کون بنام کون؟

پاکستان کی تاریخ میں ایک بات جو کئی دوسرے ملکوں سے مختلف ہے وہ یہ کہ اس ملک میں ہر ماہ سے منسوب کم ازکم ایک تاریک یا افسوس پر مبنی واقعہ ضرور ہے ۔جنوری سے لیکر دسمبر تک ایسا ہی ہے۔مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں اس کی شرح بڑھ کر فی واقعہ ایک ہفتہ تک بات آجائے گی۔اور اسی کی بنیاد پر ہی اس ملک میں سیاست کی جاتی ہے۔اس ملک میں اکثر خودساختہ اور نام نہاد لیڈروں کی سیاست کا دائرہ کار ہی ایسے واقعات اور اس سے منسلک لوگوں کے جذبات پر مبنی ہوتا ہے۔یہ بھی بذات خود ایک افسوس کن واقعہ ہے مگر اس سے فرار ممکن نہیں ۔دسمبر کے آتے ہی سماجی میڈیا میں جنرل نیازی اور بھٹو صاحب سے متعلق کئی تصاویر شائع کی گئی ہیں ۔جن میں سے کئی حقیقی اور کئی کو خودساختہ بنیاد پر بھی بنائی گئی تھیں۔جو کہ حقیقت سے کوسوں دور تھیں۔میں نے انہی سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پرکئی سروے بھی دیکھے ۔جس میں کافی گڑھے مردے بھی اکھاڑے گئے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سقوط ڈھاکہ اس ملک کی کتاب میں ایک ایسا تاریک پہلو ہے جس کے بغیر اس ملک کی تاریخ نامکمل ہے۔عوام آج بھی اس کشمکش میں ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ وہ ڈھاکہ تھایا کسی کے اقتدار پر ڈاکا تھا؟آج عوام کے سامنے میں چند ایسے سوالات رکھنا چاہوں گا جوکہ ہم میں سے اکثریت کی ہی آواز ہیں۔1971کی جنگ کی ابتداء کو اس کے سیاق و سباق میں پڑھا اور پڑھایا جائے توسیاق و سباق میں بلاشبہ الیکشن ہے اور اس سے سامنے آنے والے نتائج ہیں۔آج کے اس دور میں ان سب باتوں کو چھپایا تو نہیں جا سکتا۔مگر اس کو ایک بار پھر واضح کیے دیتے ہیں کہ بھٹو صاحب کثرت رائے سے مجیب صاحب کے مقابلے میں مسترد ہو گئے تھے۔مگر اقتدار نہ چھوڑنے کی بنا پرانہوں نے نعرہ لگایا تھا اُدھر تم ادھر ہم۔اس کے بعد کیے جانے والے بیرون ملک دوروں کو اس لیے بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ آج کی طرح اس وقت کا پاکستان بھی ہدایات لیکر چلایا جاتا تھا۔حالات جو بھی تھے چاہے کسی کے کہنے پر بھی مگر ایک جرنیل نے گھٹنے ٹیک دیے اور وہ بھی فوج کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ۔مگر اس بات کے احکامات کس نے اور کس کے کہنے پر جاری کروائے تھے؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کو عام نہیں کیا گیا۔لیکن اگر چند

