ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سکریٹری آف سٹیٹ برائے دفاع
افغانستان تشریف لائے۔اس افغانستان جہاں وہ پورے تام جھام اور توپ و تفنگ
کے ساتھ موجود ہیں۔جہاں نہ صرف امریکی بلکہ ان کے نیٹو اتحادیوں کی فوجیں
بھی ان کی مدد کو موجود ہیں۔امریکہ ۲۰۱۴ ء کے بعد بھی اپنی فوجیں افغانستان
میں رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے افغانستان کے ساتھ ایک معاہدے پہ دستخط
کرنا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں ان کے اپنے ہاتھوں اور ان کی کٹھ پتلی
کہلانے والا تخت کابل پہ براجمان حامد کرزئی اس معاہدے پہ دستخط کرنے سے
انکاری ہے۔ساری دنیا کی کٹھ پتلیوں کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ کبھی
کبھار کٹھ پتلیاں بھی حرف انکار ادا کر سکتی ہیں۔چک ہیگل اس معاہدے پہ دست
خطوں کے لئے زورتو کیا ڈالتے حامد کرزئی نے ان سے ملنے سے بھی انکار کر
دیا۔لوگ کہتے ہیں کہ حامد کرزئی کے پاس ہے کیا جس کے لٹ جانے کا اسے ڈر
ہو۔لوگ بھول جاتے ہیں کہ اور کچھ ہو نہ ہو کرزئی زندہ آدمی ہے اور سانس
لیتا ہے۔
حامد کرزئی نے ملاقات سے انکار کر کے امریکہ اور اس کے وزیر دفاع کو ایسا
خفیف کیا کہ انہیں اپنی اس خفت کو مٹانے کے لئے اپنی ایک اور باجگذار ریاست
کا دورہ کرنا پڑا۔جہاں صدر وزیر اعظم اورآرمی چیف سمیت سارے حکومتی عہدیدار
سر جھکائے ابرار الحق کا یہ گانا گنگنا رہے تھے کہ ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ۔ مدت
سے دل میں یہ خواہش مچلتی ہے کہ کبھی ایسا ہو کہ امریکی وزیر دفاع پاکستان
آئے تو اس سے صرف پاکستان کا وزیر دفاع ملاقات کرے اور وزیر خارجہ آئے تو
پاکستانی وزیر خارجہ اس کے ساتھ ملاقات کرے لیکن خوف اور بھوک دو ایسے
عوامل ہیں جو سب سے پہلے عزتِ نفس کا قتل ِ عام کرتے ہیں۔یہاں تو حال یہ ہے
کہ کوئی امریکی چوہا بھی غلطی سے ادھر آ نکلے تو ہم چشم براہ ہوتے ہیں کہ
آیا ہے تو کچھ دے کے ہی جائے گا۔ملک ہے یا طوائف کا کوٹھہ جہاں موجود ہر
فنکار پیروں میں گھنگھرو باندھے ہمہ وقت کسی تماش بین کی آمد کا منتظر رہتا
ہے۔کوئی نہ آئے تو وقت کا فائدہ اٹھا کے ہم پڑوسیوں ہی کو رجھانے میں لگے
رہتے ہیں۔چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ،گاتے ہمارے حکمران بھارت سے
برابری کی سطح پہ تعلقات نہیں کاروبار چاہتے ہیں چاہے اس کی جو بھی قیمت
ادا کرنی پڑے۔
عمران خان نے پشاور میں نیٹو سپلائی نہیں روکی صرف پاکستان کے لوگوں کو راہ
دکھائی ہے کہ وہ کمزور نہیں۔چاہیں تو اپنی مرضی سے اپنی تقدیر خود بدل سکتے
ہیں۔اگر تحریک انصاف نیٹو سپلائی روکنا چاہتی تو وہ پورے ملک کی سیاسی
پارٹیوں میں اتفاق پیدا کرتی۔اپنے طور پہ ایک اے پی سی طلب کرتی۔نیٹو
سپلائی روکنے کا ون پوائنٹ ایجنڈا ان سب کے سامنے رکھتی۔سارے پاکستانی
سیاست دان ہی امریکہ کے خلاف نعرہ زن رہتے ہیں۔انکار کرتے تو عوام کے سامنے
ان کی دو رنگی پاکستانی عوام کے سامنے آ جاتی۔ تحریک انصاف اس صورت میں
عوام کو اس تحریک میں شمولیت کی دعوت دیتی۔اس صورت میں لوگ اپنے لیڈروں کو
چھوڑ کے تحریک انصاف کے سفر میں ان کے ہمسفر ہوتے۔کیا عمران صرف نیٹو
