پرویز مشرف نے تین نومبر ۲۰۰۷ کو
ایمر جنسی کا نفاذ کر کے 60 ججز کو گھر بھیج کر ففٹی ماری مگر چیف جسٹس نے
اس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے سینچری اسکور کی اور سو سے زائد ججز کو گھر بھیج
دیا۔ ظاہر ہے ریکارڈ توڑ کر ہی ہیرو بن سکتے تھے۔ بظاہر اس اقدام کو اس لئے
سراہا جارہا ہے کہ یہ مارشل لاء اور آمر کا راستہ روکے گا۔ لیکن لگتا یوں
ہے کہ سپریم کورٹ نے اگلے مارشل لاء کو جائز قرار دینے کے لئے سو ججز تیار
کر دیے ہیں۔ جب سپریم کورٹ نے مشرف کے ٹرائل کے لئے حالیہ کاروائی کا آغاز
کیا تھا اس وقت امریکہ نے کہا کہ ہم مشرف کا دفاع نہیں کریں گے۔ اس وقت
دلچسپی اس میں نہیں ہونی چاہیے کہ امریکہ نے پچھلے دور میں کس کے ساتھ تھا۔
دلچسپی اس میں لی جائے کہ آج امریکہ کس کے ساتھ ہے۔ فوج سے تو وہ ناراض
ہےاور پاکستانی فوج ہے کہ اس نے خطہ سے ہم آہنگی کی ٹھانی ہوئی ہے۔ جو مشرف
صاحب کا عظیم کارنامہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدارت چھوڑنے کے بعد ان کا انڈیا
اور چین کا وزٹ انتہائی کامیاب رہا اور ان ممالک میں جس طرح ان کا استقبال
کیا گیا اور ان کی پذیرائی ہوئی ہے وہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انہوں نے
امریکہ کے مقابلہ میں خطہ کے ممالک سے تعلقات کو ترجیح دی جس کی سزا امریکہ
انہیں اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ دینا چاہتا ہے۔ یہ بات ابھی حل طلب ہے کہ دو
سال سے وکلاء کی تحریک کو نامعلوم ذرائع سے فنانسنگ ملتی رہی ہے بغیر کسی
رکاوٹ کے۔ اسی تحریک کی مدد سے سابقہ حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا۔ ورنہ جج
یہ ہوں یا وہ ہوں آئین ایک ہی ہے۔ فیصلہ اسی آئین کے تحت ہونے ہیں اس کا
پاکستانی قوم کے مسائل کو تو کوئی فرق نہں پڑنا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد کچھ
اقدامات بہت اچھے بھی کیے گئے ہیں۔ یعنی پھر تو ذاتی دشمنی رہ گئی۔ لیکن یہ
ریمارکس مشرف کے اقدامات کی توثیق بھی کر رہے ہیں جس طرح مشرف کے تین نومبر
کے اقدامات پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی منظوری کے بغیر آئین کا حصہ
ہیں اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی چپ چپیتے بہت سی چیزوں کو جائز قرار دے دیا
جس کا پتہ آج مٹھائی کھانے والوں کو نہیں لگے گا۔ بلکہ جو اگلے وقتوں میں
مٹھائی کھائیں گے ان کے حلق اس کی مٹھاس آج بھی محسوس کرسکتے ہیں۔ رہی بات
مارشل لاء کا راستہ روکنے کی تو ملک کی 80 فیصد عوام آج بھی کسی فوجی کو ہی
اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اسی کے منتظر ہیں۔
اگرچہ کہا گیا کہ فل کورٹ کا یہ فیصلہ مارشل لاء کو روکنے کیلئے ہے مگر فوج
کا خوف تو حالیہ سپریم کورٹ کی کاروائی پر بھی غالب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب
عدالتی کاروائی کا پہلا دن تھا تو میڈیا کے ذریعہ موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف
کی کچھ اس طرح خوش آمد کی گئی کہ مارچ 07ء میں چیف جسٹس سے استعفیٰ کا
مطالبہ کرتے وقت دیگر تمام کور کمانڈرز نے چیف جسٹس سے توہین آمیز سلوک کیا
مگر موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے انہیں کافی پیش کی۔
پاکستانی عدالتوں میں یہ تو ہوتا ہی ہے کہ ایک دور مقدمات کے ختم ہونے کا
ہوتا ہے اور پھر ایک دور مقدمات بننے کا، جیسا کہ یہ دور سابقہ آمر ضیاء
الحق کی باقیات نواز شریف پر مقدمات کے خاتمہ کا ہے، ورنہ یہ عدلیہ نواز
شریف سے سابقہ آمر کا ساتھ دینے اور اپنے دور اقتدار میں سپریم کورٹ کو گھر
کی لونڈی بنانے پر باز پرس کیوں نہیں کرتی اور نہ ہی ان سے اس معافی نام کا
پوچھا گیا جواب منظر عام پر آچکا ہے۔ جبکہ نواز شریف اس پر عوام سے جھوٹ
بولتے رہے کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں اور
عدالتوں نے کچھ نہ سیکھا۔ یہ سب ایک ایسے سفر پر ہیں جس کا اختتام ایک
مارشل لاء پر ہی ہونا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اب فوج اپنی نمائندہ سول حکومت لے آئے اور آئندہ یہ نظام
مارشل لاء سے محفوظ ہو جائے۔ لگتا یوں ہے کہ اگر یہ اوچھے ہتھکنڈے ختم نہ
ہوئے تو اب 99ء کا مشرف والا رحمد ل مارشل لاء نہیں آئے گا بلکہ اس سے کہیں
بڑھ کر اور سخت گیر ہوگا۔ کیوں کہ مشرف ملک اللہ کے حوالے کر کے گئے ہیں
اور انکے جانشیں آکر ہی اس کو آگے چلائیں گے۔ ان حکمرانوں میں اتنی سکت
نہیں ہے کہ اس کو ترقی دے سکیں۔ انہوں نے تو ایک آمر کو اتار کر ہر ضلع میں
کمشنر اور ایڈمنسٹریٹرز کی صور ت میں آمریت قائم کردی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے
کہ جمہوریت انکے حلق تک ہوتی ہے جو الیکشن کے دنوں میں نعرے لگانے سے نکل
جاتی ہے، حقیقی آمر تو یہی ہوتے ہیں، جو آمریت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ان
میں سے کچھ آمریت کے سابقہ ہیں اور کچھ لاحقہ۔ |