روز ازل سے انسان کی تاریخ اٹھا
کر دیکھ لی جائے تو غلبہ حاصل کرنا انسان کی ناصرف خواہش رہی ہے بلکہ اس
خواہش کے حصول کے مختلف ادوار میں اس نے کافی تگ و دو بھی کی ہے۔اسی تگ و
دو میں بعض اوقات اپنی موجودہ حیثیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔مگر انسان اشرف
المخلوقات ہونے کے باوجود اس سے سبق سیکھنے سے قاصر رہے ہے ۔اور آج تک ہر
دوسرے شخص کی کوشش ہے کہ اسے غلبہ اور طاقت حاصل ہو۔پاکستان کی سیساست میں
اس انسانی کیفیت کا اظہار اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔پاکستان کے پہلے آئین کی
معطلی سے ہی اگر اس کا آغاز مان لیا جائے تو اقتدار کی ہوس نے مارشل لاء تک
کا نٖفاذ کر دیا۔اسی سلسلے کے بڑے بڑے واقعات ہی دیکھیں جائیں تو طاقت کی
لالچ نے دوسرے مارشل لاء کو جنم دیا۔سیاسی انتقام کو محض اس لیے استعمال
کیا جاتا رہا کہ اس کے ذریعے طاقت میں شراکت داری کی امید تک کو مٹا دیا
جائے۔مگر اس کا انجام سنگین سامنے نہ آسکا۔جس سے اس ملک میں ایسی روایات کو
تقویت ملی۔فوجی اداروں کے بعد سیساسی محاذ بھی اس دور میں سرگرم نظر آنے
لگے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت معذرت کیساتھ 1971ء میں دیکھنے کو ملا۔۔جب اقتدار
میں شراکت داری کونہ ماننے کی قیمت بہت بے دردی سے ادا کی گئی۔اس ہوس کی
گاڑی یہیں پررک نہ گئی۔اس کے بعد دو جمہوری حکومتوں نے طاقت کے حصول کے لیے
ایک دوسرے کو گھسیٹا۔اور ایسا محض ایک بار نہ کیا گیا۔بعد ازاں دوسری
جمہوریت کو آمریت کے ہاتھوں شہید ہونا پڑا۔پھر تو جیسے بشر غلبہ پانے کے
لیے نہ جانے کب سے بے چین تھا کہ اس نے نہ صرف اس ملک کے قانون میں ایسی
تبدیلیاں کر دیں جس سے فرد واحد ہی اس مسائل زدہ ملک کا عقل کل بھی ہے اور
روئے رواں بھی۔بلکہ اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ہر ایک محاذ پر اپنے ہی
لشکر ڈال کر بلامقابلہ حصول اقتدار کے جی بھر کر مزے بھی لوٹے اور خود کو
مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے ملک کے ہر ادارے سے جائز ناجائز مدد بھی
حاصل کی۔اور جن لوگوں نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی ان کہ آواز کو دبا دیا
گیا۔ابن آدم نے عدل و انصاف کے ذمہ داران کو بھی ان کے قد و قامت کے بڑھ کر
اسلیے اختیارات دیے کہ وہ اس کی شاہی کو شہنشاہی میں بدلنے میں قدم قدم پر
ساتھ نظر آئے۔ڈنڈے کے زور پرضرورت سے ذیادہ دیر تک انہوں کے بھینس کی ملکی
سنبھالی رکھی۔مگر جیسے ہی لاٹھی ہاھ سے گئی بھینس کی ملکیت بھی لاٹھی کے
ساتھ ہی گئی۔مگر پھر رد واحد کے اشاروں پر ناچتا یہ ملک ایک ایک کونے سے
ایسے لوگوں کی قبضے میں آگیا جن کی سوچ یہ تھی کہ ہر پیمانے پر ملکر ایک
دوسرے کی بادشاہت کا سکہ جمایا جائے۔اور اس کا نتیجہ وہی کہ ایک شخص کے
ہاتھ میں سب پتلیوں کے دھاگے جانے تھے ۔جس نے غلبے کی لالچ میں کئی سنگین
الزامات کی سختیوں کو فراخ دلی اور بے پروائی سے برداشت کیا۔جب ان کے
اقتدار کی شام ہوئی تو سائے رخ بدل گئے۔اب نواز شریف صاحب کی باری تھی ۔صوبوں
میں سے حکومت ملی۔وفاق میں حکومت بن گئی۔وزیر اعظم ،صدر ،گورنر،وزیر اعلٰی
اور بعض لوگوں کے نزدیک عدلیہ تک ان کی اپنی ہے۔سپہ سالار بھی نیا چن لیا
گیا۔اس بادشاہت پر بھی ان کی گاڑی کا آخری سٹاپ نہ تھا۔بلدیات جب بہر حال
کرانے پرگئے تو پہلی غیر جماعتی کی کوشش گویا وفادار بیوروکریسی کے استعمال
کی تیاری تھی۔اس میں ناکامی کے بعدایک ایسا پلان ترتیب دیا گیا جس کے ذریعے
جناب کی بادشاہت میں مزید طوالت و پختگی آئے۔اور بلدیاتی الیکشن میں ناظم
یا چیرمین کو ہٹانے کے اختیار وزیراعلٰی کے قدموں میں ڈال دیے گئے۔گویا
ڈنڈا اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے ۔میری نظر میں بلدیات کے ذریعے بھی 58-2Bکو
بحال کیا جائے گا مگر اس بار اس کی ڈور وزرائے اعلٰی کے پاس ہوگی۔جاہ جلال
اور بادشاہت کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ان کا "ڈنڈا پیر " بخوبی
ہٹا رہا ہے۔ڈنڈوں کے زور پر احکامات جاری کروائے جا رہے ہیں۔اور ڈنڈے کے
زور پر ہی اس ملک میں باشاہت بڑھائی جا رہی ہے۔تقرریوں اور معطلیوں کے
پیچھے بھی بعض اہل علم وعقل کے نزدیک ڈنڈاپیر کا ہی ہاتھ ہے اور اس کی وجہ
بھی شہنشاہت ہے۔اور فرد واحد کی شہنشاہی کو برقرار رکھنے کے لیے مساوات
وانصاف اور ضابطہ اخلاق کی نہ جانے کیسی اور کتنی بار دھجیاں اڑائی جائیں
گی۔اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔مگر تاحال صورت حال یہی ہے کہ
ڈنڈا پیر زندہ باد۔ |