سپلائی روکنا چاہتے ہیں۔ایسا نہیں وہ امریکہ سے باعزت مذاکرات چاہتے ہیں۔با
معنیٰ مذاکرات ،ایسے مذاکرات جیسے دو آزاد اور خود مختار قوموں اور ملکوں
کے درمیان ہوتے ہیں۔ایسا ممکن ہے لیکن اسی صورت میں جب رائے عامہ پاکستان
کی خود مختاری اور سلامتی کے لئے خود فیصلہ کر کے اس تحریک میں شامل ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم افغانستان نہیں،ہم ایران بھی نہیں نہ ہم عراق
ہیں۔ہم ایٹمی طاقت ہیں،بیس کروڑ لوگ،ہم گوادر کے مالک ہیں جہاں ہمارے سامنے
آدھی سے زیادہ دنیا سر جھکا کے گذرتی ہے۔ہم ایک ایسی بوتل کے مالک ہیں جس
میں ایک بہت بڑے معاشی جن کی جان بند ہے۔وہ جن جس کی ساری دنیا میں ایک
دھاک ہے اور جو ضرورت پڑنے پہ بولتا ہے تو کہتا ہے کہ اسلام آباد پہ حملہ
بیجنگ پہ حملہ تصور کیا جائے گا۔ہماری تاریخ رہی ہے کہ ہم گروہوں ٹولیوں
اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن وقت پڑنے پہ اس چرخ نیلگوں نے ہمیں یوں
بھی اکٹھے ہوتے دیکھا ہے کہ آج جو ہماری جانیں لے رہے ہیں کل کو وہ بھی
ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ہمارے دشمنوں نے کمال مہارت سے ہمارا رخ اپنی
طرف سے پھیر کے اپنے ہی لوگوں کی طرف پھیر دیا ہے۔ہم جب دوبارہ اپنا رخ
دشمن کی طرف کریں گے تو ہماری پیٹھ ننگی نہیں ہو گی۔
جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتی۔معاملات مذاکرات کی میز ہی پہ حل ہوتے
ہیں۔مذاکرات لیکن طاقتور اور کمزور کے درمیان نہیں ہوا کرتے برابر کا جوڑ
لوگوں کو مذاکرات پہ آمادہ کرتا ہے۔مانا کہ ہم جنگی مشینری میں امریکہ کے
جوڑ کے نہیں،بھارت کے بھی نہیں کہ وہ بھی ایک بڑا ملک ہے۔اﷲ کی رحمت اور اس
پہ بھروسہ ہی ہمیں اس خوف سے نجات دلا سکتا ہے۔مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا
ہے سپاہی۔ہم تو بے تیغ بھی نہیں اﷲ کی تلوار کے وارث ہیں اور وہ ہے ہمارا
محلِ وقوع۔امریکہ نے بھلے ہی افغانیوں کا تورا بورا بنا دیا ہو لیکن اب اس
کی معیشت بیٹھ رہی ہے۔تورا بورا سے اڑتی راکھ اسے اندھا کیے دیتی ہے۔وہ جان
چھڑا کے بھاگنا چاہتا ہے۔یہاں ہماری قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہے۔وطن ِ
عزیز پہ حکمران کمال کے تاجر ہیں۔ایک بھٹی سے انہوں نے اپنی محنت اور لگن
سے ملوں کی ایک سلطنت کھڑی کر لی ہے۔ خریدنے اور بیچنے میں کوئی ان کا ثانی
نہیں۔مرغیوں پہ نظر ڈالیں تو وہ بھی سونے کے انڈے دینے لگتی ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ اب کی بار وہ ایک سودا پاکستان کے لئے بھی کریں۔ایک اچھی
ڈیل۔کاروبار میں رسک تو ہوا ہی کرتا ہے۔حامد کرزئی کے پاس لٹانے کو کچھ
نہیں تو ہمارے پاس کیا ہے۔صنعتوں کے لئے گیس بند ہو چکی۔پانی پہ بھارت قابض
ہے۔بجلی عنقا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی بازار میں کم ہمارے ہاں
بڑھ رہی ہیں۔آلو اور پیاز قصہ ماضی ہوا۔اب لوگ بچے بیچ نہیں رہے انہیں
نہروں میں پھینک کے خود ان کے پیچھے چھلانگیں لگا رہے ہیں۔مرنا ہی ہے تو آؤ
ناں عزت کے ساتھ مرتے ہیں۔بزدلی بے غیرتی بے حمیتی اور بے حسی کی موت بھی
کوئی موت ہوتی ہے۔ |