مضمون نویسی بھی ایک فن ہے اور مضمون نگاروں کی بہت
ساری قسمیں ہیںاور پھر انہوں نے جو ’ قسمیں‘بیان کی تو ہماری آنکھیں پھٹی
کی پھٹی اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا فرمانے لگے کہ ہمارے ہندوستان میں
مضمون نگاروں کی بہت ساری قسمیں ہیں-
پہلی قسم وہ ہے جو پورے ہاتھ کیا بلکہ پورے بازوؤں کے ساتھ امریکہ اور پورے
یورپ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔اگر امپورٹ کی ہوئی ’پیاز‘ بھی خراب ہو جائے
تو انکو اسمیں بھی امریکہ اور اسرائیل کا ہاتھ نظر آتا ہے کہ ضرور اسمیں
بھی اسرائیل نے اپنے ’جراثیم‘ گھسیڑ دیئے ہوں گے۔اور انکی تحقیق یا مضمون
کا موضوع امریکہ اور یورپ میں” شراب ،زنا اور خنزیر اور فحاشی و بے حیائی“
ہوا کرتا ہے مگر یورپ کی” معاشی،عدالتی،سیاسی اور تعلیمی نظام“ پر انکی
نگاہیں نہیں جاتی ہیں۔زنا اور فحاشی کی باتوں کوہی بیان کرکے اسکے خلاف
بولنے میں انکی ساری دلچسپی کیوں رہتی ہے اسکا علم تو خیر انہیں ہی ہو
گا۔مگر انکی سوچ منفی زیادہ اور مثبت کم ہوا کرتی ہے ۔اس قوم کی’ ترقی ،ایمانداری
،محنت ،لگن اور اتحاد‘ ان تمام چیزوں کی طرف سے ان کی آنکھیں بند رہتی ہے
یا یہ لوگ ہی بند کیے رہتے ہیں اس ڈر سے کہ خدا نہ کرے یہ ہم لوگوں میں
آجائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا تو ہماری ’روزی روٹی‘ کیسے چلے گی۔ ایک شخص
نے انہیں میں سے ایک عالم سے پوچھا کہ غیر مسلم ہوائی جہاز بنا رہے ہیںاور
مسلمان اس سے صرف حج کرنا جانتے ہیں ۔تو انھوں نے حلق سے’ تعوذ و تسمیہ‘
پڑھ کر ارشاد فرمایا کہ یہ” تسخیر من جانب اللہ ہے“ اور اللہ تعالی نے ان
کافروں کو ہمارے لیے’ مسخر‘ کر دیا ہے کہ وہ ہمیں جہاز بنا بنا کر دیں اور
ہم لوگ اس سے حج کریں چنانچہ یہ لوگ ”پدرم سلطان بود“ کی لوری سے محو خواب
رہتے ہیں اور یورپ پر تنقید کر کے خوش ہوتے ہیں اور’ زندہ دل قوم ‘کے فخریہ
نعرے سے پھول جاتے ہیں اور ان لوگوں کو جھوٹے خواب اور سراب کی اتنی عادت
ہو چکی ہے کہ اگر کوئی سچ بولے تو ڈر جاتے ہیں ۔حقیقت بتائی جائے تو بڑبڑا
اٹھتے ہیں اور کوئی سراب سے خبردار کرے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔
دوسری قسم میں وہ ”مقالہ نگار “ہیں جن کو اخباروں میں چھپنے کا بہت شوق ہوا
کرتا ہے اگر آپ کو اس سے اختلاف ہے تو ذرا اپنی تصویر چھپوا کر دیکھا دیں
اس کے لےے یا تو آپ کو سیاسی لیڈر بننا پڑے گا یا مذہبی لیڈر (ہمارے یہاں
تو اخبار میں کسی مضمون یا بیان و تصویر کا چھپنا ایک عظیم کارنامہ سمجھا
جاتا ہے) یہ قسم اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہے کہ دنیا میں کچھ ہو بس یہ اس
پر لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس قسم کی مثالیں آپ کو’ اردو اخباروں‘ میں
آسانی سے مل جائیں گی۔ انکی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی ہے ،تین چار اخبار کو
پڑھ کر الفاظوں کی ترتیب دے دی جاتی ہے اوراپنے نام سے چھپنے کے لیے بھیج
دیا جاتا ہے ۔ ان کا موضوع عام طور پر” دہشت گردی اوربے گناہ مسلم نوجوانوں
کی گرفتاریاں“ہوا کرتا ہے (کیونکہ ان موضوع پر لاکھوں کی تعداد میں مضامین
چھپ چکے ہیں،آسانی سے کٹ اینڈ پیسٹ ہو جاتا ہے)اور جب سے دہلی میں ” دامنی“
والا واقعہ ہوا ہے تب سے تو اس’ موضوع‘ پر مضامین کا سیلاب آگیا ہے۔پوری
امت اس ’سیلاب ‘میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ویسے اس کا الزام کسی کو نہیں دیا جا
سکتا کیونکہ سب کے دماغ میں اس پر اتنی معلومات ہو گئی ہے کہ اگر اسکو باہر
نہیں نکالیں گے تو ’برین ہیمرج‘ ہونے کا پورا خطرہ ہے۔
تیسری قسم ہمارے ان ”مذہبی اور سیاسی رہنما و علمائے کرام“ کی ہے جو عموما
جماعتوں، اداروں، مدرسوں اور سلسلوں کے’ تا حیات صدر‘ ہوا کرتے ہیں اور جن
کی جانشینی بھی انہیں کی ’اولادوں ،دامادوںیا زیادہ سے زیادہ خاندان‘ میں
سے ہوا کرتی ہے کیونکہ’ اوروں‘ میں قابلیت کا فقدان رہتا ہے ۔انکا موضوع
عموما’ دہشت گردی ،فسادات اور توہینِ رسالت ‘ہوا کرتا ہے۔اور یہ لو گ اسلام
پر ہونے والے ہر حملوں کا دفاعی انداز میں جواب دیتے ہیں ۔انکی پوری سوچ ہی
دفاعی ہوا کرتی ہے ۔ شاید’ مصلحت دور اندیشی اور رواداری‘ کے تقاضوں نے ان
لوگوں کو اس طرح سے جکڑ لیا ہے کہ اب چاہ کر بھی چھٹکارا حاصل نہیںکرپارہے
ہیں۔چاہے وہ توہینِ رسالت کا معاملہ ہو یااسلام مخالف فلم ہوسب میں یہ لوگ
فورا دفاع میں قلم اٹھا کے میدان میں کودپڑتے ہیں ۔اور صفحات کے صفحات وہی
پرانی گھسی پٹی باتوں سے سیاہ کر دیتے ہیں ۔اخبارات میں اس طرح کے جملے
پڑھنے کو ملیں گے کہیہ یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش ہے قدرت انکو کبھی
معاف نہیں کرے گییہ بدترین مجرم ہیں ،انکو انکے کیے کی سزا مل کے رہے
گییورپ اور اسرائیل اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیںوغیرہ
وغیرہ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے کیا جاتا
ہے۔ورنہ” اسلام اور آپﷺ“ سے ہر ایک واقف ہے بلکہ یہودی و عیسائی علماءقرآن
و حدیث سے ہم سے زیادہ واقف ہیں ۔سیاسی علمائے کرام تو خیر اپنی لیڈری
چمکانے کے لیے ’قلم‘ اٹھاتے ہیں ان کی تو مجبوری سمجھ میں آتی ہے مگر ہمارے
مذہبی علمائے کرام کوئی ٹھوس منصوبہ اس پر کیوں نہیں بناتے اور کیوں صرف
