جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ
شان سلا مت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی با ت نہیں
حضرت وا صف علی وا صف فرما تے ہیں ہما ری زندگی کا سب سے بڑا حا دثہ یہی ہے
کہ ہم کثیر المقا صد ہیں آج کا انسان بیک وقت ہزارہا کام کرتا ہے اور کرنا
چا ہتا ہے ۔کثیر و ابستگیو ں نے انسان کو مستقل مز اج نہیں رہنے دیا ۔ آج
کا آدمی کمپیو ٹر کی زندگی بسر کررہا ہے ۔ مشینی عمل سے مسلسل گزرنے والا
انسان مشین کا حصہ بن گیا ہے ۔ جذبا ت سے محروم ، نا آشنا ۔۔ ۔۔نہ محبت سے
آشنا نہ وفا سے با خبر ۔ نہ غم سے گزرتا ہے نہ خو شی کو جا نتا ہے ۔ آج کی
ٹریجڈی یہی ہے کہ آج کوئی ٹریجڈی نہیں ۔ سا نحہ مرچکا ہے ۔ آج کی زندگی میں
نہ مرثیہ ہے نہ قصیدہ ۔ انسان کئی زندگیا ں گزار رہا ہے اورلا زمی ہے کئی
اموات دیکھ رہا ہے ۔ کثیر المقا صد زندگی ہی بے مقصد زندگی ہو کر رہ جا تی
ہے ۔ سب کا دوست کسی کا دوست نہیں ۔ ہر ایک سے بے تعلق اپنی ذا ت سے بھی لا
تعلق ہو کر رہ گیا ہے ۔ صرف شکل انسان کی قائم ہے ، صفا ت سب بدل چکی ہیں ۔
انسان کو کیا ہو گیا ہے ؟ صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ انسان جو تھا وہ نہیں
ہے شاید کسی حا دثے میں انسان مر چکا ہے اور اب اسکا بھو ت زندہ ہے ۔ جیو
نیو ز اورایکسپریس نیو ز کے دفا تر پر حملے کی ذمہ دا ری قبول کرتے ہو ئے
دہشتگردوں نے یہ متنبیٰ کیا ہے کہ آئندہ بھی کو ئی میڈیا مین یا اینکر پرسن
انکی کا روائیو ں کے خلا ف اور انکے حما یت یا فتہ افراد کے خلا ف بیان با
زی یا ہرزہ سرائی سے کام لے گا تو اسے وہ اپنا بد ترین دشمن اور مخالف
گردانتے ہو ئے اس پر یلغا ر کریں گے اور آخری دم تک اسے موت کے گھا ٹ اتا
رنے اور اس کی سا نسوں کا ربط ختم کرنے کی سعی جا ری و ساری رکھیں گے کیسا
عجیب دو ر آگیا ہے کہ دین اور مذہب کے نام پر جہا د کو بدنام کرنے والے ہر
میڈیا سے وا بستہ اس شخص کو مجرم اور اپنا ٹا رگٹ سمجھتے ہیں جو انکی غلط
کا روائیو ں اور پالیسیسو ں کو منظر عام پر لاتا ہے جو امر با لمعروف اور
نہی عن المنکر کا پیغام اپنے دامن میں سموتے ہو ئے حق و صدا قت کے علم لہرا
تا ہے لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ خلا ف قانون و فطر ت اور آئین و شریعیت جنگ و
جدل پھیلا نے والے اپنی بر ائیو ں اور گناہو ں پر بھی نہا یت ڈھٹائی کے
ساتھ منظم و متحد دکھائی دیتے ہیں نہ صرف ایک غلط قدم اور حر بہ استعمال
کیا جا تا ہے بلکہ اس پر ہٹ دھرمی کا عملی مظاہرہ کرتے ہو ئے بانگ دہل اس
کو قبول بھی کر لیا جا تا ہے لیکن حکومت کی نااہلی اور ناکامی کا اندازہ با
آسانی کیا جا تا ہے کسی بڑے سے بڑے سانحہ اور حا دثہ کی ذمہ دا ری قبول
کرنے والو ں کے خلا ف بے بس لا چا ر اور فلا پ دکھائی دیتی ہے یہا ں سابق
وزیر اعظم کا بیٹا گذشتہ 100 دن سے زیادہ کا عرصہ بیت جا نے اور اغواء کا
رو ں کے اعتراف کے با وجود بھی با زیا ب نہیں کروایا جا سکا ہے تمام میڈ یا
چینلز اور صحا فتی برادری کو انکے پیشہ کو خیر آبا د کہہ کر دہشتگردوں ،
