پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرانے کے
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعدامیدواروں نے اپنی انتخابی مہم چلانے کی
جانب توجہ کم اور ٹکٹ کے حصول کیلئے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور قومی و
صوبائی اسمبلی کے ممبران کے دفاتر میں چکر زیاد ہ لگانے شروع کردیئے ہیں
جبکہ قیادت ٹکٹوں اور امیدواروں کے نامزدگی کرنے کے فیصلہ میں بلکل بے بس و
مجبور ہوکررہ گئی ہے جس کی وجہ سے امیدواروں انتخابی میں مہم چاشنی ختم
ہوکر رہ گئی ہے -
سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کے
منعقد کروانے کیلئے تیاریاں مکمل کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کو
درخواست کی تو سیاسی جماعتوں نے دو مختلف قراردوں کے زریعے اس کے التواء
اور شیڈول میں تبدیلی کی قراردیں پیش کرکے منظور کیں اور پھر میڈیا کے
زریعے یہ رائے عامہ قائم کرنے کیلئے بھی کامیاب ہوگئیں کہ مقررہ وقت میں
الیکشن کا انعقاد نامکمن ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے حکومت اور الیکشن
کمیشن کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے الیکشن شیڈول میں تبدیلی کرنے رعایت دی
جس کے مطابق الیکشن کمیشن نے سند ھ میں اٹھارہ اور پنجاب میں تیس جنوری کو
انتخابات کروانے کی حتمی تاریخ دی بلوچستان حکومت نے پہلے ہی شیڈول کے پر
عمل درآمد کرتے ہوئے سات دسمبر کوانتخابات منعقد کروا کردیگر صوبائی
حکومتوں کیلئے مثال قائم کی ہے جس کی وجہ سے امیدواروں کو ایک بار امید لگ
گئی ہے کہ ا لیکشن مقررہ وقت پر ہی ہونگے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن
نے تادم تحریر شڈول کا اعلان نہیں کیا ہے اور آئے روز نئے تاریخ دے رہا ہے
اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے بھی ایک رٹ پٹیشن کے فیصلہ میں پنجاب میں
آئین کے مطابق انتخابات سیاسی و جماعتی بنیادوں پر کروانے کے احکامات صادر
کیے ہیں جس سے پنجاب حکومت ایک نئے امتحان میں پڑ گئی ہے چونکہ اس قبل وزیر
اعظم نواز شریف نے پنجاب نے غیر سیاسی جماعتوں پر بلدیاتی الیکشن کروانے کی
اجازت دی تھی جس کی وجہ سے امیدواروں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے مشترکہ
پینل دیکر کاغذات نامزدگی بھی جمع کروائے اور نیا فیصلہ آنے کی وجہ سے پہلے
سے بنے ہوئے پینل کو سیاسی وابستگی الگ الگ ہونے کی وجہ سے ایک ساتھ چلنا
مشکل ہوگیا ہے دوسری جانب گزشتہ جنرل الیکشن میں پنجاب میں مسلم لیگ ن نے
دوتہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرکے حکومت بنائی ہے اور الیکشن میں عوام
نے سابقہ دور میں بڑھتی ہوئی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سے تنگ کر
پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو عبرت ناک شکت سے دو چار کیا اوریہ امید باندھی
کہ ن لیگ کی حکومت اقتدار میں آکر عوامی مسائل کو بنیادی سطح پر حل کرے گی
لیکن ن لیگ نے اقتدار کو سنھبالتے ہی بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں
میں اضافہ کرکے مہنگائی کے ایک نئے دور کا آغاز کردیا سالانہ بجٹ میں بھی
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی خاطر خواہ نہ کیا جس کی وجہ سے بڑھتی ہوئی
مہنگائی نے غریب اور درمیانہ طبقہ کے ساتھ ساتھ گریڈ سترہ سے کم سرکاری
ملازمین کی کمر توڑ دی ہے جس کی وجہ سے پہلے چھ ماہ کے دوران ہی حکومت کے
خلاف پروپیگنڈہ شروع ہوگیا ہے جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو سیاسی جماعتوں
پر الیکشن ہونے کی صورت میں عوامی رائے کا ان کے خلاف بھی استعمال ہونے
خدشہ ہونے پر ظاہر ہونے پر امیدواروں کو ٹکٹ دینے سے قاصر نظر آرہی ہے
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنے حلقہ انتخاب سے بھاری اکثریت سے
کامیاب ہوئے تھے اور راولپنڈی میں ہونے کے ناطے اس حلقہ کو مسلم لیگ ن کا
گڑھ تصورکیا جاتا ہے روات چونترہ اور کلرسیداں مرکز کی یونین کونسل کی سطح
پر الیکشن میں حصہ لینے والے تقریباَتمام امیدواروں کا تعلق حکومتی جماعت ن
لیگ ہی سے ہے جس کی وجہ سے ٹکٹ کے لیے امیدوار کی نامزدگی ن لیگ کی قیادت
کیلئے ایک بڑا مسلہ بن ہوا ہے اور امیدوار بھی ٹکٹ کے حصول کیلئے دن رات
چوہدری نثار علی اور ایم پی اے قمرالسلام راجہ سے رابطہ کررہے ہیں لیکن ن
لیگ نے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کرلی ہے چونکہ الیکشن میں حصہ لینے
والوں میں اکثریت ایسے امیدواروں کی ہے جوکہ چوہدری نثار علی خان کی حلقہ
میں آمد اور انتخابی جلسوں کے مکمل اخراجات برداشت کرتے ہیں اور اب چوہدری
نثار اپنے کسی بھی کارکن اور وورکر کو ٹکٹ نہ دیکر ناراض نہیں کرنا چاہتے
ہیں اس وجہ سے حلقہ پی پی پانچ سے ایم پی اے قمرالسلام راجہ نے بھی چوہدری
نثار کی پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مکمل خاموش اخیتار کرلی جبکہ ہر
امیدوار لیکی ہونے کے ناطے ٹکٹ حاصل کرنے کے دعوے کررہا ہے لیکن قیادت کی
جانب سے ٹکٹ کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوچکا ہے ن لیگ کی
قیادت کو چاہیے کہ امیدواروں کے ٹکٹ کی بے چینی کے خاتمہ کیلئے لیگی
کارکنوں کی کمیٹی تشکیل دیکر ن لیگ کے لیے قریانیاں دینے والے اورمیرٹ پر
آنے والے امیدواروں کا اعلان کریں تاکہ امیدوار اپنے پینل تشکیل دیکر اپنی
انتخابی مہم کوبہتر طریقے سے چلا سکیں- |