بیالیس سال قبل 16دسمبر 1971کو
وطن عزیز پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا تھا،ہر سال یہ دن آتا ہے اور محب
وطن پاکستانی عوام کے زخموں کو تازہ کر دیتا ہے ، پاکستان کے دو بازوؤں،
مشرقی و مغربی پاکستان، اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ کے نتیجے میں
مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر
ابھراتھا۔جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو ہوا جس کے نتیجے میں مقامی گوریلا
گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے)
نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور افواج اور وفاق پاکستان کے وفادار عناصر
کا قتل عام کیا۔ مارچ سے لے کر سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور
انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم
کرتا رہا اور بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16
دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ یہ
جنگ عظیم دوئم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہتھیار ڈالنے کا سب
سے بڑا موقع تھا۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی
دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو
گیاتھا۔ 16دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندھی نے اگلے دن اپنی
پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر یہ بات کہی تھی کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج
بنگال میں بہا دیا ہے ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اب پاکستان کا جواز
باقی نہیں رہا اس وقت سے لیکر بھارت آج تک پاکستان کو نقصان پہنچانے کی
کوششیں کر رہا ہے ۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک پروان چڑھائی جا رہی ہے
۔حکومتی اہلکار کہتے ہیں کہ انڈیاکے بلوچستان میں مداخلت کے ثبوت ہیں ۔ تو
پھر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور اس سے تجارتی معاہدے کرنے کا کیا
جواز باقی رہ جا تا ہے ۔ ہم نے پاکستان کو 1857ء کی جنگ آزادی کے زخموں کے
نوے سال بعد حاصل کیا جس کیلئے بے شمار قربانیاں دی گئیں ۔ یہ قربانیاں
انڈیا کے سامنے جھکنے کیلئے نہیں تھیں ۔حکمران المناک سانحہ مشرقی پاکستان
کو بھول چکے ہیں مگر اب بھارت کو دوست کہہ کر شرمناک حرکتیں مت کریں ۔ زندہ
قومیں دشمنوں کو دوست نہیں بناتیں ۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے بڑا
کردار بھارت کا تھاآج بھی پاکستان سے محبت رکھنے والوں کو بھارتی اشاروں پر
پھانسیوں کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ اندراگاندھی نے نظریہ پاکستان کو خلیج
بنگال میں ڈبونے کا اعلان کیا افسوس کہ ہمارے سیاستدان اپنی تاریخ بھول چکے
اور لاکھوں مسلمانوں کے قاتل بھارت سے دوستی کیلئے بے چین نظر آتے
ہیں۔1971ء کی طرح آج ایک بار پھر بنگلہ دیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی
تاریں بھارت سے ہلائی جارہی ہیں۔عبدالقادر ملاکو پھانسی اور مولانا غلام
اعظم سمیت پاکستان سے محبت رکھنے والے دوسرے بنگلہ دیشی لیڈرجنہیں پھانسی
کی سزائیں سنائی جاچکی ہیں اور وہ کال کوٹھڑیوں میں بند ہیں‘ نے قومیت اور
وطنیت کیلئے قربانیاں پیش نہیں کی تھیں بلکہ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ
لاالہ الااﷲ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئے اور واضح
طور پر کہا تھا کہ ہمیں بھارتی فوج کا پاکستانی سرزمین پر وجود برداشت نہیں
ہے۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے ان محسنوں کی قدر
نہیں کی۔ بیرونی قوتوں کی خوشنودی کیلئے بنگلہ دیش میں موجود محب وطن
پاکستانیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی کسی صورت درست نہیں ہے۔ پاکستان
کلمہ طیبہ کی بنیاد پر لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حاصل کیا گیا
تھا۔بین الاقوامی ساز ش کے تحت ظلم اور جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے مشرقی
پاکستان کو الگ کیا گیا۔ پاکستانی قوم اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتی۔ جس طرح
لاالہ الااﷲ کے کسی حصہ کو الگ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اس کلمہ کی بنیاد
پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو بھی الگ الگ حصوں میں قبول نہیں
کیاجاسکتا۔ تقسیم ہند کے موقع پر حیدرآباد دکن ، جونا گڑھ اور دیگر مسلم
اکثریتی ریاستوں نے بھی لاالہ الااﷲ کی خاطر پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا
تھا مگر انگریز اور ہندو کے گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں یہ علاقے پاکستان کے ساتھ
شامل نہ ہو سکے۔ آج کشمیر ی مسلمان بھی اسی کلمہ کیلئے پاکستان سے ملنا
چاہتے ہیں لیکن بھارت سرکار کی جانب سے ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے
ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اﷲ کے مخلص بندوں کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں
جائیں گی۔ 1971ء میں بھارت نے بین الاقوامی بارڈر کراس کر کے پاکستان پر
فوج کشی کی ، مکتی باہنی کو کھڑا کیا اور وطن عزیز پاکستان کے ایک حصہ کو
