قیام پاکستان کا مقصد: قائد اعظم
کے ارشادات کی روشنی میں
اس سال ہم اپنا باسٹھواں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ آج قیام پاکستان کے باسٹھ
سال بعد تک یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آیا مسلمانان برصغیر اور قائد اعظم
محمد علی جناح کی جدوجہد کیا ایک سیکولر پاکستان کے لیے تھی یا ایک اسلامی
ملک پاکستان کے لیے؟ اور یہ کہ قائد اعظم بلکل بھی مذہبی رجحان نہیں رکھتے
تھے بلکہ سیکولر نظریات رکھتے تھے۔ ہم اس حوالے سے قائد اعظم ہی کے فرمودات
یہاں پیش کرتے ہیں، جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ قائد اعظم کس طرح کا
پاکستان چاہتے تھے۔ سیکولر یا اسلامی؟
پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا
تھا- یہ اس زمانےکی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی
تھی- مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل-
ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا بلکہ
جداگانہ قوم کا فرد بن ہوگیا- ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔ (
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ٨ مارچ ١٩٤٤ء)
تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے- تم ترقی یافتہ ہو اور تمہاری اقتصادیات
مستحکم سہی، اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے- لیکن میں
تمہیں بتائے دیتا ہوں- تم دونوں( انگریز اور ہندو ) کو کہ تم تنہا یا تم
دونوں متحد ہو کر بھی ہماری اس تہذیب کو کبھی مٹا نہ سکو گے، اس اسلامی
تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ بے شک تم ہمیں مغلوب کرو- ہم پر ظلم و
ستم کرو، ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھو، لیکن ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے
ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے
مرجائیں گے۔ ( مرکزی اسمبلی میں خطاب ٢٢ مارچ ١٩٣٩ء )
آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟ مسلمانوں کے
لیےایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش
آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال - یہ اسلام کا
بنیادی مطالبہ ہے۔ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ٨ مارچ ١٩٤٤ء )
وہ کونسا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟
وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے
جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی
کتاب قرآن کریم ہے- مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں
زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم، ایک کتاب، ایک امت ( اجلاس مسلم لیگ کراچی ١٩٤٣ء )
اس وقت میدان سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہورہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ
کون فتح یاب ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے، لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے
علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر
بنا کر شیوہ صبر و رضا پر کاربند ہوں اور اس ارشاد خداوندی کو کبھی فراموش
نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی
طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں- ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح
یاب ہونگے اور اسی طرح فتح یاب ہونگے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و
روم کی سلطنتوں کے تختے الٹ دئے تھے۔ ( جلسہء عام حیدرآباد دکن ١١ جولائی
١٩٤٦ء )
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون
عطا کرنے والے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے بنایا
ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں اسلامی تصورات و
اصولوں پر رکھیں ( شاہ دربار- سبی بلوچستان -١٤ فروری ١٩٤٧ء )
اگر کوئی چیز اچھی ہے تو عین اسلام ہے- اگر کوئی چیز اچھی نہیں ہے تو یہ
اسلام نہیں ہے، کیوں کہ اسلام کا مطلب عین انصاف ہے۔ ( میمن چیمبر آف کامرس
بمبئی ٢٧ مارچ ١٩٤٧ ء )
میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ
پروپگینڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا
جائے گا، اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس
طرح تیرہ سو سال پہلے تھے- میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے
ہیں یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر
مسلموں کو بھی کوئی خوف، ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے
ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے- ہر شخص سے انصاف، روداری اور مساوی برتاؤ
اسلام کا بنیادی اصول ہے- ( بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب ٢٥ جنوری ١٩٤٨ء
)
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور
وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے
احکام اور اصول ہیں- اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ
پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی- قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت
میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں- دوسرے الفاظ میں
اسلامی حکومت قرآن اصول و احکام کی حکومت ہے۔ ( کراچی ١٩٤٨ )
قائد اعظم محمد علی جناح کے ان تمام فرمودات کو سامنے رکھیں اور پھر خود
فیصلہ کریں کہ وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی
کہ کچھ طبقات یہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم مذہبی رجحان نہیں رکھتے تھے کیوں کہ
وہ کلین شیو تھے۔ یہاں ان کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔ اور تمام باتوں سے یہ بات
صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمانان برصغیر، قائد اعظم اور تحریک آزادی کے تمام
رہنمایان کی جدو جہد آزادی کا مقصد ایک ہی تھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ
خطہ زمین حاصل کی جائے جہاں وہ دین اسلام کے اصولوں پر مبنی ایک مملکت قائم
کریں۔ لیکن آج جان بوجھ کر اس مسئلہ کر متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ ہماری اللہ
سے یہی دعا ہے کہ “اے اللہ تو ہماری خطائیں معاف فرما، اور ہمیں توفیق دے
کہ تو نے اپنی رحمت سے جو خطہ زمین ہمیں عطا کیا تھا ہم اس کے مقاصد کو
حاصل کرلیں“ آمین |