جنید انصاری میرے صحافی و کالم نویس دوست
ہیں۔یہ میر پور ریڈیو ایف ایم 93 کے پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘
کے اینکر پرسن بھی ہیں۔یہ بڑے ہی نڈر،بے باک،ادبی ،اور اپنی دھن کے پکے
انسان ہیں جو کبھی بھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے ۔پرنٹ میڈیا سے لیکر
الیکٹرانک میڈیا تک ۔سیاست سے لیکر معشیت تک،معاشرے سے لیکر معاشرتی مسائل
تک وسیع تجربہ اور عمیق مطالعہ اور مسائل کے حل کا ادراک رکھتے ہیں اور
ہمیشہ بہت جارحانہ اوربے لاگ تبصرے کرتے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری
عبدالمجید کی جانب سے جنید انصاری جیسے بااصول صحافی کے ساتھ اس طرح کے
ناروا اور نامناسب رویے اور انتہائی بد زبانی اور گالم گلوچ کے مظاہرے
پرجنید انصاری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مجھے یہ کالم بہت پہلے لکھنا
چائیے تھا مگر چند ایک ذاتی مصروفیا ت کی بنا پر میں بذریعہ کالم جنید
انصاری کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے قارئین تک اس واقعے کی تفصیلا ت نہ
پہنچا سکا۔تو لیجیے جی آج ہم ،وفاق کے سامنے مجبور،بے بس،بے اختیار’’مجاور‘‘
کم وزیر اعظم کی طرف سے جنید انصاری کے ساتھ ہونے والی غیرمہذب گفتگو کا
احوال بتانے کی جسارت کر رہے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ’’ مجاور ‘‘وزیر اعظم
اس کو بھی اپنی شان میں گستاخی تصور کر بیٹھیں۔ لیکن جو بھی ہو انھیں
کڑواسچ کی یہ کڑوی حقیقت تو ہاضم کر نی ہی پڑے گی۔تو قارئینمعاملہ یو ں ہے
کہ پچھلے دنوں عزت مآب وزیر اعظم آزاد کشمیر جناب چوہدری عبدالمجید صاحب
المعروف’’مجاور ‘‘سرکار نے میر پور میں ایک پریس کانفرنس کی ۔اس پریس
کانفرنس میں دیگر صحافیوں کے ساتھ جنید انصاری بھی شامل تھے،پریس کانفرنس
کے خاتمے کے بعد جب ،وزیر اعظم چائے نوش فرمانے کے لیے ہال میں تشریف لے
گئے تو وہاں پر موجود دیگر صحافیوں کی طرح جنید انصاری نے بھی اپنے پیشے کے
اعتبار سے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شائع
ہونے والی خبریں جن میں،متاثرین زلزلہ سکینڈل،ملبہ سکینڈل ،دو دو لاکھ کی
ملازمت سکینڈل ، متاثرین منگلاڈیم سکینڈل،ایم ڈی اے سکینڈل،جناح ٹاؤن کرپشن
سکینڈل ،نیو میر پور سٹی اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات میں ہونے والی کرپشن
کے الزاما ت کے بارے میں سوال کیا تو وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید سیخ پا ہو
گئے۔اور اپنی عادت کے عین مطابق ادب آداب کو سائیڈ پر رکھ کر گالم گلوچ اور
انتہائی شرمناک الفاظ استعمال کرتے ہوئے جنید انصاری کے ساتھ دھمکی آمیز
لہجے میں گفتگو فرمائی۔اور یہیں پر بس نہ کیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ تم
عظیم دت کی زبان بول رہے ہو (بیچارے عظیم دت کا قصور یہ ہے کہ اُس نے میر
پور میں ایک پبلک پارک کی جگہ پی ۔سی ہوٹل کی حکومت کی جانب سے منظوری کی
مخالفت کی تھی)اور تمہارا تعلق اس خاندان سے ہے جس نے منگلا ڈیم بنانے کی
