ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟

عالم اسلام پر چھائی ظلم و ستم کی تاریک رات اس قدر گہری ہوچکی ہے کہ قریب ودور کچھ بھی سدھائی نہیں دیتا۔ چہار سو خوف وہراس کا بسیرا ہے۔ہر طرف موت رقص کرتی دکھلائی دیتی ہے۔ہرجانب گولیاں، بم دھماکے، بارود اور لاشے ہیں۔کہیں ہم خود ہی خود کو قتل کررہے ہیں اور کہیں دشمن کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک قتل کرنے والا کوئی بھی ہو لیکن قتل ہونے والے ہم ہی ہیں۔ شام کو ہی لے لیجیے! مارچ2011 کے بعد سے اب تک تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں ۔ 22 لاکھ سے زاید شامیوں نے اس دوران ہمسایہ ممالک میں پناہ لی ہے جبکہ ساڑھے 42 لاکھ شامی ملک کے اندر ہی مجبوراً نقل مکانی کر چکے ہیں۔شام میں انسانیت زندگی کو ترس رہی ہے ۔کوئی نہیں جانتا کی کس موڑ پہ موت آ دبوچے۔ ایک ہی ملک کے باسی ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ کوئی بھی نہ تو ہار ماننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی امن کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔دونوں جانب موت کے سوداگر ہیں۔جو شام سے انسانیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اپنی جنگ کوئی بھی نہیں لڑرہا ، دونوں جانب لڑانے والے دشمن ہیں۔اسلحہ دشمن فراہم کرتا ہے اور لڑتے یہ خود ہیں۔جی ہاں! دشمن کے اسلحہ و بارود کے ساتھ اپنے ہی ملک کے باسیوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے۔اپنے ہی ملک کے شہروں اور بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا یا جارہا ہے۔ دوسرے کی جنگ لڑنے والے یہ ناعاقبت اندیش مسلح جنگجو تعصب ونفرت میں اس قدر آگے جاپہنچے ہیں کہ اپنے مخالفین کے علاقے میں بنی ہوئی عبادت گاہوں کو بھی نہیں بخشتے۔ لیکن اب تو معاملہ اس سے بھی بہت دور جاچکاہے۔

شام میں اغیار کی جنگ لڑنے والے ظالم و سفاک جنگجو اب تو معصوم بچوں کو بھی اپنے مختلف مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔جس کی وجہ سے ان بچوں کی اموات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ شام میں فریقین کی لڑائی میں مارے جانے والے بچوں کی خوفناک حد تک تعداد کا اندازہ چند روز قبل منظر عام پر آنے والی ”برطانوی تھنک ٹینک آکسفرڈ ریسرچ گروپ“ کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق شام میں مارچ 2011 سے اگست 2013 تک 11420 شامی بچے جنگ کی بھینٹ چڑھا کر قتل کردیے گئے ہیں۔ ان میں سے 389 کو نشانہ بازوں نے دور مار بندوقوں سے قتل کیا ہے اور تقریباً 764 کو فوری موت کا حکم نامہ سنایا گیا اور ایک سو کے قریب بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔درندگی کی انتہا دیکھیے کہ لڑائی کے دوران مارے جانے والے ان بچوں میں ایک اور دو سال کی عمر کے بچے بھی شامل تھے، جن کو درندہ صفت جنگجوﺅں نے انتہائی سفاکیت کے ساتھ ہمیشہ کی نیند سلادیا اور قتل کرنے سے پہلے ان بچوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا، تشدد کے ذریعے قتل کیے جانے والوں میں ایک سالہ بچے بھی شامل تھے۔جبکہ زیادہ تر بچوں کی موت بموں یا شیلنگ میں ہوئی ہے۔

