لاہور میں کالے کوٹ والے چند وکلاء کی جانب
سے تشدد کے جو واقعات سامنے آئے ہیں۔ اس نے حکومتی رٹ کا سوال پھر اٹھا دیا
ہے۔ کیا اس ملک میں کوئی قانون ہے، کیا اس قانون پر عملداری ہورہی ہے۔ کیا
ظلم، زیادتی، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، گراں فروشی، اغوا، قتل، اور تشدد کے
واقعات کی روک تھام کی جارہی ہے۔ کیا ملک کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے
والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جارہا ہے۔ کیا کوئی ظالم کا ہاتھ پکڑنے
والا ہے۔ کیا کوئی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب یہاں سزا پاتا ہے۔ اس ملک
کے کروڑوں عوام رات دن، اسکرین پر ان واقعات کی فوٹیج دیکھتے ہیں۔ اخبارات
میں تصویر اور خبریں دیکھتے ہیں۔ انڑنیٹ کے بلاگ پر دستاویزی ثبوت دیکھتے
ہیں اور یو ٹیوب پر وہ فحش مکالمات سنتے ہیں۔ جن میں کہا جاتا ہے۔ تم نے
لائیو پروگرام کے دوران سوال پوچھا تھا نا۔ اب میں تم کو اس کا جواب دیتا
ہوں۔ اور طبقہ اشرافیہ کے یہی لوگ اقتدار کے ایوانواں میں ہاتھوں ہاتھ لئے
جاتے ہیں۔ کیا مقدمات دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے چلائے جارہے ہیں۔ چونکہ اس
وقت آمر کرسی اقتدار پر فائز تھا۔ اس لئے اس کا کچھ نہ بگاڑا جاسکا۔ اور آج
وہ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی اتنا بااثر ہے۔ کہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا
ہونا تو دور کی بات۔۔۔۔اس کے چیلوں کو بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس خواجہ محمد شریف نے صحافیوں اور پولیس پر
وکلاء کی جانب سے تشدد کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے ایک ڈویژن بنچ
بھی بنا دیا ہے۔ جو پیر کو ازخود نوٹس کی سماعت کرے گا۔ اس سلسلے میں ایس
پی آپریشن اور لاہور بار کے صدر کو پیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے
سیشن کورٹ کے باہر ایک مقامی نجی چینل کے کیمرہ مین پر تشدد کرنے والے وکلا
کے خلاف تھانہ اسلام پورہ میں ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی ہے۔ لیکن کیا
واقعی انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے
قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ خوش فہمیاں ہیں۔ اگر اس ملک
میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو کسی کو چیف جسٹس آف پاکستان کو بالوں سے
پکڑنے کی جرات نہ ہوتی، آئین اور قانون کے ساتھ یوں مذاق نہ کیا جاتا،
صحافیوں، وکلاء سول سوسائٹی پر کیمروں کے سامنے وحشیانہ انداز میں سادہ
لباس والے ڈنڈے نہ برساتے، ۲۱ مئی کو کراچی میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی،
وکلاء کو زندہ نہ جلایا جاتا۔ چینلوں پر حملے نہ ہوتے،عوام کی محبوب رہنما
شاہراہ عام پر یوں قتل نہ کردی جاتی،جو راہ میں رکاوٹ ہو اسے اسے آگ اور
بارود سے نہ اڑا یا جاتا۔
پاکستان میں گزشتہ برسوں میں کئی صحافی اور اخبار نویس قتل، گرفتار، تشدد
سے شدید زخمی اور ہراساں کئے گئے ہیں۔ ان واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ صحافت
