محی الدین احمدابوالکلام آزاد بر صغیر کی
تاریخ کا وہ نفیس کردار ہے جو کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ غیرمنقسم
ہندوستان کی عظیم اور مقتدر شخصیتوں میں سے ایک تھے اور یقینا علم وفراست
کے امام تھے۔ آپ کوسماج، معاشرہ، زبان کلام بیان مذہب بین المذاہبی تقابلات
اور سیاست کے پیچ و خم پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے قرآن کی تفسیر لکھی، مذہب
کو جانچا،آباء کی دیرینہ رسومات کو ترک کیا،سیاست کے دشت میں آبلہ پائی
کی،اصول و نظریات کو نیا اور معتبر لب و لہجہ دیا ، سیاسی بصیرت کے مفاہیم
کو نئی روشنی دی اور خود ساختہ قائدین ملت کے اجتماعی سیاسی شعورکو بونا
کردیا۔یقینا یہ متحدہ بھارت کا عظیم سرمایہ تھا جسے نفس پرست سیاست داں
سمجھ نہ سکے اور آج نصف صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود بھی ان کے
ویژن،حالات کی نبض شناشی اور ان کی عظیم سیاسی بصیرت پر ہم جیسے طالب علم
انھیں خراج عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز،
جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ ابوالکلام آزاد
ہرلحاظ سے جامع شخصیت کے مالک تھے ان پر انگریزی لفظ Polymath پورا اترتا
ہے جس میدان میں قدم رکھا اپنی شخصیت علم اور ثابت قدمی کی وجہ سے کامیابی
کی منزلیں چھولیں اپنوں نے دھتکاراگالیاں دیں لیکن انھوں نے ہمیشہ مہذب
لہجے میں کلام کیا اور ادب ولحاظ کی حدود کی پاسداری کی ان پر علامہ اقبال
کا یہ شعرپورا اترتا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ملت اسلامیہ ہند کا روشن چراغ ہیں جس کی
روشنی بصیرت و بصارت کو جلا دیتی ہے۔
ابو الکلام آزاد علم دوست ،حریت پسند اور قوم پرست مسلمان رہنما تھے۔ زندگی
کا سفر 1888میں شروع ہوا۔ عملی زندگی کا آغاز1904سے شروع ہوا ۔ 1923، 1930
اور 1939میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے قائم مقام صدر مقرر کیے گئے۔ 1940
میں کانگریس کے(دوبارہ۔ابن کلیم)صدر منتخب ہوئے اورمسلسل 1946 تک ہندوستان
کی سب سے بڑی سیاسی اعت کے سربراہ رہے۔
مولانا آزاد بیس برس کی عمر میں آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے۔ قید و بند
کا سلسلہ رانچی بہار سے شروع ہوااور قلعہ احمد نگر میں 1945میں ختم ہوا۔ کل
68برس اور سات ماہ۔ اس میں 9برس اور 8ماہ انگریز کی قید کاٹی۔ گویا عمر
عزیز کا ہر ساتواں روز جیل میں کٹا۔
مولانا کے نقطہ نظر سے سیاسی مکالمے کی معروف روایت میں اختلاف بھی کیا
جاسکتا ہے اوراس پر بھی بات ہو سکتی ہے کہ مولانا آزاد عملی سیاست کے جوڑ
توڑ سے ماورا تھے یا نہیں؟ تاہم مولانا کی سیاسی بصیرت، شرافت، بلند نگاہی،
علمی حیثیت، وضع داری اور خودداری پر کوئی سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا۔
محمد علی جناح کے سیاسی کیرئیر پر یہ ایک بدنما نشان ہے کہ مفادات کی بساط
پرکھیلے جارہے سیاسی کھیل میں مسلم لیگ کی مذہبی شناخت کو اجاگر کرنے کے
لیے جب انھوں نے کانگریس کو ہندو جماعت قرار دینا چاہا تو محی الدین ابو
الکلام آزاد کو کانگریس کا ”شوبوائے“ قرار دے دیا۔جبکہ مولانا کو اس قسم کے
حملوں کا جواب دینے کی عادت تھی اور نہ ہی مولانا آزاد اسے ضروری سمجھتے
تھے۔ معاملہ ویژن اور شعور کا تھالیکن اس کے برخلاف مولانا نے اپنی تصنیف
میں حیران کن طور پر محمد علی جناح کا ایک سے زیادہ مقامات پر نہ صرف یہ کہ
تذکرہ کیا بلکہ متعدد امور و معاملات میں ان کے نقطہ نظر کو مسترد کرنے کے
لیے معقول لب ولہجہ اختیار کیا اوراصول وعقلیت کے معیار کا پورا لحاظ رکھا
ہے۔
قیام پاکستان سے تقریبا سوا سال قبل اپریل 1946 جریدہ چٹان میں قیام
پاکستان کو لے کر مولانا نے کچھ پیشین گوئیاں کی تھیں،یہ انٹرویو شورش
کاشمیری نے لیا تھا۔ انٹرویو کے اقتباسات درج ذیل ہیں:
1۔ کئی مسلم ممالک کی طرح پاکستان کی نااہل سیاسی قیادت فوجی آمروں کی راہ
ہموار کرے گی۔
2۔ بیرونی قرضوں کا بھاری بوجھ ہوگا۔
3۔ پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات کا فقدان ہوگا اور جنگ کے امکانات ہوں گے ۔
4۔ داخلی شورش اور علاقائی تنازعات ہوں گے۔
5۔ پاکستان کے صنعتکاروں اور نودلتیوں کے ہاتھوں قومی دولت کی لوٹ مار
ہوگی۔
6۔ نودلتیوں کے استحصال کے نتیجے میں طبقاتی جنگ کا تصور پیدا ہوگا۔