الگ کر دیا گیا۔ امریکہ و یورپ اور ملکوں کے فیصلے کرنے والی سلامتی کونسل
سارا منظر دیکھتے رہے لیکن بھارتی دہشت گردی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااﷲ کا نعرہ سب سے پہلے بنگالی مسلمانوں نے
لگایا تھا۔ اس کے بعد پنجاب، سرحد، بلوچستان اور سندھ نے ان کی آواز پر
لبیک کہا اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر سب کچھ قربان کرنے کا عہد کیا گیا۔
1940ء سے شروع ہونے والی اسی مقدس تحریک کے نتیجہ میں اﷲ نے برصغیر کے
مسلمانوں کو ایک الگ خطہ عطاکیا ۔ یہ پاکستان اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
پاکستان کے دولخت ہونے میں اس وقت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بڑی
غلطیاں ہیں جنہوں نے قرآن کو اس ملک کا آئین اور اسلام کو ملک کا دین نہیں
بنایا اور پھر غاصب بھار ت کی سازشیں کامیاب ہوئیں ۔آج بھی جو سیاستدان
امریکہ کی خوشنودی کیلئے انڈیا سے دوستی کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں وہ
اپنی تاریخ سے ہی واقف نہیں ہیں اور یہ باتیں ان کے ذہنوں سے نکل چکی ہیں
کہ پاکستان کس مقصد کیلئے اور کس قدر قربانیاں پیش کرنے کے بعد حاصل کیا
گیا تھا۔ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ آج ہمارے سیاستدان سب کچھ بھول کر محض
امریکہ کی خوشنودی کیلئے لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ہندو بنئے سے دوستیاں
پروان چڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بھارت کی خوشنودی کیلئے اسے پسندیدہ
ترین ملک کا درجہ دیکر دوستی، تجارت اور ویزہ پالیسی میں نرمی جیسے اقدامات
اٹھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور پاک بھارت بین الاقوامی بارڈر کو قابل
نفرت بنانے کیلئے باقاعدہ تحریک چلائی جارہی ہے۔ یہی وہ خطرناک کھیل ہے جو
16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان میں کھیلا گیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس
وقت بھارت نے فوج کشی کر کے پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا اور اب
وطن عزیز پاکستان چونکہ ایٹمی قوت رکھتا ہے اس لئے سازشوں کا انداز تبدیل
ہو گیا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل جب مہاتما گاندھی کی جانب سے ہندو مسلم بھائی
بھائی کا نعرہ لگایا جاتا تھا اور بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ
اقبال نے مسلمانوں میں یہ شعور بیدار کیا تھا کہ ہندو الگ مسلمان الگ ہیں۔
وہ تین کروڑ خداؤں کا پجاری اور مسلمان ایک اﷲ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے
والے ہیں یہ بھائی بھائی نہیں ہو سکتے۔ اس وقت بھی بعض لوگ گاندھی کی حمایت
میں ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے۔ آج جو لوگ یہ باتیں کرتے تھے کہ پاکستان
اور بھارت کا موسم ایک، رنگ، نسل اور زبان ایک ہے۔ وہ جذباتی لوگ تھے،
جنہوں نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ کا نعرہ لگایا تھا اس لئے
پرانی باتیں چھوڑ کر ہمیں آگے کی جانب بڑھنا چاہیے اور نفرت کی لکیریں ختم
کرنی چاہئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی سوچ رکھنے والے لوگ ہی پڑھنے لکھنے کے
سوا پاکستان کا مطلب کیا؟ کے نعرے لگا رہے ہیں تاکہ نوجوان نسل کے ذہنوں سے
نظریہ پاکستان اور کلمہ طیبہ کی بنیادوں پر مبنی تصور اور سوچ کو کھرچ کھرچ
کر نکالنے کی کوششیں کی جائیں۔تاریخ گواہ ہے کہ مشرقی و مغربی پاکستان کے
محب وطن نوجوانوں نے ہندوستان کی بنائی گئی مکتی باہنی کا مقابلہ کیاتھا
اور آج بھی پاکستان کے محب الوطن نوجوان اس مملکت خداداد پاکستان کی خاطر
ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات بھی مفاد پرست
حکمرانوں کی بدولت خراب ہورہے ہیں اور آج ہمیں ہر صوبے میں لسانیت اور زبان
کی بنیاد پر نفرتیں جنم لیتی ہوئی نظرآ رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام کے
درمیان دوریاں پیدا ہورہی ہیں، بلوچستان کے عوام کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ
اس قدر برا ہے کہ وہاں احساس محرومی بہت بڑھ گیا ہے اور آزادی کے نعرے بلند
ہونے لگے ہیں۔ حکمران اپنا قبلہ درست کریں اور عوام میں پیدا ہونے والا
احساس محرومی اور نفرتیں ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اس ملک میں ایک
بڑی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے جو محب وطن بھی ہیں اورپاکستان کی تعمیر
وترقی میں اپنا کردار ادا کرناچاہتے ہیں۔ مگر آج پاکستان میں امریکا و
دیگربیرونی ممالک کی مداخلت،پرچی سسٹم،طبقاتی تقسیم،فساد اور
انتشار،سیاستدانوں کی چالبازیاں،ملکی سالمیت کو لاحق خطرات،ڈرون حملوں کی
صورت میں پاکستان کی خود مختاری پر شب خون،بیروزگاری،مہنگائی ،کرپشن،سفارشی
کلچر اور تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہونے پر پاکستان کا نوجوان مایوس اور
فکرمندہے اورناقص حکمت عملی کی وجہ سے آج اس نوجوان طبقہ میں مایوسی بڑھ
رہی ہے۔حکمرانوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں اور مشرقی پاکستان جیسا
سانحہ نہ ہو۔
برائے اشاعت خاص
16دسمبر سقوط ڈھاکہ |