مختلف النوع مسائل میں گھرے ہوئے
وطن عزیز کو گزشتہ دنوں میں ایک اور بڑے شدید اور ہنگامی مسئلے کا سامنا
کرنا پڑا اور وہ مسئلہ ہے گوجرہ میں مسلم عیسائی فسادات جس میں اب تک
موصولہ اطلاعات کے مطابق عیسائیوں کے بہت سے گھر جل چکے اور بہت سے افراد
موت کی نیند سلا دئیے گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کس کے اشارے پر ہوا اور کس کی
سازش رنگ لائی؟ فسادات کے فوراً بعد توہین رسالت کے قانون کے خلاف بیان
بازی کیوں شروع کر دی گئی؟ اگر ہم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295-B کا بغور
جائزہ لیں تو بہت واضح ہے کہ جو کوئی کسی بھی طریقہ سے قرآن کریم کی توہین
کرے گا اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کے ہر
ملک میں قانون موجود ہے کہ اس ملک میں معتبر اور متبرک سمجھی جانے والی
ہستیوں اور الہامی کتابوں کی توہین کئے جانے پر کڑی سے کڑی سزا دی جاتی ہے۔
مشرف کی آمریت میں بھی بے انتہا کوششیں کی گئیں کہ توہین رسالت کے قانون
میں تبدیلی کی جائے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ وہ کوششیں بار آور ثابت نہ
ہوسکیں اور مشرف کو نامراد ہو کر پاکستان سے ہی جانا پڑا، اب موجودہ دور
حکومت میں ایک بار پھر وہ سازشی ٹولہ جو اس ملک کی اساس کو ختم کرنا چاہتا
ہے، جو اس ملک کے نظریہ کے ہی خلاف ہے، بڑا کھل کر کبھی این جی او کی شکل
میں اور کبھی کسی اور شکل میں کھل کر توہین رسالت کے قانون کے خلاف بولتا
اور مظاہرے کرتا نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کے الفاظ میں
”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ اور گوجرہ میں بے گناہ جاں بحق
ہونیوالے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں، ان کا قتل بہیمانہ
اور وحشیانہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شرمناک بھی ہے اور کسی بھی مسلمان
کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی معصوم اور بے قصور کو قتل کرے، یہ
یقیناً حکومت کا فرض ہے کہ اگر خدانخواستہ توہین رسالت یا توہین قرآن کا
کوئی واقعہ ہو تو وہ فوراً اس کا نوٹس لیتے ہوئے مجرمان کو پکڑے اور قرار
واقعی سزا دے تاکہ عوام کے جذبات مشتعل نہ ہوں اور نہ ہی کوئی شرپسند ان کو
ورغلا سکے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا، کوئی غیر مسلم توہین رسالت کا ارتکاب
کرے اور حکومت بھی اس کو نہ پکڑے تو حکومت کو سوچنا چاہئے کہ یہ ایسا مسئلہ
ہے کہ برے سے برا اور کمزور سے کمزور مسلمان بھی اسے برداشت نہیں کرسکتا
اور توہین کرنے والے کو واصل جہنم کرنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے چاہے
اس کے بدلے اس کو پھانسی کی سزا ہی کیوں نہ قبول کرنی پڑے۔ یہ ملک تو بنا
ہی اسلام کے نام پر ہے اور کسی بھی مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں
ہوسکتا جب تک وہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان، اپنے اہل و
عیال کی جان، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کی جان سے بھی زیادہ اہمیت نہ دے اور
سب رشتوں کو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شان پر قربان کرنے کا
حوصلہ نہ رکھتا ہو!