7۔ نوجوانوں کی مذہب سے دوری،عدم اطمینان اور نظریہ پاکستان کا خاتمہ
ہوجائے گا۔
اکتوبر 1947میں جامع مسجد دہلی میں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے
مولانا ابوالکلام آزاد نے خبردارکیا تھا کہ:
”میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ تم حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کی
سرٹیفکٹ حاصل کرو اور کاسہ لیسی کی وہی زندگی اختیار کرو جو غیر ملکی
حاکموں کے عہد میں تمہارا شعار رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جو اجلے نقش ونگار
تمھیں اس ہندوستان میں ماضی کی یاد گار کے طور پر نظر آرہے ہیں وہ تمہارا
ہی قافلہ تھا، انھیں بھلاوٴ نہیں ،انھیں چھوڑ و نہیں، ان کے وارث بن کر رہو
او رسمجھ لو کہ اگر تم بھاگنے کے لیے تیار نہیں تو پھر تمھیں کوئی طاقت
بھگا نہیں سکتی۔ آوٴ عہد کرو کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اس کے لیے ہیں اور ا س
کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے ہی رہیں گے۔“
یوپی سے پاکستان جانے والے ایک گروہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا:
”آپ مادر وطن چھوڑ کر جارہے ہیں آپ نے سوچا اس کا انجام کیا ہوگا؟ آپ کے اس
طرح فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور
ایک وقت ایسابھی آسکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جدا گانہ
حیثیتوں کا دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہوں۔ بنگالی، پنجابی، سندھ، بلوچ اور
پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں۔ کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان
میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے کسی کی نہیں رہ جائے گی؟ ہندو آپ
کامذہبی مخالف تو ہوسکتا ہے ،قومی مخالف نہیں۔ آپ اس صورت حال سے نمٹ سکتے
ہیں مگر پاکستان میں آپ کو کسی وقت بھی قومی اوروطنی مخالفتوں کا سامنا
کرنا پڑجائے گا جس کے آگے آپ بے بس ہوجائیں گے۔“
یہ کوئی جذباتی اپیل نہیں تھی نہ ہی کوئی نظریاتی تقریر تھی یہاں مولانا کی
سیاسی بصیرت کا نقطہ عروج بول رہا تھا اور آپ کی سیاسی بصیرت مستقبل میں
جھانک رہی تھی۔ جبکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ایسے دانشور تھے جس کی
نگاہِ دور رس نے بھانپ لیا تھا کہ ملک کی تقسیم کسی طرح بھی مسلمانوں کے
لیے سودمند نہ ہوگی۔
مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کو سلام کیا جانا چاہیے کہ سا نحہ تقسیم کے
باوجود بھی بڑی حد تک ملک سیکولر زم کی راہ پر گامزن رہااور اس کا سہرا بڑی
حد تک مولانا کے سر جاتا ہے۔ مولانا کی قیادت، ان کے تدبر، ان کی شخصیت میں
مرکوز ہندوستانی امتزاج ، سیکولرزم کے لیے ان کی جہد مسلسل اور ان کی
مشترکہ تہذیب کی زندہ جاوید علامت ہونے کی بدولت ہی ہندوستان سیکو لر بنا
رہا اور ملک کے مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ مولانا آزاد جیسی شخصیت نے ان
کی رہنمائی کی ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ ہندوستانی قومی تحریک کے عظیم رہنماوٴں
میں مولانا آزاد کی تعلیمات کو محض ادھورا سمجھا گیا ہے اور عوام کی اکثریت
کے سامنے ان کی حیثیت بس ایک قوم پرست مسلم رہنما کی ہے۔ مولانا آزاد رحمہ
اللہ کی قومی تحریک ایک جذباتی یادگار،نشانی اوربھولی بسری وراثت کے طور پر
باقی رہ گئی ہے جس کی عزت تو کی جاتی ہے مگر اسے واضح اور تنقیدی طور پر
سمجھنے کا احساس نہیں ہوتا جبکہ مولانا آزاد پوری زندگی سیکولرزم کی
نمائندگی کرتے رہے۔ سیاسی بصیرت کے نقطہ کمال پر فائز آزاد کے خوابوں کا
بھارت ایک مضبوط خود اعتمادی سے معمور سیکولر بھارت تھا:
”دنیا کو ہمارے ارادوں کے بارے میں شک رہا ہو مگر ہمیں اپنے فیصلوں کے بارے
میں شک نہیں گزرا۔ وقت کا کوئی الجھاوٴ، حالات کا کوئی اتار چڑھاوٴ اور
معاملوں کی کوئی چبھن ہمارے قدموں کا رخ نہیں بدل سکتی“… امام الہند مولانا
ابوالکلام آزاد
علامہ شورش کاشمیری کے ان اشعار کے ساتھ جو انھوں نے 10 مارچ 1858 مولانا
آزاد کے مزار پر لکھاتھا:
کئی دماغوں کا ایک انسان میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا؟ کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے عوام پہنچے
تیری لحد پہ ہو رب کی رحمت،تیری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے |