لاہور کی سیشن کورٹس میں وکلاء کی جانب سے
ایک اے ایس آئی کی پٹائی کے از خود نوٹس میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس
جناب جسٹس خواجہ محمد شریف نے بھری عدالت میں ملزم وکلاء کے کالے کوٹ اور
ٹائیاں اتروا کر شائد بہت اچھا کام سرانجام دیا ہے اور پولیس کی ہمدردیاں
اس وقت کے لئے حاصل کرلی ہیں جب خدانخواستہ دوبارہ مارشل لاء لگے تو پولیس
خواجہ صاحب کا وہ حال نہ کرے جو جناب چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کا اسلام
آباد میں ہوا تھا۔ خواجہ صاحب نے مذکورہ بالا ملزم وکلاء کی ضمانتوں کی
”لمبی“ تاریخ یعنی سولہ اگست کو بھی نئی جوڈیشل پالیسی کے خلاف قرار دیتے
ہوئے اسے چھ اگست کردیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ملزمان نے پوری وکلاء
برادری کو رسوا کروایا ہے، وہ ملزم ہیں اس لئے وہ یونیفارم میں عدالت میں
پیش نہیں ہوسکتے۔ ہمیں انصاف ہوتا نظر آرہا ہے اس لئے اچھا بھی لگ رہا ہے۔
وکلاء نے ایک نہایت ”شریف“ اور نہتے پولیس والے کو بیدردی سے سب کے اور
خصوصاً میڈیا کے سامنے ”پھینٹی“ لگا کر اچھا نہیں کیا، ہماری پولیس تو اتنی
شریف اور سادہ ہے کہ اگر پچھلے 2/3 ماہ کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لئے جائیں
تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب پولیس نے آج تک کوئی بھی کام خلاف قانون
نہیں کیا۔ اگر کسی نوجوان کو داڑھی رکھنے اور پگڑی پہننے کی وجہ سے غلطی سے
”دہشت گرد“ سمجھ کر بیسویں لوگوں کے سامنے، دن دیہاڑے ”پار“ کر دیا ہو تو
”اور“ بات ہے، اگر ”شریف“ اور ”معصوم“ قبضہ گروپ کے ساتھ مل کر کسی خاتون
سول جج کے گھر پر قبضہ کر لیا ہو تو ”اور“ بات ہے، اگر کسی سول جج کو تعارف
کروانے کے باوجود کئی گھنٹے بلاوجہ تھانے میں بطور ”مہمان“ محبوس رکھا ہو
تو ”اور“ بات ہے، اگر کسی نوجوان کو صرف شک کی بناء پر پکڑ کر بے انتہاء
تشدد کا نشانہ بنایا اور پیشاب تک پینے پر مجبور کیا ہو تو یقیناً ”اور“
بات ہے۔ اسی طرح کی بے شمار ”اور باتیں“ معاشرے کے پسے ہوئے لوگ جانتے ہیں
اور پولیس کے معترف بھی ہیں۔
ہم اس کالم کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف صاحب کی توجہ ایک
معاملہ کی جانب مرکوز کروانا چاہتے ہیں، وہ معاملہ ہے ساہیوال کے ”ظالم“
وکلاء کا جنہوں نے یقیناً پولیس پر ظلم کر کے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ
عدلیہ بحالی تحریک کے دوران( وہی عدلیہ جس میں خواجہ شریف صاحب بھی شامل
تھے اور جو ماشاءاللہ نہ صرف بحال ہوچکی بلکہ بہت سے دوسرے ججوں کو معزول
بھی کرچکی ہے ) ”ظالم“ وکلاء پر تیل چھڑک کر آگ لگا دے۔ چیف جسٹس آف
پاکستان جناب افتخار چودھری صاحب آج سے کوئی تین ماہ پہلے لاہور ہائی کورٹ
کو ڈائریکشن فرما چکے ہیں کہ ”ظالم“ وکلاء پر تیل چھڑکنے اور آگ لگانے والے
”شریف“ اور ”معصوم“ پولیس والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے لیکن شکر ہے
کہ خواجہ شریف صاحب نے ابھی تک اس کارروائی کی ابتداء نہیں کی تھی، رہی بات