مخالفت کی تھی اور بد نصیبی بالائے بد نصیبی یہ کہ ہمارے وزیراعظم صاحب
بہادر یہ بھول ہی گئے کہ وہ کس منصب پر فائزہیں اور عوام کے ساتھ کس طرح سے
بات کرنی ہے۔اس بداخلاقی کا مظاہرہ یہی ختم نہیں ہوا بلکہ جنید انصاری کو
یہ بھی کہا گیا کہ تم ایک احسان فراموش انسان اور ’’بواسیری کیفیت‘‘ والی
زبان رکھتے ہو۔ بد تمیزی ،بد اخلاقی،اور غیرمہذب رویہ تو ہمارے سیاست
دانواں،حکمرانوں،بیورکریسی اور انتظامیہ کا وطیرہ ہے،اس میں انکا بھی قصور
نہیں کیونکہ ہمارہ معاشرہ ہی ایسا ہے جس میں ،بے بس ،لا چار،مجبور،غربت و
افلاس،مہنگائی و بیروزگاری، لاقانونیت اور نا انصافی کے مارے ووٹرز، پارٹی
ورکرز،حکمرانوں کے چاپلوس حواری، کرپٹ اور نااہل انتظامیہ کے اپنے رویئے کا
ردِعمل یا شاخسانہ ہے۔کیونکہ مجبور ،بے بس ،لا چار،پارٹی ورکرز ار ووٹرز نے
تو انکی بد اخلاقی کو اپنی مجبوریوں کے پیشِ نظر برداشت کرنا ہی ہوتا
ہے۔جبکہ چاپلوس قسم کے انکے کارندے وحواری،اپنی طاقت کو دوام بخشنے کے لیے
اور انتظامیہ اپنی کرپشن اور ناہلی کو چھپانے کے لیے انکی بد اخلاقی کو
برداشت کرتی ہے،رہ گیا ریاست کا چوتھا ستون صحافت،(معذرت کے ساتھ)جس میں اب
صحافیوں کی جگہ چند’’منشیوں‘‘ نے لے لی ہے جو ماہوار چند روپے لیکر غلط اور
بے بنیاد بیان بازی کرتے اور دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ہیں وہ ’’منشی‘‘ ٹائپ
صحافی بھی قیادت کے اس نامناسب رویئے کو اپنے نان نفقے کی خاطر برداشت کر
ہی لیتے ہیں۔جبکہ ریاست کے اس چوتھے ستون میں جنید انصاری جیسے ایک
پروفیشنل صحافی کے ساتھ اس طرح کا رویہ اور بد زبانی انتہائی قابل مذمت عمل
ہے ۔جنید انصاری اور ان جیسے سینکڑوں ایسے صحافی ہیں جو اپنے علم ،اپنے قلم
اور اپنی آواز کے ذریعے معاشرے کو صحیح سمت دکھاتے ہیں۔سچ بولتے ہیں سچ
لکھتے ہیں اور ریاست اور ریاستی عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر وقت کے
فرعونوں سے ٹکر لیکر انکی کرپشن اور نا اہلیت کو عوام کے سامنے لاتے ہیں
اور آخر کا رنتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ وہی جو جنید انصاری کے ساتھ ہوا۔کہ حاکم
وقت ایک صحافی کو بھری محفل میں اسکے خاندان سمیت ملک کا غدار قرار دیے
دیتا ہے اور بد اخلاقی کی آخری حد پر جا کر یہ کہہ دینا کہ تم ایک
’’بواسیری کیفیت‘‘ والی زبان رکھتے ہو یہ بات کہناکسی ملک کے وزیر اعظم کے
شایانِ شان نہیں ہے۔
قومیں ہمیشہ اپنے لیڈر کے پیچھے چلتی ہیں اور جو کچھ لیڈر کہتا اور کرتا ہے
قوم اس کو فالو کرتی ہے۔ایک اچھا لیڈر قوم کا مستقبل سنوارنے ،خطے کی معشیت
کو مضبوط اور سرحدوں کو مستحکم بنانے کی تگ و دو کرتا ہے ۔تعلیم کوعام اور
یکساں بناتاہے،میرٹ اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے کے لیے اقدامات کرتا
ہے ،صحت ،روزگار،اور دیگر بنیادی سہولیات عوام کی دہلیزتک پہنچانے کا
بندوبست کرتا ہے جس کی بناء پر ایک تہذیب یافتہ،باادب، ایماندار،
دیانتدار،قانون اور آئین کا پابند معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں لوگ اپنی زندگی
