شاید یہ بات کچھ لوگوں کے متعلق درست ہے کہ
وہ جیل یا قید سے باہر آنے کے بعد کچھ سہمے ،ڈرے یا پژمردہ سے ہو جاتے ہیں
اورانھیں زبان کھولتے ہوئے بھی نامعلوم خدشے لاحق ہو جا تے ہیں مگر آر جے
ڈی سربراہ لالو پر ساد یادو پر یہ حقیقت صادق نہیں آتی بلکہ ان کے متعلق تو
بعض ماہرین کی رائے ہے کہ وہ جیل سے آنے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط عزائم
سے لیس ہیں۔ اور بے شمار طوفان ان کے اندر مچل رہے ہیں۔ ماہرین کی اس رائے
کی تصدیق کے لیے لالو پرساد کا وہ بیان کافی ہے جو انھوں نے جیل کی سلاخوں
سے باہر آتے ہی بی جے پی کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کو
چیلنج کر تے ہوئے دیا تھا۔انھوں نے فوری طور پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں
ببانگ دہل کہا تھا”ہندوستان میں فرقہ پر ستی اور فرقہ پرستوں کے لیے کوئی
جگہ نہیں ہے ،وہ چاہے کوئی ہوں ،پورے ملک میں یہ اعلان کر نے کے لیے ہم شہر
شہر اور گاﺅں گاﺅں کا دورہ کر یں گے اور ان کی سیاہ کرتوتوں سے سب کو آگاہ
کر یں ۔ایسے لوگوں کو کسی صورت ہستناپور (دہلی) نہیں آنے دیں گے۔ جب قربانی
دینا ہی ہمار ا شیوا رہا ہے تو دیش کی خاطر ایک قربانی اور سہی مگر فرقہ
پرستوں کو کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ انھوں نے مودی پر راست
حملہ کر تے ہوئے کہا تھا ” مودی نہ جانے کس ہوا میں اڑ رہے ہیں ،ابھی انھیں
ہماری طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔انھیں وہ دن یا د نہیں جب ہم نے اڈوانی کی آگ
برساتی رتھ یاترا روکی تھی نہ صرف روکی تھی بلکہ اڈوانی کو گرفتار بھی کیا
اور بہار میں ان عزائم خاک میں ملادی۔ جب ہم نے اتنا بڑا کا م کر دیا تو
پھر مودی ہمارے سامنے کیا ہیں؟وقت آنے پر ہم سب کچھ کر نے کو تیار مگر فرقہ
پرستوں کو کبھی دہلی نہیں آنے دیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ ”فرقہ پر ستی وہ
خیال اور سوچ ہے جس نے عظیم تر ہندوستان کے متعدد ٹکڑے کر دیے،نہ صرف ٹکڑے
کیے بلکہ کروڑوں انسانوں کے خون سے زمین بھی لال کردی اور بر صغیر میں
تباہی کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری کردیا جس کی یادیں آج بھی جھرجھری پیدا
کر دیتی ہیں اور ان خونی ایام کو یاد کر کے آج بھی دل کانپ جاتے ہیں ۔‘‘
لالو پرساد یاد و کے مذکورہ بالا خیالات کو ماہرین سیاست فرقہ پرستی کے
خلاف ’سرخ آندھی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ان کے خیال میں یہ محض بیان نہیں
بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے اس لیے کہ بار ہا دیکھا گیا ہے کہ لالوپر ساد یادو
نے وہی کیا جو ان کے من میں سمایاچاہے کتنی ہی مشکلیں درپیش آئی ہوں ،انھوں
نے کسی کی پرواہ نہیں کی اور اکثر اس میں کامیاب بھی رہے ،یہی وجہ ہے کہ آج
بھی کروڑوں لوگ ملک بیرون ملک میں ان کے گر وید ہ اور عاشق ہیں ۔ بعض لوگ
لالو پرساد کے اس بیان کا سیاست بازی کہہ کر مذاق اڑارہے ہیں اور کچھ وہ
ہیں جو اسے کانگریس سے قربت کا اشارہ مان رہے ہیں ۔ حقیقت کچھ بھی ہو یہ
لالو کی سیاست بھی ہوسکتی ہے اور کانگریس سے قربت کی راہ بھی مگر ہمیں سے
کوئی غرض نہیں ،غرض اس سے ہے کہ آج فرقہ پر ستی کے خلاف پھر کوئی مرد مجاہد
میدان میں کھڑا ہے اورایسی طاقتوں کے دہلی تک پہنچنے میں دیوار آہنی بن رہا
ہے جو ملک کا جغرافیہ ہی تبدیل کر نے کے درپے ہیں۔ملک کے وسیع تر مفاد
میںیہ قدم اٹھانا وقت کی اہم ضرورت بھی ہے جس کا خیر مقدم کر نا ہمارا
خلاقی اور انسانی فریضہ ہے ۔اس لیے کہ فرقہ پرستی اورسیکولرزم آگ اور پانی
کے مماثل ہیں ، ایک جلاتی ہے اور دوسرا زندگی دیتا ہے ۔ایک بر باد کرتی ہے