رپورٹ کی شریک مصنفہ” ہانا سلمہ“ کا کہنا ہے کہ جس طرح سے بچوں کوقتل کیا گیا ہے، وہ پریشان کن ہے۔ ان کی موت گھروں میں ہوئی اور قتل کیے جانے والے بچوں کی اکثریت روز مرہ کے کاموں میں مشغول تھی۔ جیسے کہ روٹی کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہونا، اسکولوں میں جاتے ہوئے یا اسکولوں میں پڑھتے ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کو حتمی نہ تصور کیا جائے۔ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں کیونکہ ایسے علاقوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے جہاں تک رسائی ممکن نہ ہوسکی اور ان علاقوں میں بچے کافی زیادہ تعداد میں قتل کیے گئے ۔ یہاں انتہائی قابل حیرت بات یہ ہے کہ اپنی جنگ میں بچوں کو کیوں جھونکا گیا ۔ حالانکہ بچے تو کسی کے ساتھ لڑ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی جنگ میں کسی کا ساتھ دے سکتے ہیں اورخصوصاً ایک دو سال کے بچے تو بالکل معصوم ہوتے ہیں جو اپنی توتلی زبان کے ساتھ اگر کسی سے بات بھی کریں تو ان پر سب کو ہی پیار آجاتا ہے۔ بچے توکسی دشمن کے ہوں یا پھر اپنے، سب قابل رحم ہوتے ہیں۔

بچے تو خدا تعالیٰ کے گھر کے پھول ہوتے ہیں اور ان پھولوں کو مسلنے کا سلسلہ صرف شام تک ہی محدود نہیں بلکہ سرزمین مقدس فلسطین میں بھی بچوں کو اسی درندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینی بچے ،مظلومیت کی انتہاو ¿ں کو چھو رہے ہیں،یرغمال ہونا،قید ہونا،حتیٰ کہ قتل ہونا ،معمول بن چکا ہے۔فلسطینی بچے جن کو تحفظ دینے کی بجائے صیہونی صرف ان کی زندگی کا سکون ہی نہیں چھینتے بلکہ پوری زندگی چھین لیتے ہیں۔ ایک فلسطینی ”جہان عبداللہ“ لکھتا ہے: ”سیکڑو ں فلسطینی بچے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہر سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر تے ہیں، معصوم بچے اکثر خوف و ہراس کی وجہ سے راتوں کو کپڑے گیلے کر دیتے ہیں، اچانک ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں، چیخ و پکار کرتے ہیں۔“ ملٹری کورٹ کے پراسیکیوٹر کے بیان کے مطابق اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کی وہ نسل جو ابھی پوری طرح 12سال کی عمر تک نہیں پہنچی یا 13سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں ،اسرائیلیوں کی طرف پتھر پھینکنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے۔ پتھر پھینکنے کے جرم میںکل آبادی کا 98% جیلوں کے لاک اپ میں بند کیے جاتے ہیں اور یہ کہ ان بچوں پر مقدمات ملٹری کورٹس میں چلائے جاتے ہیں اور سرسری سماعتوں کے ذریعے ان کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ ان تمام قیدی بچوں کا رہائی کے بعد طرح طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہونا، اسرائیلی درندوں کے خوف و ہراس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2000ءکے بعد سے صرف بارہ سالوں میں 8000سے زاید فلسطینی بچے مغربی کنارے سے پکڑے گئے ،کچھ قتل کر دیے گئے اور کچھ بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے۔

جنگ زدہ تمام مسلم ممالک میں بچوں کے ساتھ شام اور فلسطین کے بچوں سے مختلف سلوک نہیں کیاجاتا، جو سراسر انسانیت کے خلاف ہے۔انتہائی افسوسناک بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں انسان نے بہت ترقی تو کرلی ہے اور وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ انسانی اصولوں کی پاسداری نہ کرسکا۔حالانکہ قدیم جاہلی ادوار میں بھی جب جنگیں ہوتی تھیں تو بچوں پر ہاتھ نہ اٹھانے کا اعلان کیا جاتا تھا،چہ جائےکہ انہیں قتل کیا جائے،لیکن چونکہ اب ”تہذیب و تمد ن“ کا دور دورہ ہے ، دنیا عالمی” دیہات“ بن چکی ہے۔آج کے انسان نے ماضی کے” جاہل“ اور ”اجڈ“ انسان سے اپنا پیچھا چھڑا کر ترقی کی تمام حدود تو پارکرلی ہیں،لیکن یہ ترقی آج کے انسان کو یہ نہ سکھا سکی کہ اپنی جنگ کی سزا بچوں کو نہیں دیا کرتے۔ان پھول سے بچوں کو مسل کر ہمیشہ کی نیند سلانے والے روز قیامت کیا جواب دیں گے جب یہ مقتول بچے اپنے ہاتھوں میں اپنے قاتلوں کا گریبان پکڑ کر پوچھ رہے ہوں گے :”ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا؟“
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 677488 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.