لمحوں کے لیے اس بات کو تسلیم کر لیاجائے۔کہ ایک جنرل جو کہ فور سٹا ر جنرل بھی نہیں تھا بغیر کسی کو اعتماد میں لیے ایک ایسا فیصلہ کرگیا۔جوکہ فوجی نظام سمجھنے والوں کے نزدیک ایک مذاق سے ذیادہ تصور نہیں کیا جائے گا۔اگر ایسا تھا تو بھی تو ڈھاکہ بنام نیازی کیس کیوں آج تک نہیں چلایا گیا؟علامتی ہی سہی مگر گنہگاروں پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟بھٹو بنام نیازی کو مان لینے والے یہ سوال ضرور کریں گے۔پہلا مارشل لاء بنام؟لیاقت علی خان بنام؟دوسرامارشل لاء بنام؟77بنام ؟افغان پالیسی بنام؟ پہلا جمہوری غدر بنام ؟دوسراجمہوری غدر بنامَ؟مرتضٰی بھٹو بنام؟چیف کا طیارہ بنام؟مشرف ٹیک اوور بنام؟بے نظیر بنام؟منی لانڈرنگ بنام؟قرض اتارو سکیم بنام؟سیاچین بنام؟بگٹی بنام؟ججز بنام؟لاپتہ افراد بنام؟عافیہ بنام؟اسامہ بنام؟خود کش بنام ؟سوات بنام؟وزیرستان بنام؟ریمنڈڈیوس بنام؟دھاندلی بنام ؟یہ اور ایسے سیکڑوں کیس منتظر ہیں کہ فیصلہ کیا جائے ان کو کس کے نام سے منسوب کیا جانا ہے۔کون ہے ان کا ذمہ دار ؟کب تعین ہو گا ذمہ داران کا؟میں آج اس بات کو ایک یقین اور سچ پر مبنی کہتا ہوں ان کیسس کو کبھی بھی شناخت نہیں ملے گی۔اس حمام میں سب ننگے ہیں۔سرائیکی میں ایک ضرب المثل ہے کہ "مُلا چور مسیت گواہـ "اور ایساہی ان کیسوں میں ہوگا ۔ان کیسوں کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کو چور بنام چور درج کیا جانا ہے۔یہ چوروں کی ایک مشاورتی کمیٹی ہے۔جس میں سب کے مفادات نے ان کو ذاتی رنجشوں کے باوجود بھی جوڑ رکھا ہے۔کوئی کسی کو نہیں پکڑے گا۔جو بھی بولے گا سب کی مٹی خراب کرے گا۔اور یہ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے۔یہاں تو بدقسمتی سے پارٹیوں نے صوبوں کے ساتھ ساتھ اب ایشوز کو بھی بانٹ لیا ہے۔کہ کون کس ایشو پر سیاست کرے گا۔مگر یہ سیاست صرف زبانی ہوگی۔اس پر عملی طور پر کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔نہ اس ملک میں ملکی عزت و سالمیت سے متعلق فیصلوں کو کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔ نہ ہی ان پر کوئی بحث کی جاتی ہے ۔ایک دوسرے کے گندے کردار عوام کے سامنے لاکر عوام کو شرمندہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کس قسم کے لوگوں کو اپنی نمائیندگی کے لیے منتخب کیا ہے۔کسی بھی قومی مسلے پر یہ لوگ ایک نہیں ہو سکے مگر شرمندگی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے ذاتی مفادات پھر ان کو ایک کر دیتے ہیں۔ملکی سطح پر فیصلہ لینے کی نہ ان میں اہلیت ہے نہ ہی جرات ہے ۔میں اور میرے جیسے کئی لوگ آج بھی سوچ رہے ہیں کہ جمہوریت جمہوریت سن سن کر اب کانوں میں درد ہوچکا ہے۔اب تنگ آگئے ہیں ہم ان الفاظ سے ۔کیا ہے یہ جمہوریت ؟کیا اس کا جن کبھی بوتل سے باہر آسکے گا؟اگر آیا ہے تواس نے کیا دیا ہے اس عوام کو ؟روٹی کا نوالہ سر چپھانے کی جگہ اور تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تو اس عوام کو نہیں میسر نہ ہی عوام کو اب اس کی کوئی امید نظر آرہی ہے ۔مگر جن باتوں کو بہانہ بنا کر جن سوالوں کی آڑ میں عوام میں تجسس پیدا کر کے ووٹ مانگے گئے ۔کم از کم ان کا جواب تو دے دیا جائے۔ڈھاکہ پر تقریر تو سب نے کی ۔ان لیڈروں نے بھی کر دی جن کواپنے سے متعلق ہی کئی الزامات کا سامنا ہے ۔مگر اس بات کا ذکر کوئی کیوں نہیں کرتا کہ مشرف کو کون لایا ؟کیسے لایا؟اس نے کیا کردیا؟کون اسکے ساتھ ہے ؟عوام نے زرداری صاحب کی پارٹی کو بے نظیر کے قاتل پکڑنے کے لیے ووٹ دیے تھے کیا وہ پکڑے گئے۔کہاں گئے رحمان ملک جن کو سب پتہ تھا جو جانتے تھے کہ کون ملوث ہے ؟نواز شریف اس بات کو مانیں یا انکار کر لیں بچہ بچہ اس بات کو جانتا ہے کہ ان کو ووٹ دونوں بھائیوں کے وعدوں کی وجہ سے ملے ۔کب لٹکائیں گے نواز شریف مشرف کو؟کب گھسیٹیں گے وہ لٹیروں کو ؟شہباز صاحب کے تین مہینے تو ناجانے کب ختم ہوں گے؟اس ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک اداکار آرہاہے ۔اور ایسا ہی آتا رہے گا ۔یہی ہم ووٹروں کی اوقات ہے اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہی روا رکھا جانا چاہیے ۔مگر میں اور میرا حلقہ احباب اس بات کا عہد کر چکے ہیں کہ اس وقت تک اب کسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیا جائے گا کسی کی حمایت نہیں کی جائے گی جب تک وہ عوام کے سامنے آکر ان سوالوں کا جواب نہیں دے گی۔

پہلا مارشل لاء بنام؟لیاقت علی خان بنام؟دوسرامارشل لاء بنام؟77بنام ؟افغان پالیسی بنام؟ پہلا جمہوری غدر بنام ؟دوسراجمہوری غدر بنامَ؟مرتضٰی بھٹو بنام؟چیف کا طیارہ بنام؟مشرف ٹیک اوور بنام؟منی لانڈرنگ بنام؟قرض اتارو سکیم بنام؟سیاچین بنام؟بگٹی بنام؟ججز بنام؟لاپتہ افراد بنام؟عافیہ بنام؟اسامہ بنام؟خود کش بنام ؟سوات بنام؟وزیرستان بنام؟ریمنڈڈیوس بنام؟دھاندلی بنام ؟

میں تو پھر یہی کہوں گا۔چور بنام چور۔گواہ چور۔اور معذرت کے ساتھ قاضی چور ۔سب کے سب چور ۔

Zia Ullah Niazi
About the Author: Zia Ullah Niazi Read More Articles by Zia Ullah Niazi: 9 Articles with 6803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.