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا گوجرہ میں واقعی توہین قرآن کا کوئی واقعہ ہوا؟ اگر
ایسا ہوا اور انتظامیہ کو اطلاع بھی مل گئی تو مجرمان کے خلاف کسی قسم کی
کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ وہ کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے علاقہ کے
لوگوں کے جذبات مشتعل ہوئے؟ اخباری اطلاعات کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے
بروقت کارروائی نہ کرنے اور مجرمان کو گرفتار نہ کرنے کی وجہ سے گوجرہ شہر
میں یکم اگست کو گوجرہ میں مکمل ہڑتال کی گئی تھی اور ریلی نکالی گئی، ریلی
کے شرکاء نے ملتان فیصل آباد روڈ کو 10 گھنٹے تک ٹریفک کے لئے بند رکھا
جبکہ بعد ازاں مظاہرین ریلوے لائن پر پہنچ گئے جس سے ٹرینوں کی آمد و رفت
بھی معطل ہوگئی، اسی دوران فریقین کی جانب سے آمنے سامنے نعرے بازی شروع
ہوگئی اور توہین قرآن کے مجرمان کی گرفتاری کے لئے مظاہرہ کرنے والے
مظاہرین پر دوسری پارٹی کی جانب سے فائرنگ شروع ہوگئی جس سے 16 مظاہرین
زخمی ہوگئے، اسی اثناء میں پولیس نے بھی ہوائی فائرنگ کی آنسو گیس کا بے
دریغ استعمال کیا گیا۔ مظاہرین کے مطابق پولیس اس وقت پارٹی بنی ہوئی تھی
اور مسلمان مظاہرین پر فائرنگ کرنے والوں کو تحفظ فراہم کررہی تھی جس سے
لامحالہ مظاہرین میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑ گئی، اسی دوران کسی شرپسند
نے ماسٹر ریاض مسیح کے گھر کو آگ لگا دی جس سے وہاں موجود لوگ آگ سے جل کر
جاں بحق ہوگئے۔ علاقہ میں رینجرز طلب کر لی گئی اور آخری اطلاعات تک آج
بروز سوموار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی گوجرہ جا رہے ہیں، جبکہ وفاقی
وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی، صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ،
سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار پہلے سے ہی
گوجرہ میں موجود ہیں۔ دوسری طرف عیسائی برادری کی طرف سے پورے ملک میں
احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور آگ میں جلنے والوں کی ایف آئی آر میں ڈی سی او
اور ڈی پی او کو بھی نامزد کیا گیا ہے اور اس وقت تک مرنے والوں کے جنازے
نہیں اٹھائے گئے جب تک ان کے لواحقین کو ایف آئی آر کی نقل فراہم نہیں کی
گئی۔
پاکستان میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دیگر پیغمبروں اور
قرآن کریم کی توہین پر سزاﺅں کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد کماحقہ
نہیں ہوتا۔ اگر کسی بھی ایسی حرکت پر قانون حرکت میں آجائے اور مجرمان کو
قرار واقعی سزا مل جائے تو کوئی بھی مسلمان قانون کو ہرگز ہاتھ میں نہ لے،
جس طرح سابقہ ادوار میں توہین رسالت کے مجرمان کو عدالتوں سے چھڑوا کر فوری
طور یورپ اور امریکہ بھیجا گیا اس سے عوام میں یہ تاثر تقویت پکڑ گیا تھا
کہ اب وہ ایسے مجرمان کو اپنے ہاتھوں سے سزا دیں گے لیکن اگر قانون کے
مطابق مجرمان کو سزا مل جائے تو ہرگز ایسا نہ ہو۔ عوام کو بھی اپنے حواس
قابو میں رکھتے ہوئے سارے معاملے کو دیکھنا چاہئے تاکہ کسی بے گناہ کے خلاف
ایسی کارروائی نہ کی جاسکے، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو گڑ بڑ والے علاقوں
میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے
لئے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ ”ڈنگ ٹپاﺅ“ پالیسی ختم کرنی ہوگی اور تمام
مکاتب فکر کو اعتماد میں لیتے ہوئے آئندہ ایسے واقعات کا تدارک کرنا ہوگا۔
اس کے لئے یہ امر سب سے زیادہ قابل توجہ ہے کہ یہ فسادات کسی سازش کے تحت
تو نہیں کروائے جارہے، جب حساس اداروں نے پہلے سے حکومت کو وارننگ دے دی
تھی کہ علاقہ میں شرپسندی کا خطرہ موجود ہے تو حکومت نے فوری احتیاطی
تدابیر کیوں اختیار نہ کیں؟ کیا اس میں کسی کی بدنیتی شامل تھی یا روائتی
تساہل اور بد انتظامی کا مظاہرہ کیا گیا تھا؟ اس بات پر بھی نظر رکھنے کی
ضرورت ہے کہ اب ان واقعات کے بعد این جی اوز کا شور و غوغا بہت زیادہ ہوگا
اور بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر توہین رسالت ایکٹ کے خلاف باتیں کی
جائیں گی جبکہ کوئی مسلمان ایسی کسی شرانگیزی کو ہرگز برداشت نہیں کرسکتا
خصوصاً پاکستانی مسلمان!
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا |