عہد افتخار سرمایہ افتخار

پاکستان کے بیسوے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری 3 ہزار 60 روز اپنے عہدے پر متمکن رہنے کے بعد سبکدوش ہو گئے ہیں۔ ان کے جانے پر جہاں بے شمار لوگ ملک و قوم کے لیے عہد افتخار کو باعث افتخار بتلارہے ہیں، وہیں ان پر تنقید کرنے والوں کی بھی کچھ کمی نہیں ہے۔ دنیا میں ہر انسان کے حامی و ناقد تو ہوتے ہی ہیں، لیکن کسی انسان کی تمام خوبیوں کو نظرانداز کرکے صرف خامیوں کو ہی نظر میں رکھنا ایک سطحی اور غیر مناسب سوچ معلوم ہوتی ہے۔ چلیے! ہزار بار مان لیتے ہیں کہ افتخار محمد چوہدری سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں، جو انہیں کرنا چاہیے تھا یا وہ کرسکتے تھے وہ سب کچھ نہ کرپائے، اس سب کچھ کے باوجود کیا یہ ایک حقیقت ہے کہ افتخار محمد چوہدری سب سے اچھے نہ سہی مگر بہت سے لوگوں سے کافی بہتر ضرور ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ ماضی کے برعکس پاکستان کا سب سے مضبوط اور طاقتور ادارہ بن کر ابھرا۔ انہوں نے ایک وقت میں بزدل سمجھی جانے والی عدلیہ کو آج کی بے خوف اور دنیا کی مضبوط ترین عدلیہ بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔انہوں نے”آسمان گرے یا زمین پھٹے ، ہر صورت قانون پر عمل ہوگا۔“ پر عمل کرکے دکھایا۔

کہا جاتا ہے کہ ماضی میں عدلیہ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ ہوا کرتا تھا، سب ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ حکومتی وزیر، مشیر، فوج اور ایجنسیاں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو فون کر کے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کا حکم جاری کیا کرتے تھے، لیکن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا اورصدر، وزیراعظم، اعلیٰ فوجی جرنیل، خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ، فوجی آمر، بااثر ترین کاروباری افراد، اہم سرکاری افسران اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز سمیت سب کو قانون کی پکڑ میں لیا۔ کئی وفاقی اور صوبائی وزرا، مشیران اور اراکین پارلیمنٹ کو بدعنوانی، جعلی ڈگریوں اور دہری شہریت کے مقدمات میں عدالت کی مداخلت کے بعد گھر بھی جانا پڑا۔ اسی کو حقیقت میں قانون اور عدلیہ کی بالا دستی کہتے ہیں۔ کیا ماضی میں کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ پاکستان میں عدالتی احکامات نہ ماننے پر وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا جائے گا، ایک ڈکٹیٹر کو جیل میں ڈال کراس کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ہدایت کی جائے گی، ایجنسیوں کوان کے غیر قانونی کام پر سخت پوچھ گچھ کا سامنا ہو گا، عدلیہ کا اس قدر طاقتور ہونا افتخار محمد چوہدری کے مرہون منت ہی تو ہے۔

افتخار محمد چوہدری کے سارے دور میں سیاست دان، بیوروکریٹ، جر نیل اور ہر بڑی شخصیت گلہ کرتی نظر آتی رہی کہ ہمارے کام میں مداخلت ہو رہی ہے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ حالانکہ انصاف کے نفاذ کی کوئی حدودوقیود متعین نہیں کی جا سکتیں ،اس لیے کہ بددیانتی اور لاقانونیت زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوتی ہیں اور عدالتوں کا دائرہ کار ان تمام شعبوں پر محیط نہ ہو تو انصاف کی فراہمی رک جاتی ہے۔ اگر کہیں انصاف کا قتل ہو جائے ، بااثر اور بڑے لوگ کمزور عوام کو دبانے کی کوشش کریں اور غریبوں کی کوئی نہ سنے کیا پھر بھی بے بس عوام کو انصاف دینے کی بات کرنا اپنی حدود سے تجاوز شمار ہوگا؟اگر ملک میں کہیں کوئی زیادتی، جبریا ظلم ہو اور سپریم کورٹ مظلوم کی حمایتی بن کر میدان میں کود پڑے تو کیا یہ حدود سے تجاوز ہے؟ اگر یہ حدود سے تجاوز ہے تو پھر یہی تجاوز ملک کی اکثریت کی ضرورت ہے۔اسی لیے تو اب ملک کے کسی دور دراز گاﺅں میں ظلم کا نشانہ بننے مظلوم فرد بھی سپریم کورٹ کو اپنا محافظ سمجھ کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔

ملک و قوم اور عوام کی بھلائی کے لیے ہی تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آئین کے آرٹیکل۔ 184-3 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار بارہا استعمال کیا۔”این آراو“، ایکوڈک کیس، این آئی ایل سی اسیکنڈل، رینٹل پاور پروجیکٹس، حج اسکینڈل، بینک آف پنجاب کیس، پاکستان اسٹیل ملز اسکینڈل کیس، شوگر مافیا کیس میں کرپشن اور بدعنوانی کرکے قومی خزانے پر ڈاکا ڈالنے والوں پر ہاتھ ڈالا اور بااثر لوگوں سے قومی خزانے کے کھربوں روپے بچائے۔ دہری شہریت اور جعلی ڈگری ہولڈروں کی نااہلی، میموگیٹ، کراچی بدامنی کیس، مہران بینک اسکینڈل، لاپتا افراد کیس میں چھپے ہوئے چہروں کی اصلیت عوام کے سامنے لائے، اعلیٰ فوجی حاضر سروس عہدیداروں، سویلین آفیسرز، سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی سمیت بہت سے بڑوں کو عدالت میں حاضر کیا۔ انہوںنے عدالتی فعالیت کے ذریعے طاقتوروں کو نکیل ڈالی۔چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے پر تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومتیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر کرپشن، لاقانونیت، خراب گورننس میں ملوث ہوں یا اس پر قابو پانے میں ناکام رہیں تو ایسے معاشرے میں عدالتی فعالیت اور ازخود نوٹس لینا ملک اور عوام کے لیے ضروری ہوجاتا ہے، جہاں عام آدمی طاقتور کے خلاف شکایت نہ کرسکتا ہو، وہاں عدالت کا ازخود نوٹس اس کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتا اور مایوس پاکستانیوں کے لیے یہ روشنی کی کرن ثابت ہوتا ہے ۔اگر افتخار محمد چوہدری ازخود نوٹس نہ لیتے تو غالب گمان ہے کہ وقت کی حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تک نہ ہوتا۔

اکستان میں تواتر کے ساتھ فوجی مداخلتیں ہوئیں اور ہر مرتبہ عدلیہ نے آمروں کی طرفداری کی، لیکن9 مارچ 2007ءکو جب پرویزمشرف جیسے آمر نے پانچ باوردی جرنیلوں اور انٹیلی جنس سربراہان کی موجودگی میں ان سے استعفاءمانگا تو انہوں نے آمروں کے سامنے باعث افتخار کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے ”ناں“ کی ایک منفرد روایت رقم کرچھوڑی۔ پرویز مشرف، ا ±س کے جرنیلوں اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں نے ڈرا دھمکا کر کوشش کی کہ جسٹس افتخار استعفیٰ دے دیں، مگر انہوں نے کہا جو مرضی کر لو میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔استعفیٰ نہ دینے پر چیف جسٹس سے بدتمیزی تک کی گئی، پولیس اہلکاروں نے انہیں بالوں سے پکڑ کر ان کی کار میں دھکیلا تو یہ مناظر پوری قوم نے اپنی ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست دیکھے ۔ا ±ن کو پیسے کا لالچ دیا گیا، انہیں ملک کے اندر اور ملک سے باہر اعلیٰ عہدوں کا لالچ بھی دیا گیا، مگر وہ جھکنے کے لیے تیار تھے اور نہ ہی میدان چھوڑ کر بھاگے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا: ”حکمران جو مرضی کرلیں، مجھے جہاں مرضی اٹھا کر لے جائیں، میں کسی غیر آئینی فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ میں ہی اس ملک کا قانونی اور آئینی چیف جسٹس ہوں۔“ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھرپور طریقہ سے یہ ثابت کیا کہ وہ آہنی اعصاب کے مالک ہیں اور ان کو کوئی بااثر اور طاقتور شخص ڈرا نہیں سکتا ۔ 9 مارچ 2007کے بعد جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں کام کرنے والی عدلیہ نے 3 نومبر2007 کے مارشل لا کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اسے غیر آئینی اور غیر قانونی بھی قراردیا اور اپنے فیصلے پر ڈٹ گئے اور 16مارچ 2009ءکو عدلیہ کی بحالی تک اپنے فیصلے پر پختگی کے ساتھ ڈٹے رہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی تاریخ میں جناب افتخارمحمد چودھری کی سربراہی کا طوفانی اور ہنگامہ خیز دور تو اپنے اختتام کو پہنچ چکا، لیکن یہ دور آنے والی نسلوں کے لےے ایسی یادیں چھوڑ گیا ہے جن کا تذکرہ کیے بغیر ملک کی سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوسکے گی۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701632 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.