بیان بازی تک محدود رہ جاتے ہیں؟الا ماشاءاللہ۔ یہ لوگ یہودیوں و عیسائیوں
کی شرمناک کارستانیوں پر قلم نہیں اٹھاسکتے بس اسلام کا’ دفاع‘ کرتے ہیں۔
چوتھی قسم وہ ہے جو ’ ملت‘ کی حالت سے کراہ رہی ہے اور انکی ہر’ کراہ‘ ایک
مضمون کی شکل میں نکلتی ہے اور یہ مضمون عمومی طور پر” مسلمانوں کی
حالت،اتحاد کی کمی،مسلکی اختلافات ،مسلمانوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک اور
اردو زبان کی بدحالی“ وغیرہ پر ہوا کرتا ہے ۔اور یہ قسم ہر دن،ہفتہ اور
مہینہ مسلمانوں کی حالتِ زار پر ’مضامین‘ کی شکل میں آنسو بہاتی رہتی
ہے(دن،ہفتہ،مہینہ سے مراد اخباروں ،ہفتہ واری میگزین اور منتھلی پرچوں سے
ہے)۔ اپنے اعمال صحیح ہوں یا نہ ہوں دوسروں کی اصلاح کرنا اپنا فرض سمجھتے
ہیں جسکا نتیجہ یہ ہے کی آج’ مصلحین‘ تو بہت ہیں مگر’ اصلاح‘ ندارد
ہے۔(ویسے بھی ہماری قوم میں دو چیزیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ایک مفت
مشورہ دینا اور دوسرا اپنے کو چھوڑ کے باقی سب کی اصلاح کرنا)۔اور انکے پاس
ہر مسئلے کو حل کرنے کا ایک ہی فارمولہ ہوا کرتا ہے اور وہ فارمولہ ہے ”چاہیے“۔
جیسے ہم کو تعلیمی میدان میں آگے آنا چاہیے اتحاد پیدا کرنا چاہیے وغیرہ
وغیرہ ہونا چاہیے اپنی تقریروں تحریروں میں یہ لوگ مسلمانوں کے مسائل
کوپوری طاقت و توانائی سے اٹھائے سرپٹ بھاگتے ہیں اور آخر میں حل پیش کرتے
وقت ’چاہیے‘ کا ٹیپ ریکاڈر بجنے لگتا ہے(تو اسکا فائدہ کیا ہوا؟جانتے تو سب
ہی ہیں) اور اگر ان سے ’چاہیے والے‘ مشورہ پر انکی مدد مانگ لو افراد یا
روپئے کی شکل میں تو سارا جوش ٹھنڈا اور منہ ذبح کیے ہوئے جانور کی طرح لٹک
جاتا ہے۔
پانچویں قسم ہمارے ان ”مذہبی و سیاسی قائدین و رہنما“ کی ہے جنھوں نے ہمارے’
ماضی‘ کو اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے ،ماضی کے حسین خوابوں میں کھوئے رہتے
ہیںاور حال کی طرف سے نظریں ہٹائے ہوئے ہیں( ویسے بھی امتِ مسلمہ وہ واحد
قوم ہے جسکے پاس دینے کے لیے سوائے ماضی کے اور کچھ نہیں ہے اور امریکن وہ
قوم ہے جن کے پاس دینے کے لیے ماضی کے سوا سب کچھ ہے) یہ لوگ ہمیشہ’ مدعی‘
بنے رہتے ہیں لیکن کبھی’ مدعا علیہ‘ نہیں بنے اور اپنی’ معترض زبان‘ اور’
تنقیدی آنکھ‘ کو لیے دوسرے قوموں کے تعاقب میں دوڑتے رہتے ہیں لیکن اپنی
حالت کو بیان کرتے وقت ان آنکھوں کو اندھا اور زبانوں کو خاموش کر دیتے ہیں
۔جہاں خوبی نظر آتی ہے وہاں سے شانِ بے نیازی سے گزر جاتے ہیں اور جہاں
کوئی ذرا سی کمی نظر آگئی تو وہاں ٹارچ لیکر نظریں ٹکا دیتے ہیں اور اپنی
تاریخ ایک’ صحیفہ‘ کے طور پر نظر آتی ہے اور دوسروں کی تاریخ ایک’ صحیفہِ
بد‘ کے طور پر نظر آتی ہے۔زمین کے قلابے کو آسمان سے ملانا انکا مذہبی
فریضہ ہوتا ہے ۔اگر غیر مسلم نے ماضی کی تعریف کر دی تو یہ لوگ فورا لے
اڑتے ہیں(حال کو بھول جاتے ہیں)اور ان لوگوں کو غیر مسلموں کے منہ سے تعریف
ایسے بھاتی ہے جیسے جونک کو خون۔اور اگر کسی نے پوچھ دیا کہ جب اتنے ہی
اچھے ہیں تو ہر جگہ ذلیل و رسوا کیوں ہو رہے اور کیوں مسلمانوں ہی پر اللہ
تعالی کی مار پڑ رہی ہے؟؟ تو دین کے داعی روایتی چرب زبانی سے فرمائیں گے
کہ ہم اللہ تعالی کے سپاہی ہیں تو اللہ تعالی اگر ہمارا امتحان نہ لے گا تو
کیا کافروں کا لے گا؟؟
چھٹی قسم وہ ہے جو اپنے مضامین کو ”مکس جیلی“ کی طرح لکھتے ہیں ۔جس طرح سے
مکس جیلی کئی طرح کے فروٹ کو ملا کر بنتی ہے اسی طرح سے انکے مضامین
درحقیقت کئی سارے مضامین کا ’مجموعہ‘ ہوا کرتا ہے ۔عموما انکے مضامین
مسلمانوں کی حالت سے شروع ہو تے ہیں اور ورلڈٹریڈ سینٹر،افغانستان،عراق ،فلسطین
،لیبیا،تیونس ،مصروشام سے ہوتے ہوئے ایران پر آکر ختم ہو جاتے ہیں۔قاری کی
سمجھ میں نہیں آتا کہ کہنا کیا چاہا ہے۔بلکہ میرا دعوی ہے کہ بعض دفعہ خود
مصنف کے بھی سمجھ میں نہیں آتا ہو گا کہ وہ کہنا کیا چاہ رہا ہے مگر قاری
تو بہر حال قاری ٹھیرا تو پانی کے گھونٹ پی کے رہ جاتا ہے ۔ (ممکن ہے سامنے
ملنے پر انکا خون بھی پی جاتا) دراصل یہ لوگ بھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور ایک
ہی بار میں سب کچھ اگل دینا چاہتے ہیں اس لیے قارئین کو بھی ان مصنفین کے
جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔
ساتویں قسم وہ ہے جومقابلةً مضامین لکھا کرتے ہیں۔اور جیسے شعرائے کرام
اپنے اپنے اشعار دوسروں کو پکڑ پکڑ کر زبردستی سنایا کرتے ہیں ویسے یہ لوگ
اپنے اپنے ’نقطے‘ دوسروں کو سنایا کرتے ہیں ۔ممکن ہے جب یہ آپ سے ٹکرائیں
توکچھ اس طرح کی گفتگوہوآپ نے میرا وہ ’نقطہ‘ پڑھا جو میں نے فلاں مضمون یا
فلاں اخبار میں اٹھایا تھا؟آپ چکرا کے رہ جائیں کہ صاف صاف بول دوں یا مروت
کر جاﺅں ایسے مضمون نگار عموما مختلف ’اردو اکیڈمی،ٹرسٹ،این جی او‘ وغیرہ
سے جڑے ہوتے ہیں ۔(ویسے بھی ہماری قوم دو چیز بنانے میں سب سے آگے ہے ۔ایک
’سیاسی پارٹی‘ بنانا اوردوم مختلف ’اکیڈمی،ٹرسٹ‘ وغیرہ قائم کرنا)جنکا
مقصداردو زبان کو فروغ دینا کم اور اپنے کو’ فروغ ‘دینازیادہ رہتا ہے۔ ویسے
انکی بھی مجبوری ہوا کرتی ہے اب اگر اکیڈمی اور ٹرسٹ کی’ صدارت ‘کی دوڑمیں
شامل رہنا ہے (اورساتھ ہی ساتھ مختلف ’ایوارڈ‘ پر بھی نظر ٹکی رہتی ہے)
تومضمون نگاری تو لازمی ہے بالکل ایسے ہی جیسے ’لیکچرر‘ کو ’پروفیسری‘ تک
پہنچنے کے لیے چاہے نہ چاہے کتابیں تصنیف کرنی پڑتی ہیں۔ (اس طرح کی
