پاکستان کی بھارت دیش برانڈ
ماڈرن مکتی باہنی، مستقل قومی مصیبت کے آدم خور بھیڑیے الطاف حسین نے حسب
معمول نشے میں بدمست پاکستان دشمنی کی آخری حدود عبور کرنے کا آغاز کر دیا
ہے۔ پاکستان اور پاکستانیت پراس تازہ ترین وار کی اصل وجہ حالیہ انتخابات
میں نون لیگ کی واضع اکثریت کے بعد سامنے آنے والی وہ صورت حال ہے جس میں
متحدہ جیسے خون چوس پریشر گروپس اورسیاسی بلیک میلنگ سے سیاسی بھتے بٹورے
والے بندر بانٹ مافیوں کیلئے بظاہر کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پیر آف لندن
شریف الطاف حسین کے تمام اتحادیوں کے سیاسی بساط سے باہر پھینکے جانے کے
بعد موصوف کو امید کی کوئی ایسی کرن نظر نہیں آ رہی کہ آئیندہ حکومت اس کے
دہشت گرد مافیہ کو مجبوراً اتحادی بنا کرalt1 گود میں بٹھا کر لوٹا دھن
کھلائے۔ الطاف کی طرف سے کراچی کو الگ کرنے کی ناقابل برداشت غدارانہ
ڈیمانڈ سے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی جو دل آزاری ہوئی ہے وہ ناقابل بیان
ہے۔ میری نظر میں ایک مصدقہ بھارتی ایجنٹ کی یہ دھمکی دراصل آنے والی حکومت
کو ایک کھلا پیغام ہے کہ ہمیں حکومت میں شامل کرو گے تو ہی سکون سے رہنے
دیں گے ورنہ بھارتی پشت پناہی سے مکتی باہنی کی تاریخ دھرانے کیلئے تیار
ہیں۔ الطاف نے ساتھیوں کی جس بند مٹھی کے کھلنے کی بات کی ہے، اس بند مٹھی
میں موجود کھوکھرا پار سرحد سے درآمد شدہ جدید بھارتی اسلحہ اور را کے
تربیت یافتہ طمانچیوں کے بارے صرف حساس ادارے ہی نہیں پاکستان کا بچہ بچہ
بھی خوب واقف ہے۔ مگر یہودی گھوڑے پر سوار مسخرے جنگجو کو شاید اس بات کا
اندازہ نہیں کہ نہ تو کراچی اس ڈھاکے کی طرح سات سمندر پار ہے اور نہ کراچی
کے غیورعوام ان پرو انڈین بنگالیوں کی طرح غدار پاکستان ہیں۔ سو اس مٹھی کے
کھلنے سے پہلے ہی پاکستانی عوام نون لیگ، تحریک انصاف، قاف لیگ، فنکشنل لیگ،
جماعت اسلامی، جے یو آئی کی انفرادی سیاسی شناختیں بھلا کر، شعیہ سنی وہابی
دیوبندی کے سب مسلکی لیبل اتار کر پاکستانی سبز ہلالی پرچموں کے کفن اوڑھے
را اور موساد کے دجالی ہیڈکوارٹر نائن زیرو کے پرخچے اڑا کر شہر قائد کو
متحدہ قاتل موومنٹ کی ماڈرن مکتی باھنی کے ناپاک وجود سے پاک اورارض پاک کو
امن کا گہوارا بنا دیں گے۔ برطانوی سامراج کی گوری گود کی پناہ میں بیٹھا
بزدل مفرور وطن بھتہ خور قاتل یاد رکھے کہ کراچی کے مظلوم اور امن پسند
عوام اب بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کیخلاف اٹھ کھڑے ہیں۔ آج صرف میرا کراچی
نہیں پورے پاکستان کے محب وطن لوگ پنجابی مہاجر پٹھان سندھی بلوچی اور
کشمیری کی تفریق بھلا کر مہاجروں کے حقوق کے نام پر بھتہ خوری کی دکان
چلانے والے دہشتگرد مافیہ کیخلاف متحد ہو چکے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں کہ جب
الیکشن اور عوامی مینڈنٹ کو بندوق کے زور پر ہائی جیک کرنے والے جن دہشت
گردوں کی مٹھی میں بھارتی گولیاں ہیں ان کے ہاتھوں کو ان کی پشت سے باندھ
کر مزار قائد کے باہر سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔
احباب آج لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ میرے دیس کا حق گو روشن خیال میڈیا اور
سچے صحافی بوری بند لاش کلچر کے خوف سے خاموش ہیں یا ان کے مونہہ میں حرام
ٹھونسے جانے کے کارن زبان بندی ہے۔ اس حوالے سے جہاں سابقہ حکمرانوں کی طرف
سے اس جدید مجیب الرحمن کی پذیرائی قابل صد لعنت ہے وہاں اس خون آشام
بھیڑیے کیخلاف جہد کا آغاز کرنے کے بعد پراسرار یو ٹرن لینے والے عمران خان
جیسے انقلابی بھی موجودہ حالات کے ذمہ داروں میں شامل ہیں۔ الطاف کیخلاف
خان صاحب کی مسلسل خاموشی کے پیچھے کون سی سیاسی مصلحت تھی اس کا جواب آنے
والا وقت دے گا لیکن آج عوام عمران خان سے یہ سوال ضرور پوچھ رہے ہیں کہ
الطاف حسین کیخلاف لندن میں مقدمات ممکن نہیں تھے تو الطاف مافیہ کی قتل و
غارت، بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ اور دھونس دھاندلی کے بارے خان صاحب کی مسلسل
تین برس خاموشی کی وجہ کیا تھی۔ کیا ان جیسا انقلابی لیڈر بھی ایک عالمی
دہشت گرد کے بوری بند لاش مافیہ کے خوف سے خاموش تھا یا بیک ڈور مذاکرات کے
سلسلے میں کوئی ایسی سیاسی ڈیل ہوئی تھی جس میں خود عمران خان بھی الطاف
جیسے شعبدہ باز مداری کے ہاتھوں دھوکہ کھا گئے ہیں۔ میرے مطابق خان صاحب نے
ایک زہریلے سانپ سے دوستی کر کے ڈنگ کھایا ہے۔ احباب تعجب ہے کہ ایک
برطانوی نیشنلٹی ہولڈر قاتل لندن میں بیٹھ کر پاکستان اورعوام کے بارے
ناقابل برداشت زبان درازی کرتا ہے مگر پاکستانی حکومت گورنمنٹ آف برطانیہ
سے احتجاج تک نہیں کرتی۔ کیا قیامت ہے کہ ایک خود ساختہ جلاوطن اور
مفرورقاتل برطانوی سرزمین پر بیٹھ کر دہشت گردی ، قتل و غارت اور بھتہ خوری
مافیہ کا کنٹرول روم چلا رہا ہے مگر انسانیت کے علمبردار ہونے کے دعویدار
اسلام دشمن گورے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ تعجب ہے کہ برطانوی ادارے
ایک متنازعہ اور شخص کو کس قانون و منطق کے تحت پاکستان اور پاکستانی عوام
کیخلاف زہر اگلنے اور کھلی بدمعاشی کی اجازت دیتے ہیں۔ برطانوی حلقوں کی
طرف سے بارہا احتجاج اور مظاہروں کے باوجود ایک انٹرنیشنل دہشت گرد کو
برطانوی سرزمین سے دہشت گردی کا مرکز چلانے کی اجازت دینے کا قانونی و
اخلاقی جواز کیا ہے۔ احباب کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پاکستانی شہری پاکستان
میں بیٹھ کر امریکہ یا برطانیہ میں اپنی سیاسی تنظیم کو کنٹرول کرے یا
اسلام آباد میں بیٹھ کر بھارت میں اسلامی نظام کی تحریک چلائے۔ مگر افسوس
آج تک کسی حکومت نے سفارتی سطح پر اس شر کیخلاف آواز نہیں اٹھائی۔ حسینیت
کا علمبردار ہونے کے اس یزیدی دعویدار کو آج ہر فاروق درویش کا کھلا پیغام
ہے کہ برطانوی گود اور یہود و نصاریٰ کے بغل بچے فتنہء قادیانیت کی پناہ
میں بیٹھے بزدل دہشت گرد، بہادری دکھا کر پاکستان واپس آ تاکہ تیری ارتھی
کو مزار قائد کے سائے میں جلا کر تیری راکھ کو تیرے اصل شودر والدین بال
ٹھاکری پجاریوں کے حوالے کیا جائے۔ کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کی بات
کرنے والے ننگ آدم شیطانی چرخے مجیب الرحمن اور اندراگاندھی کا بھیانک
انجام یاد رکھیں۔ آخر میں ملکی سرحدوں کی محافظ افواج پاکستان کی اعلی
قیادت، قومی سلامتی کی ضمانت آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت تمام سیکورٹی
اور حساس اداروں سے وزیرستان کی بجائے کراچی کے عوام کو گسٹاپو نما دہشت
گرد تنظیم کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے ایمان افروز اپریشن کی اپیل کرتا
ہوں۔ میں پاکستان کے ممکنہ وزیر اعظم میاں نوازشریف اورعمران خان سمیت تمام
سیاست دانوں سے بھی دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اب سب آپسی اختلافات
بھلا کرکراچی کے مظلوم عوام کے تحفظ اور ملکی بقا و سلامتی کیلئےغدار الطاف
مافیہ کیخلاف یک نقاطی ایجنڈے پرایک ہو کراس ناسور کا ایسا مشترکہ اپریشن
کیا جائے کہ آئیندہ خیبر سے راسکماری تک تاقیامت کوئی مجیب اور الطاف حسین
پیدا نہ ہو
فاروق درویش سے اقتباس |