اب آسان پروفیشن نہیں ہے۔ یہ خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ خاص طور پر کیمرے والے
صحافی، اور فوٹو گرافر ان کی جانیں تو عذاب میں ہوتی ہیں۔ صحافیوں کے قتل،
گرفتاریوں، تشدد اور ہراساں کرنے، آزادی اظہار پر پابندیوں کے خلاف سپریم
کورٹ میں شکیل ترابی کی پٹیشن موجود ہے۔ صرف مئی 2006ء سے مئی 2007 کے
دوران ایک سال میں پانچ صحافی قتل ہوئے 17 گرفتار ، 61 زخمی اور 27 کو
ہراساں کیا گیا 11 واقعات میں میڈیا کی جائیداد کو نقصان پہنچایا گیا۔
میڈیا کوریج پر پابندیوں کے 16 واقعات سامنے آئے ۔ ۸۰۰۲ اور ۹۰۰۲ میں بھی
ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی بات مانتے ہوئے دیانت داری
سے اپنا پیشہ وارانہ فرائض نبھائیں۔ انہیں ہر حال میں سچ کی رپورٹنگ کرنی
چاہیے۔ مختلف ذرائع ابلاغ اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے
مشترکہ بنیادی اصولوں پر مبنی کتاب " صحافت کے عناصر" میں مصنفین بِل کو
واچ اور ٹام روسینسٹیل لکھتے ہیں کہ حقائق کے بارے میں معلومات اکٹھی اور
ان کی تصدیق کرنے کے بعد " صحافی کو ان کے مطالب کی ایماندارانہ اور قابلِ
اعتماد تصویر پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"
صحافیوں کو کسی تنازعہ میں شامل تمام فریقین کی صحیح عکاسی کرنے کی کوشش
بھی کرنی چاہیے۔ رپورٹنگ کے دوران تمام متعلقہ ماخذات کا احاطہ کرنا ہی وہ
طرزِ فکر ہے جو صحافی کی ساکھ کو برقرار رکھ سکتا ہے۔ بااعتماد رپورٹنگ کر
کے صحافی ایمانداری کے ساتھ کسی واقعہ کے بارے میں قابلِ اعتماد معلومات
فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور عمداً واقعے کا ہو بہو نقشہ کھینچتا ہے۔ یہ
کوئی آسان کام نہیں کہ کسی واقعے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اس سے لا تعلق رہا
اور اس کا اثر نہ لیا جائے۔ صحافی اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور
کرتے بھی ہیں۔ تاہم اپنے کام سے مکمل انصاف کرنے کے لئے انہیں خود پر قابو
رکھنا پڑتا ہے۔
اس کام میں جاں کا زیاں ہونے کا ہر آن کھٹکا لگا رہتا ہے۔ لیکن پھر بھی
پاکستان کے میڈیا نے جس بہادری اور جی داری کے ساتھ آزادی صحافی کی جنگ لڑی
ہے۔ سول سوسائٹی میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ وہ قابل تعریف ہے۔ وکلاء کو
بھی ان کالی بھیڑوں کی سر کوبی کرنا چاہیے۔ جو ان کی بدنامی کا باعث ہورہی
ہیں۔ یہ سازش بھی ہوسکتی ہے۔ شیرافگن کو نمونہ عبرت بنانے والے بھی تو
نادیدہ ہاتھ تھے۔ جو کالے کوٹوں میں ملبوس تھے۔ جب کسی صحافی پر تشدد اور
ظلم ہوتا ہے۔ تو معاشرے میں مایوسی پھیلتی ہے۔ صحافیوں پر تشدد اور مظالم
کے باعث عام آدمی کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عام آدمی کے حقوق کے
لئے کوئی نہیں کھڑا ہوتا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کے خلاف
ہونے والے مظالم کا از خود نوٹس لے اور صحافیوں کو تحفظ اور عمدہ ماحول
فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے فرائض آزادانہ ماحول میں ادا کر سکیں۔ مستقبل
کا صحافتی کردار اسی وقت متعین ہوگا۔ جب قانون کی حکمرانی ہو اور صحافیوں
کر اپنے فرائض ادا کرنے کی آزادی ہو۔ |