عوام کی تو وہ ہے ہی بہت بھلکڑ، وہ تو اپنے اوپر ہونے والے مظالم اتنی جلدی
بھول جاتی ہے تو اسے ”ظالم“ وکلاء کے اوپر ”پولیس گردی“ کہاں سے یاد رہے گی؟
کچھ ”شریف“ اور ”معصوم“ پولیس والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل میں ساہیوال
کے ”ظالم“ اور ”بدمعاش“ وکلاء وہ تیل خود لے کر مشعل بردار ریلی میں شریک
ہوئے تھے تاکہ بیچاری پولیس کو اس کا شکار بنا سکیں کیونکہ مشعلوں کی صورت
میں آگ تو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی لیکن پولیس نے کمال ”معصومیت“ سے ان
کا وار انہی پر الٹا دیا اور حفاظت خود اختیاری میں وہ تیل وکلاء کی قسمت
بنا دیا گیا، وہ وکلاء جو اس ملک میں خواہ مخواہ قانون کی حکمرانی اور آئین
کی بات کرتے تھے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہئے تھا، بلکہ انہیں تو
کراچی کے طاہر پلازہ والی آگ میں جلا کر زندہ راکھ کر دینا چاہئے، آخر وہاں
بھی تو ایک ”ظالم“ وکیل نعیم قریشی کا دفتر تھا، وہ بھی تو کتنے ہی ”شریف“
اور ”معصوم“لوگوں کی نظروں میں ”کانٹے“ کی طرح کھٹکتا ہے! شکر ہے کہ کراچی
کا علاقہ لاہور ہائی کورٹ کے زیر انتظام نہیں ہے ورنہ وہاں کے وکلاء کے
جرائم کی فہرست تو بڑی ہی ”طویل“ اور ”سیاہ“ہے! وہاں کے وکلاء تو کراچی میں
”بارہ مئی“ کے مجرم بھی ہیں اور طاہر پلازہ میں آگ لگانے کے بھی، ان کے
جرائم تو لاہور کے وکلاء سے بہت زیادہ ہیں، شکر کرو کراچی کے وکیلوں! کہ تم
لاہور میں نہیں ہو، یا وہاں کی پولیس پنجاب پولیس کی طرح ”معصوم“ اور
”شریف“ نہیں!
جناب عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ خواجہ شریف صاحب سے پوری قوم کی
استدعا ہے کہ جن تین چار وکلاء نے پولیس کے معصوم اور شریف کارندے پر ہاتھ
اٹھانے کی جرات کی ہے انہیں نشان عبرت بنا دیا جائے، نہ صرف انہیں بلکہ ان
کے جرم کو پوری وکلاء کمیونٹی کا جرم سمجھ کر سارے پاکستان کے وکیلوں کو
کڑی سے کڑی سزا دی جائے، کیونکہ جس ملک میں مشرف کی طرف سے لال مسجد جیسا
انمول تحفہ ملا ہو اور سپریم کورٹ آج تک مقدمہ درج کرنے کا حکم نہ دے سکے،
جس ملک میں نواب اکبر بگٹی جیسے ملک پرست لیڈر کو دن دیہاڑے قتل کردیا جائے
اور سپریم کورٹ اس کا نوٹس نہ لے سکے، جس ملک کے غریب شہریوں پر دن رات
پولیس کی ”مہربانیاں“ اور ”کرم فرمائیاں“جاری و ساری ہوں اور پولیس پھر
”پاکباز“ رہے، جس ملک کے تھانوں میں سر عام عورتوں اور منشیات کا کاروبار
عروج پر ہو، جس ملک کے حکمران روپے پیسے کے لئے وطن کے سپوتوں اور دختران
کو امریکہ کے ہاتھ بیچ دیں، وہاں ان 3/4 وکلاء کا جرم بہت بڑا، بھیانک،
بہیمانہ اور ناقابل برداشت ہے، انہیں ان کے جرائم کی کڑی سے کڑی سزا ملنی
چاہئے، پولیس کے اے ایس آئی کو جس پر ظلم و وحشت کا بازار گرم کیا گیا اس
کو غازی ہونے کا میڈل بھی ملنا چاہئے اور ساہیوال کے ”بدمعاش“ اور ”ظالم“
وکلاءکو زندہ جلانے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں کو ”نشان حیدر“ یا اس
بھی بڑا میڈل بنا کر عطا کرنا چاہئے! چیف صاحب ایک نظر ادھر بھی جناب والا! |