پھر ''ناتواں کاندھوں'' پر صفائی مہم کا بوجھ اٹھانے کا اعلان

 کارپوریشن انتظامیہ نے ایک بار پھر اپنے ''ناتواں کاندھوں'' پر صفائی مہم کا بوجھ اٹھانے کا اعلان کیا ہے یہ مہم یکم جنوری سے شروع کی جائے گی جبکہ میونسپل کارپوریشن ایمپلائز یونین نے یہ کہہ کر مہم کا بائیکاٹ کردیا کہ گذشتہ مہم میں بھی عملہ صفائی کو انعامات نہیں دیئے گئے اس لئے وہ جنوری سے شروع ہونے والی مہم میں حصہ نہیں لیں گے دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جس مہم کے حوالے سے ایمپلائز یونین کے عہدیدار انعامات کے خواہشمند ہیں اور اس کے طلب گار ہیں وہ مہم بھی تو برائے نام تھی مین شاہراہوں کی صفائی کی جاتی یا اندرون شہر کچھ حصوں میں صفائی کی حالت کچھ بہتر نظر آتی جبکہ باقی پورا شہر تو گندگی کا منظر ہی پیش کرتا رہا جیسے اب پیش کر رہا ہے پھر انعامات کس بات کے اس وقت مہم کے دوران بھی گندگی اور غلاظت سے شہر اٹا ہوا تھا جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے نالیاں بند تھیں نکاسی آب کی صورتحال ابتر تھی اس کے باوجود ڈھنڈورہ پیٹا جارہا تھا کہ شہر کو ''شیشے کی طرح پاک'' کردیا گیا جو لوگوں بلکہ اس شہر کے باسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا آج بھی وہی صورتحال ہے مین شاہراہ جو پی ڈی اے کی ذمہ داری ہے اس کی صفائی کے علاوہ پورا شہر عملہ صفائی کا منہ چڑھا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا دعوے ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے سرانجام دے رہے ہیں سوال یہ ہے کہ اگر عملہ صفائی ایمانداری سے فرائض انجام دے رہا ہے تو پھر پورے شہر میں گندگی اور غلاظت کے یہ ڈھیر کہاں سے آتے ہیں جو ان کے جانے کے بعد پڑے رہتے ہیں اگر تو وہ اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیتے تو صورتحال بالکل برعکس نظر آتی یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ شہر کی صفائی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اگر یہ کام عملہ صفائی کا ہے تو وہ کام نہ کرنے کے باوجود عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل کئے جانے والے ٹیکسوں سے کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں مستزاد یہ کہ وہ انعامات کے خواہش مند بھی ہیں اور طالب گار بھی بلکہ زبردستی کی طلب ہے اگر تو اپنے ''فرائض'' جو وہ (اتنے اچھے طریقے سے انجام دے رہے ہیں کہ شہری خوشی سے کئی مر نہ جائیں) ادا کر رہے ہیں تو پھر انعامات کس صلے میں کیا عملہ صفائی نے بہت بڑا تیر مارا ہے حالانکہ وہ ''تیر'' کسی کو نظر نہیں آرہا یہاں اگر یونین ناجائز خواہشات اور مطالبات کی آماجگاہ ہے تو دوسری طرف بلدیہ اور ضلعی حکام بھی اپنے فرائض سے مسلسل غفلت برت رہے ہیں اس میں عوامی ناظمین اور نمائندے بھی شامل ہیں جنہوں نے عملہ صفائی کو اپنے گھروں کی لونڈی بنا رکھا تھا پورا شہر گندگی اور غلاظت میں اٹا رہا جبکہ ان عوامی نمائندوں کے گھر اور گلی محلے صاف رہتے تھے یہی نہیں بلکہ ان کے ذاتی کام بھی ہوتے تھے ایسے میں عملہ صفائی ہو یا کوئی دوسرا سٹاف اسے دوسروں کی کیا پڑی ہے جو وہ اپنی جان ہلکان کرتے پھرتے یہ عمل صرف عوامی نمائندوں تک ہی محدود نہیں رہا یہاں سرکاری حکام بھی یہی مزے اٹھاتے رہے جس کی وجہ سے بجائے اس کے کہ یہ شہر پھولوں کا شہر بنتا ان لوگوں کے گھر پھولوں والے بن گئے شہریوں کے مسائل اپنی جگہ پر ہی رہے جس کی طرف اب تک کسی نے توجہ نہیں دی یہاں صرف ذاتی مفادات کی دوڑ لگی ہوئی اب ایک بار پھر صفائی مہم کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے جس سے قبل ہی ایمپلائز یونین نے اپنی پھرتی دکھادی اور مہم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ویسے بھی اگر یہ مہم شروع ہوئی تو اس کا حشر بھی سابق مہم کی طرح ہی ہوگا۔ کسی مہم کی ضرورت نہیں نہ ہی اس شہر اور اس کے باسیوں پر کسی احسان کی ضرورت ہوگی اگر سب سرکاری ملازمین اپنے گریبان میں جھانک کر ایمانداری اور فرض شناسی سے اپنے فرائض ادا کریں نہ بجے گا بانس نہ بجے گی بانسری ہر کام اپنے روٹین سے انجام پائے گا ملازمین کو شکایت ہوگی نہ شہری فریاد کریں گے شہر صاف ہوگا تو گلی محلے بھی صاف ہونگے کسی کو شکایت ہوگی نہ حکام کو فکر ہوگی ۔کسی مہم کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی اس کی پلاننگ ہوگی اور جب مہم ہی نہیں ہوگی سب اپنے فرائض ایمانداری اور فرض شناسی سے ادا کریں گے تو پھر بے جا انعامات کی خواہش اور مطالبے بھی نہیں ہوں گے یہ دومتضاد صورتیں ہیں انعامات تو اضافی کارکردگی پر ملتے ہیں جبکہ یہاں تو صورتحال ہی مختلف ہے اصلاح کیلئے بس ہمیں صرف اپنے اندر جھانکنا ہوگا اپنا محاسبہ کرنا ہوگا جو ایک مشکل کام ہے اور یہی اصل کام ہے جو نہ ہم سے ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہم کر رہے ہیں بلکہ ارادے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔
SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 44810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.