دنیا کا اسلامی نظریاتی بنیادوں
پر قائم ہونے والا ملک پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا ہے اس دن سے آج تک
یہ اپنے اسلامی ممالک کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اسلامی
ممالک کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کبھی نہ کسی کے اشاروں پر چلا اور نہ ہی
اپنے بھائیوں کو اذیت دی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ ہو یا ایران کا ، عراق کا
مسئلہ ہو یا فلسطین کا، کویت کا مسئلہ ہویا شام کا ۔ پاکستان ہمیشہ اپنی
مسلمان بھائیوں کی درپردہ حمایت کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ جب کہ
پاکستانی عوام تو کھلم کھلا اپنے مسلمان بھائیوں کی حمایت کرتے ہیں ۔افسوس
اس بات کاہے کہ ہمارے چند مسلم ممالک مسلمانوں کے لبادے میں ہمارے دشمنوں
کی زبان بن بولتے ہیں۔ وہ ناسمجھ یہ بھی نہیں جانتے کہ غیر مسلم کبھی بھی
مسلمان کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ یہ صرف اپنے مفاد کی حد تک ساتھ دیتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کبھی ایک ہی ملک تھے مگر 1947کے بعد یہ دوالگ الگ نظریات
والے ملک بن گئے۔ ان دونوں ممالک کا مذہب اور نظریہ الگ الگ تھا۔ نظریاتی
اختلافات کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت آج تک ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے
ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی
کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پاکستان اور
بنگلہ دیش بھی بھارت کی طرح ایک ہی تھے ۔ پھر 16دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ کے
میدان میں ایک بڑے ہجوم کی موجودگی میں پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل نیازی
نے بھارتی فوج کے کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کے بعد ملک کے
دوحصے ایک دوسرے سے عملی اور قانونی طورپر الگ ہوگئے تھے۔پاکستان اور بنگلہ
دیش کا الگ ہونے کاواقعہ اچانک رونما نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی
محرومیوں اوشیخ مجیب کی غدارانہ چال کی ایک طویل داستان ہے۔
ایوب خان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملک کی باگ ڈور جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں
آگئی۔ انہوں نے ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کرائے ۔جس میں مشرقی
حصے میں شیخ مجیب کی جماعت نے مکمل کامیابی حاصل کی جب کہ مغربی حصے میں
انہیں کوئی نمائندگی نہ ملی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی
حصے کی سیاسی قیادتیں دونوں حصوں کی نمائندہ نہ رہیں۔مغربی حصے میں
پارلیمنٹ میں اکثریت ذوالفقار بھٹو کی پیپلز پارٹی کی تھی۔دونوں پارٹیوں کی
کشیدگی کی وجہ سے ملک کے لیے نئے آئین کی تیاری کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ادھر
مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے جذبات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اور شدت
پسندوں کی جانب سے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے ملازموں، کارکنوں اور
کاروباری افراد پر حملے شروع ہوگئے۔
جنرل یحییٰ خان نے فوجی کارروائی کے ذریعے امن وامان قائم کرنے کاحکم
دیا۔فوج نے شیخ مجیب کو گرفتار کرلیا اور باغیوں کے خلاف سخت کارروائی شروع
کردی۔کئی مہینوں تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں بڑی تعداد میں مجیب کے
حامی ہلاک ہوئے ہوئے ۔ کیونکہ شیخ مجیب اور اسکے ساتھیوں کے پیچھے بھارت کا
ہاتھ تھااس لیے لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے سرحد پار کرکے بھارت چلے گئے۔
بھارت میں شیخ مجیب غدار پاکستان کی پارٹی عوامی لیگ کی جلاوطن قیادت نے
مکتی باہنی کے نام سے عسکری تنظم قائم کرلی۔ اس تنظیم نے پاکستانی فوجیوں
پر حملے شروع کردیے۔ جب فوج ان کا پیچھا کرتی تو وہ سرحد پار بھاگ جاتے جب
کہ سرحد پر بھارتی فوج پاکستانیوں کا راستہ روکتی۔ جس سے سرحدی کشیدگی میں
اضافہ ہونے لگا۔ اور پھر اسی سال دسمبر میں اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارتی
فوج کا دباؤ کم کرنے کے لیے جنرل یحییٰ خان نے مغربی پاکستان کا محاذ کھول
دیا جس سے بھارت کو اپنے فوجی دستے مشرقی پاکستان میں داخل کرنے کا جواز مل
گیا۔پاکستان کی فوج زیادہ دنوں تک مقابلہ جاری نہ رکھ سکی کیونکہ اسے
بھارتی فورسز اور بنگالیوں دونوں کی جانب سے حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا
تھا۔ اور پھر 16 دسمبر کا وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب جنرل نیازی نے پلٹن کے
میدان میں ہتھیار ڈال دیے۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں جہاں کچھ محرومیاں تھیں ادھر ہی شیخ مجیب کی
مکارانہ پالیسیوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ شیخ مجیب کی غدارانہ ذہانت کا آج
بیالیس سال بعد پتہ چل رہا ہے جب اس کی بیٹی حسینہ واجدبنگلہ دیش میں چن چن
کر اپنے دشمنوں سے بدلہ لے رہی ہے۔جس کی مثال عبدالقادر ملا کی پھانسی کے
علاوہ کئی دوسرے جماعت اسلامی کے رہنماوؤں کو جیل میں بند ہونے کی ہیں۔ان
کا قصور کیا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ تصفیہ کے تمام راستے مغربی پاکستان کی
سیاسی و عسکری قیادت نے بند کر دیے تھے اس صورتمیں حب الوطنی کا واحد تقاضا
یہی تھا کہ پاکستان کو قائم رکھنے کے لیے فوج کا ساتھ دیا جاتا اور یوں
اسلام پسند عناصر نے یہی راستہ چنا ۔اسلام پسند لوگوں نے اسلامی فوج کا
ساتھ دیا تاکہ ہندو فوج کا مقابلہ کیا جا سکے۔
شیخ مجیب کی دختر شیخ حسینہ واجدنے جب سے بنگلہ دیش کااقتدار سنبھالا ہے وہ
اس دن سے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ بھارت نواز حسینہ 420پاکستان کے
خلاف کوئی نہ کوئی سازشی جال بنتی رہتی ہے۔شیخ حسینہ اپنی تمام حدیں کراس
کرکے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہی ہے۔وہ اس انجام سے ناواقف ہے
کہ اقتدارکی کرسی کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیتی۔باپ کے انجام سے ناواقف شیخ
حسینہ پاکستان کی دشمنی میں بہت آگے نکلنے کی کوشش کررہی ہے۔وہ بھول رہی ہے
کہ اس کے با پ کو اس کے اپنے ساتھیوں نے کس طرح موت کے گھاٹ اتارا تھا؟
بنگلہ دیشی عوام کو اپنے دیس سے محبت ہے اور پکاسچا مسلمان کبھی بھی اپنے
ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اقتدار کے نشے میں چور بھارتی پٹھو اور
غدارِ پاکستان شیخ حسینہ اپنے ملک میں ہی آگ کے شعلے بھڑکا رہی ہے۔ شاید اس
کو اندازہ نہیں کہ بنگلہ دیشی عوام بھارت کو نہیں پاکستان کو اپنا سمجھتے
ہیں۔ جس کا ثبوت بنگلہ دیش کے موجودہ حالات ہیں کیوں کہ پاکستان نے ہر
میدان میں ہمیشہ اپنے بنگالی بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔
حسینہ واجد آج بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والے لوگوں کو انتقام
کا عبرت ناک نشانہ بنا رہی ہے۔ افسوس ہے اس کی سوچ پر۔ کل اس نے اپنے ایک
بیان میں واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ’’پاکستان کے حامیوں کے لیے بنگلہ دیش
میں کوئی جگہ نہیں‘‘اب فیصلہ بنگلہ دیش کی عوام کو بھی کرنا ہوگا کہ وہ
پاکستان کو اپنا سچا اور مخلص دوست سمجھتے ہیں یا عیا ر، مکار ہندو بنیوں
کو۔
یہی نہیں حکومت پاکستان کو بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی؟ کیا
پاکستان اپنے حمایت یافتہ لوگوں کو بنگلہ دیش میں حے بنگالی بھائیوں کا
ساتھ دیا ہے۔
حسینہ واجد آج بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والے لوگوں کو انتقام
کا عبرت ناک نشانہ بنا رہی ہے۔ افسوس ہے اس کی سوچ پر۔ کل اس نے اپنے ایک
بیان میں واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ ’’پاکستان کے حامیوں کے لیے بنگلہ دیش
میں کوئی جگہ نہیں‘‘اب فیصلہ بنگلہ دیش کی عوام کو بھی کرنا ہوگا کہ وہ
پاکستان کو اپنا سچا اور مخلص دوست سمجھتے ہیں یا عیا ر، مکار ہندو بنیوں
کو۔
یہی نہیں حکومت پاکستان کو بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی؟ کیا
پاکستان اپنے حمایت یافتہ لوگوں کو بنگلہ دیش میں حسینہ 420 کے رحم و کرم
پر تنہا چھوڑ دے گا یا ان کے لیے کوئی عملی قدم بھی اٹھائے گا؟اب پاکستان
کو ہر قدم سوچ کر اٹھا نا ہوگا۔ |