انتہا پسندو ں اور شد پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبو ر کیا جا رہا ہے
جن لو گو ں نے اپنی قلم سے عہد کرنے کے بعد ایک مقدس پیشہ اور جذبہ کو
اپنایا ہے کیا وہ چند نام نہا د فسادیو ں کی گیدڑ دھمکیو ں سے ڈر کر قلم
اور آواز کی جنگ ختم کر سکتے ہیں ؟ دنیا ، جیو ، ایکسپریس نیو ز ، ARY ،
اردو BBC ، ڈا ن نیوز ، سماء ، آج ان اداروں سمیت دیگر ز الیکٹرانک میڈیا
اور پر نٹ میڈیا سے وابستہ افراد کو یہ پیشہ اور ادارے چھوڑنے کے احکاما ت
جا ری کیے جا رہے ہیں نام نہا د جہا دیو ں کا کہنا ہے کہ میڈیا ادارے
شیطانی ہتھکنڈوں کو اختیا ر کرتے ہو ئے ابو لہب کے نقش قدم پر چل رہے
ہیں۔یہ انکی سوچ ہے جو لو گ خو د ابو جہل بنے ہو ئے ہیں ایکسپریس نیو ز اور
جیو نیو ز کے دفاتر پر ہینڈ گر نیڈ سے ہو نے والے حملے کی ذمہ دا ری قبول
کرتے ہو ئے تحریک طالبان پاکستان نے اسے تنبیہ اور وارننگ والی کا روائی
قرار دیا ہے پر یس بیان میں پاکستان الیکٹرا نک و پر نٹ میڈیا ادارے اور
صحا فیو ں کوخبردار کرتے ہو ئے کہا گیا ہے کہ وہ اسلام کے خلا ف اور عالمی
صلیبی جنگ کے ترجمان بن کر مو ئثر کردار ادا کرنا بند کردیں دوسری طر ف صحا
فتی اداروں سے وابستگا ن کو غیر جانبداری اور ایمانداری کا سبق بھی دیا جا
رہا ہے ہر ذی شعور اس با ت کا ادراک رکھتا ہے کہ مسلمانو ں پر خو د کش حملے
کرنے والے ، مسلم حکومت کے آئین و قانون اور ضا بطو ں سے اعلان بغا وت کرنے
والے زبان کی جگہ گولی کا استعمال کرنے والے،بیرونی خفیہ اداروں کے کہے پر
چلنے والے مسلم ریا ست میں رہنے کے باوجود دوسروں کو اپنے سے نا صرف کم تر
بلکہ کافر اور منا فق سمجھنے والے راہ را ست پر ہیں یا ان کے کرتوتوں اور
کردار کو منظر عام پر لانے والے قصور وار ہیں دہشتگردوں نے ان تمام معاملا
ت اور کاوشو ں کو مد نظر رکھتے ہو ئے صحا فی برادری کو با قا عدہ دھمکی
دیتے ہو ئے کہا کہ جو وہ ذمہ داریا ں نبھا رہے ہیں اور جن کامو ں میں مصروف
ہیں اپنی اس روش سے با ز نہ آئے تو آنے والے دن ان کے لیے ہولناک ثا بت ہو
ں گے یہ کوئی نئی با ت نہیں ہے بلکہ تا ریخ گواہ ہے کہ صحا فتی اقدار اصولو
ں اور قواعد و ضوابط پر پہرا دینے والو ں کے نا صرف ہا تھ کا ٹے گئے بلکہ
انہیں سولی پر بھی چڑھا یا گیا آمریت اور نام نہا د جمہو ریت کے خلا ف آواز
حق اٹھا نے والو ں کی شہا دتو ں کے واقعات پیش آتے رہے اور با رہا صحا فتی
قائدین کو پابند سلاسل بھی کیا جا تا رہا لیکن نہ تو پہلے کوئی بڑی سے بڑی
طا قت فرعونیت ، یز یدیت اور طالبا نیت کلمہ حق کہنے سے روک سکی اور نہ ہی
آج کے دور میں یہ ممکن ہے اسلا ف کے افکا ر ، کردار ، نظریا ت اور سوچ کو
پروان چڑھا تے ہو ئے آج کا صحا فی بھی ہر قربانی اور ہر جا رحانہ اقدام کا
مقا بلہ کرنے کے لیے سرفروشی کا جذبہ لیے ہمہ وقت بیدا ر و تیا ر ہے یہ قلم
نہ تو جھکتی ہے ، نہ بکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی ظالم ، بزدل اور خو د ساختہ