تحریروں میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے موضوع کے)اور یہ لوگ اپنے مضامین کو دیکھ
کر ایسے خوش ہوتے رہتے ہیں جیسے ایک کثیرالعیال ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر
خوش ہوتی رہتی ہے۔
آٹھویں قسم وہ ہے جو اپنے’ سفرنامے ‘لکھا کرتی ہے ۔ یہ لوگ جب بھی سفر سے
واپس آتے ہیں تو گھر میں آتے ہی بیگ اٹیچی رکھ کر سفرنامہ لکھنے بیٹھ جاتے
ہےں یہ الگ بات ہے کہ بعد میں قاری کوانکا سفرنامہ پڑھ کر انگریزی کا
سفر(suffer) کرنا پڑتا ہے ۔ان سفرناموں میں دو باتیں خاص طور پر آپ کو
پڑھنے کو ملیں گی۔اول ہوائی جہاز میں انکی سیٹ کے بغل میں ایک’ حسین لڑکی ‘
ضرور ملے گی جو انکی طرف نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ مسکرا کے باتیں بھی کرتی
ہے(ہوائی جہاز سے کم پر یہ لوگ راضی نہیں ہوتے)۔دوم یہ کہ ان لوگوں کو
یونیورسٹی،میوزیم،لائبریر ی اور مختلف اکاڈمی ہر جگہ ’ ہاتھوں ہاتھ‘ لیا
جاتا ہے۔اور یہ سارے سفرنامے پتہ نہیں کیوںایک جیسے پڑھنے میں لگتے ہیں بس
ناموںاور مقامات کا فرق نظر آتا ہے۔
نویں قسم وہ ہے جنکی ساری دلچسپیوں کا محور ’بالی ووڈ‘ ہوا کرتا ہے اور”
فلم ،اداکار اور اداکارہ“ سے تعلق رکھنے والی ہر خبر کو قارئین کی آنکھوں
میں انڈیلنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اور خصوصی طور سے ’خان برادرس‘(شاہ
رخ،سلمان،عامر)کے ہر پل کو بیان کرنا ضروری رہتا ہے۔ان لوگوں نے آج کتنا
مسکرایا،کتنی بار ہاتھ ہلایا،کس رنگ کا کپڑا پہنا،کیا کھایا اور کیوں کھایا
وغیرہ وغیرہ ۔اور اس میں” مسلمانوں کی ترقی “پر فخر سے پھول جاتے ہیں ۔حال
ہی میں شاہ رخ کے بیان پر ان لوگوں نے مضامین کی جھڑی لگا دی تھیکیوں پتہ
نہیں۔
آخری خاص الخاص بات کہ مضمون نگاری میں بھی” برانڈڈ نام“کا سکہ چلتا ہے
ایسے ہی جیسے ’میکڈونل‘ کا ’برگر اورپزا‘۔اگر آپ کو نہ یقین ہو تو آپ ایک
مضمون لکھیے اور اپنے نام سے بھیج دیئے ،یقین کریں پوسٹ مین کچھ دن بعد وہی
مضمون آپ کے منہ پر مار کے چلا جائے گا اور آپ اپنا سا منہ لیکر رہ جائیں
گے بلکہ ممکن ہے کہ آپ کو دوسروں کا بھی منہ لینا پڑے۔پھر آپ اسی مضمون کو
کسی’ برانڈڈ نام‘ سے بھیج دیئے اور آپ کا وہی مضمون شائع ہو جائے گا اور آپ
کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ایک اور آسان طریقہ ہے پہلے آپ ایک
تنظیم بنایئے (فرضی صرف کاغذ پربھی چلے گی )اور اس تنظیم کے نام سے پہلے ”
کل ہندیاآل انڈیایاملی یاعالمی یا انٹرنیشنل“ لگانا مت بھولیے گاپھر اسکے
صدر بن جایئے اور شان سے بیانات و مضامین لکھیے اور اخباروں رسالوں میں آتے
رہیے۔ |