وکلا گردی اور آئی جی پنجاب کی بے بسی اور حقیقت کا اعتراف

کل یعنی ٢٩ جولائی کو ایک پولیس افسر کی بدمعاش وکلا کی طرف سے پٹائی اور بے عزتی کے بعد بھی آئی جی پنجاب پولیس مصلحتاً خاموش رہے ( اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی نے ایک بار بڑی خوبصورت بات کہی تھی کہ مصلحت اور بے غیرتی میں بڑا معمولی فرق ہوتا ہے ) مگر پولیس والے کی وکلا گردی کرنے والے وکلا کی میڈیا کوریج ٹی وی چینل پر دکھانے کے جرم میں وکیلوں نے اس بے چارے میڈیا پرسن کو آج صبح شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس نے یہ ویڈیو فوٹیج تیار کی تھی جس پر بالآخر آئی جی پنجاب پولیس صبر نا کرسکے اور پریس کے سامنے جس انداز اور ندامت کے ساتھ انہوں نے وکلا گردی کے حقیقت ہونے کا اعتراف کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ ضلعی عدالتوں میں وکلا گردوں کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اور وکیلوں نے قانون کے پورے نظام کو جکڑ لیا ہے اور بھی انہوں نے پریس کانفرس میں انکشافات کیے جن پر اللہ نے چاہا تو کل پوری خبر پڑھ کر اور اس کا جائزہ لے کر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔

فی الحال اپنے اسی پرانے مؤقف کو دہراتا ہوں کہ وکلا گردی پاکستان کے عدالتی نظام کو ناقابل بیان نقصان پہنچائے گی جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وکلا گردی کے کون کون سے واقعات ہوئے جس میں وکیلوں نے بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی انتہا کر دی۔ یہ ساری وکلا گردیاں الحداللہ پنجاب تک ہی محدود ہیں جبکہ صوبے سندھ میں بھی بڑے بڑے بدمعاش وکیل پڑے ہیں مگر ایسی حرکتوں کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ بات ہمارے سندھ میں رہنے والے وکلا گرد اچھی طرح جانتے ہیں۔

کاش یہ وکلا ایک نہتے اور اکیلے پولیس والے اور ایک نہتے اور اکیلے میڈیا مین کے ساتھ بھی ون ٹو ون بدمعاشی کی کوشش کرتے تو اپنی بدمعاشی کا سارا نشہ ہرن ہوجاتا مگر یہ بدمعاش وکیل ٹولیوں کی صورت میں جمع ہو کر نہتے اور سیدھے سادے افراد کو گھیر کر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑا ہیرو سمجھتے ہیں اور جب دوسری طرف بھی ٹولی ہو تو ان بدمعاش اور بدقماش وکیلوں سے بڑھ کر شریف اور قانون کی سمجھ والا کوئی نہیں ہوتا واہ بے غیرت اور ضمیر فروش وکلا تف ہے تمہاری حرکتوں پر جو تم قانون کی رکھوالی کے بجائے قانون کی دلالی کی صورت میں کرتے ہو

فی الحال بات یہی ختم کرتے ہیں اور پورے معاملے کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد انشاﺀ اللہ اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر اور کچھ تحریر کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 502145 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.