پاکستان کو ایک نیلسن منڈیلا کی ضرورت

شاہین کوثر ڈار

پاکستان میں جس طرح ایک بڑی سازش کے تحت بار بار فرقہ وارانہ آگ لگانے اور بھڑکانے کی سازش جاری ہے صرف یہی نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی تقسیم در تقسیم کے لئے بڑی باریک چالیں چلی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں قومی یکجہتی اور فروغ امن کے لئے ایک نیلسن منڈیلا کی ضرورت ہے۔ ’’آزادی کا دشوار راستہ " نامی کتاب میں ، جو نیلسن منڈیلا کا زندگی نامہ ہے۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں اور جدوجہد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ دنیا کے سیا ستدانوں کے درمیان وہ چیز جو نیلسن منڈیلا کی شخصیت کو ممتاز اور نمایاں بنا دیتی ہے ان کی قومی آشتی کی پالیسی ہے کہ جو انہوں نے جنوبی افریقہ میں تشدد اور فتنوں سے محفوظ رہنے کیلئے اختیار کی ۔ کابینہ کی تشکیل کے وقت صدر منڈیلا کا نعرہ یہ تھا ’’معاف کردو ، لیکن بھولو نہیں ‘‘۔

’’جمہوریت میرا ہدف ہے اور اس کے حصول کیلئے میں اپنی جان بھی حاضر کرنے کو تیار ہوں۔ افریقیوں کی رہائی اور آزادی کے لئے جنگ لڑ رہا ہوں اور اس جدو جہد میں جہاں میں سفید فاموں کے تسلط کی مخالفت کروں گا وہیں سیاہ فاموں کے تسلط کے خلاف بھی جنگ لڑوں گا ۔‘‘ منڈیلا کے یہ کلمات ، حقیقی معنی میں آزادی کے حصول کے لئے ان کے پر عزم ہونے کی علامت ہیں ۔ اس زمانے میں منڈیلا کی یہ کوشش تھی کہ انتخابات میں جنوبی افریقہ بلکہ براعظم افریقہ میں سیاہ فاموں کو حصہ لینے کا حق دیا جائے تاکہ سفید فام اقلیت کی طرح وہ بھی اپنے ملک کی تقدیر بنانے میں برابر کے شریک ہوں ۔ عدالت میں منڈیلا کے مشہور دفاعیات نے ان کی رہائی میں ان کی کوئی مدد نہیں کی اور ججوں نے منڈیلا کو عمر قید کی سزا سنا دی ۔ اپنی عمر قید کے دوران وہ اٹھارہ سال روبن آئیلنڈ جیل میں رہے اور نسل پرست حکمرانوں کے تصور کے برخلاف ان کی عمر قید کی سزاگھٹ کر 27 سال میں محدود ہوگئی ۔ جیل میں منڈیلا کا نمبر 46664 تھا جو ان کی رہائی کے بعد دنیا کے مشہور ترین سیاسی قیدی میں تبدیل ہوگیا ۔ منڈیلا کو250 سے زائد عالمی اعزازات سے نوازا گیا، 1992 میں نشان پاکستان دیا گیا، دنیا کی بے شمار عظیم یونیورسٹیز نے انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دیں، وہ نوبل انعام یافتہ تھے، وہ اقتدار کی غلام گردشوں کے کبھی اسیر نہ ہوئے، ان کا مطمع نظر صرف اپنے فرض کی ادائیگی، عوامی خدمت اور مثبت لسانیت رہا اور پھر اقتدار خود ان کا غلام و اسیر ہو گیا جو تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جانے کے قابل ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

نیلسن منڈیلا نے دو بار پاکستان کا دورہ اور پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ پاکستان کے دونوں ایوان سے منظور کی گئی متفقہ قراردادوں میں کہا گیا کہ جنوبی افریقہ کے یہ عظیم رہنما ہمیشہ پاکستانی عوام کے ذہن و دل میں رہیں گے۔

حال ہی میں ڈاکٹر نیلسن منڈیلا 95 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے ان کی رحلت سے دنیا ایک عظیم انسان، مساوات، امن و انصاف اور نسلی عدم امتیاز کے علمبردار سے محروم ہو گئی ہے، خود باراک اوباما نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے سب سے زیادہ متاثر کن، باہمت اور انتہائی اچھا انسان کھو دیا، انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر نیلسن منڈیلا متاثر تھے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے منڈیلا کو انصاف کا دیوتا قرار دیا، انھوں نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو تحریک رنگ و نسل کے خاتمے، ا نسانی برابری، امیر غریب کے درمیان امتیاز ختم کرنے کے لیے انھوں نے چلائی، اس کی بنیاد پر وہ محض افریقی اقوام کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے تحریک اور جد وجہد کا استعارہ بن گئے ہیں ان کے علاوہ پوری دنیا کی اہم سیاسی شخصیات اور حکمرانوں نے منڈیلا کی آخری رسومات میں شرکت کی اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا، 5 دسمبر کو ان کا انتقال ہوا اور 15 دسمبر کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کے آبائی گاوں کونو میں تدفین ہوئی۔ ڈاکٹر نیلسن منڈیلا نے اپنے وطن سے نسلی امتیاز، عدم مساوات، نفرتوں اور مظالم کے خاتمے کے لیے عدم تشدد کے عظیم اصول پر تحریک چلائی اور اپنی انتھک محنت اور قربانیوں کی بدولت فتح یاب ہوئے۔ اور حتمی کامیابی سے ہمکنار کر کے دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے عظیم قابل تقلید مثال قائم کی اور مشعل راہ و مینارہ نور ثابت ہوئے۔
Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.