اور دوسرا آباد کرتا ہے۔آگ دشمن جاں اور پانی راحت جان ہوتا ہے۔الغرض
ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں لالو کا یہ عزم خیر کا باعث ہے ۔شاید اس طرح
ان پر ٹوٹنے والی مصیبتیں کم ہوں گی اوران کا وطن جسے وہ جاں سے عزیز
سمجھتے ہیں فرقہ پر ستوں کے مظالم سے آزادرہے گا۔
لالو پرسادکے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ معمولی پڑھے لکھے ہیں ،لیکن ان کے
بیانات ، ان کے عزائم اور ان کے مناسب طریقے سے اٹھا ئے گئے اقدام سے نہیں
لگتا کہ وہ معمولی پڑھے لکھے ہیں ۔ شاید انھوں نے روایتی کتابوں سے زیادہ
کتاب زندگی کو پڑھا ہے جس کے ورق ہرآن بدلتے رہتے ہیں اور نئے عنوانات
،سرخیاں، مسائل، فکریں ، اسلوب اور حل سامنے آتے جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ
کتاب زندگی انسان کو اپنے وقت کا علامہ،مجدداورامام بنادیتی ہے،عالم یہ
ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ماہرین اور اماما ن فن ان سے رائیں لیتے ہیں اور ان کی
اقتدا کرتے ہیں۔ان کی رائے تجربات کی روشنی میں باوقار اور باوزن بھی ہوتی
ہے جس کا سب احترام اور تائید کرتے ہیں او راس کی روشنی میں لائحہ عمل تیار
کر تے ہیں۔ روایتی کتابوں کو اکثر بوسیدہ ہوتے دیکھا ہے مگر کتاب زندگی ہر
آن نئی رہتی ہے،نہ اسے دیمک کھاتی ہے اور نہ اس کے اوراق پھٹتے ہیں۔ اسی
طرح اس کے فرامین پرانے بھی نہیں ہوتے۔
یہ با ت بڑے حوصلے و ہمت کی ہے کہ لالو پر ساد یادو نے عصر حاضر کی اس طاقت
سے ٹکر لینے کا اعلان کیا ہے جس نے گجرات ،مظفر نگر اور ملک بھر میں قتل و
غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔مزید ان بازاروں میں اشتعال لانے کے لیے
اس کی جانب سے تشدد انگیز بیانات داغے جاتے ہیں ،صاف لفظوں میں کہاجائے تو
قاتل انسانیت نریند ر مودی کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے اور دیکھنا لالو کی
یہ’ سرخ آندھی‘ ضرور فرقہ پرستوں اور مودی کا نشیمن خاکستر کر ے گی ۔ ضرور
ہندو ستانیوں کے ان کے ظلم ستم سے نجات دلائے گی۔ضرور ملک کے امن و امان کے
دشمنوں کا خاتمہ کر ے گی۔
اگر لالو پر ساد یا دو کی گذشتہ سیاسی زند گی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ
ہوگا کہ انھوںمرکزی اور ریاستی سطح پر جو کارنامے انجام دیے وقت کے مورخ نے
انھیں آب زر سے لکھا۔ ریل کرائے میں کمی اور حیرت انگیز منافع کی بات ہو یا
اڈوانی کی آتش گیر ریلی کو روکنا،بہار میں غریبوں کی فریاد رسی ہو یا
پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے حق میں آواز اٹھانا نیز فرقہ پرستی کے خلاف اپنے
سخت تیور وں کا اظہار یہ ایسے حقائق ہیں جنھیں باشندگان ہندکسی صورت نہیں
بھول سکتے ۔ان کی بدولت ہندوستانی اقلیتوں کو یک گونہ راحت بھی ملی اور
انھیں احسا س بھی کہ کو ئی ہے جو ان کے لیے وقت کی حکومتوں سے لڑتا ہے نیز
فرقہ پر ستوں کے عزائم کو خاک میں ملا نے کاعزم رکھتا ہے۔ مادر وطن بھی
ایسے سپوتوں سے خوش و خرم اور شادماں ہوتی ہے۔وہ سپوت اس کا حق ادا کرتے
ہیں اور اسے زخمی ہونے سے بچاتے ہیں۔
آج کے دھواں دھواں حالات میں عظیم تر ہندوستان کو انگنت لالو ﺅں کا کی
ضرورت ہے تا کہ وہ اسے فرقہ پرستی سے نجات دلا سکیں ۔آج مادر وطن اپنے ان
سپوتوں کو آواز دے رہی ہے جنھوں نے قربانیاں دے کر اس کے چمن کو سینچا
ہےاور اس کے زخمی بد ن کو سہارا دینے کے لیے اپنی ہڈیوں کی بیساکھی بنا ئی
تھی۔ آج مادر وطن کوفرقہ پرستی ڈس رہی ہے اور اس کا وجود مٹا رہی ہے۔ مادر
وطن اپنے وجود کی جنگ سے نبرد آزما ہے ایسے عالم میں ہمارے لیے لاز م ہے کہ
’لالو کی سرخ ‘آندھی میں مزید شدت لانے کے لیے ان کا ساتھ دیں اور مادر
ہندوستان کو فرقہ پر ستی سے نجات دلانے میں معاون بنیں ۔ |