قوت کی تعریف کرنا آتی ہے یہ جب اٹھے کی تو برائی ، بد امنی ، انتہا پسندی
، دہشتگردی ، تخریب کا ری اور فسادات کے خلا ف بغا وت ضرور کرے گی قلم کے
پاسبانو ں اور سپاہیو ں کو دشمن کی صف میں کھڑے ہونے والے معا ونین اور پشت
پناہی کر کے جنگ لڑنے والو ں میں شامل کیا جا رہا ہے دہشتگردو ں کا کہنا ہے
کہ سا ری جنگ میڈیا کے زریعہ سے لڑی جا رہی ہے خو د کو فر زند اسلام اور
مجاہدین کہلوانے والے قلم اور زبان کے زریعہ سے جہا د کرنے والو ں کو نجانے
کیو ں براجا نتے ہیں اگر ہر امن کے حق میں آواز اٹھا نے والا اور اپنا مو
ئثر کردار ادا کرنے والا انکا دشمن ہے تو ہمیں یہ دشمنی قبول ہے اہل قلم
اہل علم و دانش الیکٹرانک اور پر نٹ میڈیا سے وابستہ افراد کو با قا عدہ
قرآنی آیا ت کے زریعہ سے مدلل دھمکیا ں دی جا تی ہیں مدینہ میں جھو ٹی
خبریں پھیلا نے والے لو گ (اپنے کردار سے) با ز نہ آئے تو ہم ان کے خلا ف
کا روائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھا کھڑا کریں گے پھر وہا ں تمہا رے پڑو س میں
وہ نہ رہ سکیں گے مگر (مشکل ہی سے ) تھوڑے دن (یہ ) لعنت کیے ہو ئے لوگ جہا
ں کہیں پا ئے جائیں پکڑ لیے جا ئیں اور چن چن کر بری طر ح قتل کردیے جا ئیں
اﷲ کا (یہی) دستو ر چلا آرہا ہے ۔ ان لوگو ں میں (بھی) جو پہلے گزر چکے ہیں
اور آپ اﷲ کے دستور میں ہر گز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے ۔ صحا فتی اقدار ،
اصولوں اور ضوابط کا درس انہی لوگو ں کو سکھایا جا رہا ہے جو اس شعبہ کے
پالے ہو ئے ہیں سکھانے والے وہ ہیں جو اﷲ اور اسکے رسول کے ددکارے ہو ئے
ہیں اور جن کی ساری ساری زندگیا ں جنگ و جدل اور قتل و غا رت میں ڈوبی ہو
ئی ہیں سلام ہے اس پیشہ سے وابستہ عظیم دوستو ں کو کہ آج دہشتگرد ان کی
اہمیت اور جر ات کو تسلیم کرنا شروع کر گئے ہیں اور اس با ت کی تصدیق اور
میڈیا کی اہمیت اجا گر کرتے ہو ئے تسلیم کرتے ہیں کہ آج تو ساری جنگ ذرا ئع
ابلا غ اور میڈیا سے ہی لڑی جا رہی ہے ۔ ملک بھر کے صحا فی 17 دسمبر کو
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے زیر اہتمام PFUJ کے موجو
دہ سرپر ست پر ویز شو کت ، صدر را نا محمد عظیم اور جنرل سیکرٹری امین یو
سف کی زیر قیا دت پا رلیمنٹ ہا ؤس اسلام آبا د کے سامنے دھرنا دینگے صحا
فیو ں اور میڈیا ہا وسز پر حملو ں ، شہید صحا فیو ں کے اہل خانہ کو معا وضہ
جا ت کی عدم ادئیگی ، صحا فیو ں ، کیمرہ مینوں اور فو ٹو گرافروں کے جان و
مال کے تحفظ ، تنخواہو ں کی عدم ادائیگی اور دیگر مسائل کو اجا گر کیا جا
ئے گا ۔ بظاہر تو یہ بہت ہی شاندار اور قابل ستا ئش عمل ہے لیکن اس کے دورس
نتا ئج اس وقت حا صل کیے جا سکتے ہیں جب صحا فی بھا ئی اپنی صفو ں میں اتفا
ق و اتحا د پیدا کریں اور اس دور میں جب کوئی بھی پیشہ ور اورعام شہری اس
ملک میں پرائے حکمرانوں کی پرائی پالیسیسوں اور حکمت عملیو ں کے با عث
محفوظ نہیں ۔دھرے بندیو ں اورذا تی مفادات کی قربانی دیتے ہو ئے ایک مقصد
ایک کا ز اور ایک مشن کے لیے ایک پرچم تلے اکھٹا ہونا پڑے گا ۔ |