خوش و خرم طریقے سے گزارتے ہیں،لیکن ہمارے اس خطے آزاد کشمیر میں الٹی گنگا
بہتی ہے،جہاں ہمارے وزیر اعظم صاحب بہادر خود کو لاڑکانہ کی قبروں کا ’’مجاور‘‘کہلوانے
میں فخر محسوس کرتے ہیں۔اور عوام کو کیڑے مکوڑوں سے بھی گیا گزرا سمجھ کر
انکی ہر مقام پر تذلیل کی جاتی ہے۔وہ عوام جو دن رات محنت کر کے پیسہ کماتی
ہے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ ریاست کو ٹیکس دیتی ہے اس ٹیکس سے
یہ ’’مجاور‘‘ حضرات اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور اپنے اللوں تللوں پر صر ف
کرتے ہیں جبکہ قوم ٹیکس دینے کی باوجود، غربت، بیروزگاری،مہنگائی،
ناانصافی،اور ذلت کی چکی میں پستی چلی آرہی ہے۔ہمارے’’ مجاور‘‘ وزیر اعظم
صاحب بہادر سیاسی خود کش بمبار ہیں،جنہوں نے ادب آداب،تہذیب،وضع داری،رکھ
رکھاؤ، ریاستی ادارے،معشیت،اور ہر قومی ادارے کو اپنی اناء اور اقتدار کے
غرور کے حملوں،ذاتی اناء اور تکبر کے بموں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔کشمیری قوم
کی عزت ،حُرمت،اور تشخص بھی گڑھی خدا بخش اور نوڈیرو سرکار کے قدموں میں
ڈال کر اقتدار حاصل کرنے والے’’ مجاور ‘‘وزیر اعظم یہ بھول گئے ان کی پارٹی
کوعوام نے اس لیے مینڈیٹ دیا تھا کہ تحریک آزاد کشمیر کے بیس کیمپ کو مضبوط
اور قوم کو متحد کریں مگر محترم نے عنان اقتدار سنبھا لتے ہی پوری کشمیری
قوم کا ریاستی تشخص پامال کیا اور تحریک آزادی کشمیر کے اس بیس کیمپ کو
کرپشن کیمپ اوراقتدار کا ریس کیمپ بنا دیا۔اور ہاں یہ کرپشن کیمپ اور
اقتدار کا ریس کیمپ والی بات میں نہیں کہتا جی یہ الفاظ سابق وزیر اعظم
آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ہیں جو ایک دور میں موجودہ وزیر
اعظم آزاد کشمیر کے قائداور انکے دل کی دھڑکن بھی تھے مگر بدلتا ہے رنگ
آسماں کیسے کیسے۔۔!
جناب وزیر اعظم صاحب اگر عوام کی خدمت کو در گزر کر کے آپکی وفاداری کا
معیار ’’مجاوری‘‘ ہے تو آپ’’ مجاور‘‘ بنیں اور ضرور بنیں ہمیں آپکی ’’مجاوری‘‘
پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہمیں بس اعتراض ہے صرف اس بات پر کہ آپکی اس’’
مجاوری‘‘ سے پوری کشمیری عوام کاریاستی تشخص پامال ہوتا ہے اور دوسری بات
یہ کہ جنید انصاری کے خاندان کو منگلا ڈیم بنانے کے مخالف اور پاکستان کے
مخالف کہنے سے پہلے آپکو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چایئے۔جنید انصار ی
کا تعلق عبدالخالق انصاری ایڈوکیٹ جیسے کنہ مشق اور تحریک آزادی کشمیر کے
اصل روح رواں جیسے انسان کے خاندان سے ہے۔آپ گالیاں دیں اور مزیددیں یہ
آپکا وطیرہ ہے مگر عبدالخالق انصاری ایڈوکیٹ جیسے محب وطن انسان کے خاندان
کومنگلاڈیم یا پاکستان کا مخالف کہنے کا آپکو کوئی حق حاصل نہیں جناب والا
اس کا بہتر فیصلہ تاریخ کرے گی تحریک آزادی کشمیر کے لیے اور پاکستان کی
سلامتی کے لیے کس نے بہترکردار ادا کیا ؟عبدالخالق انصاریایڈوکیٹ کے خاندان
نے؟ یا پھر آپکی مجاور حکومت نے ؟جناب وزیر اعظم اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ |