یاد آتا ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ
ایک کہانی سنی جسکا انجام کچھ یوں تھا کہ دنیا میں جہاں پر بھی کوئی خزانہ
موجود ہوتا ہے وہاں ایک نہایت زہریلا اور خطرناک قسم کا کالا ناگ اس خزانے
کی ہمہ وقت حفاظت کرتا ہے اور کسی بھی ضرورت مند کو دیکھتے ہی ہمارے
حکمرانوں کی طرح اپنے منہ سے آگ اگلتا ہے، اب چونکہ دنیا بہت ترقی کر چکی
ہے اور باقی ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن اپنے ملک تک میرا مشاہدہ ہے کہ وہاں
خزانے کی جگہ ’’خالی خزانے‘‘ نے لے لی ہے اور خطرناک اور کالے ناگ کی بجائے
اب وہاں ایک وزیر خزانہ پائے جاتے ہیں جو خالی خزانے کی حفاظت کرنے کے زعم
کا شکار ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے وزیر خزانہ ڈارلنگ ڈار صاحب کا ایک بیان نظر
سے گزرا جس میں انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے پاس
موجود سارے ڈالر تبدیل کروا لیں تاکہ وہ پیش آمدہ نقصان سے بچ سکیں کیونکہ
ان کے بقول وہ بہت سرعت کے ساتھ ڈالر کی قدر کم کرنے والے ہیں اور جلد ہی
وہ ڈالر کو چٹھی کا دودھ یاد دلاتے ہوئے ۹۹ء کی سطح پر پر لے جائیں گیاس
بیان کو پڑھنے کے بعد پہلے پہل تو مجھے یہ خیال گزرا کہ شاید کہیں سے ان کے
ہاتھ حضرت موسیٰ ؑ کا عصا آگیا ہے جس کی مدد سے وزیر خزانہ یہ معجزہ کر
دکھائیں گے لیکن بعدمیں مجھے ایک چالاک سے طالبعلم کا واقعہ یاد آگیا،
واقعہ یوں ہے کہ ایک سکول میں ایک طالبعلم تھا جسکو استاد نے ایک مضمون
’’میرا دوست‘‘ یاد کروا دیا وہ مضمون کچھ یوں تھا کہ اسلم میرا دوست ہے وہ
دو بہن بھائی ہیں اس کے ابو ڈاکٹر ہیں وغیرہ وغیرہ، اس مضمون میں مہارت
حاصل ہو جانے کے بعد استاد نے طالبعلم سے کہا کہ اب ’’میرا قلم‘‘ پر بھی
ایک مضمون تحریر کرو طالبعلم نے فورأ مضمون لکھ مارا کہ میرے پاس ایک قلم
ہے یہ قلم مجھے میرے دوست نے دیا تھا میرے دوست کا نام اسلم ہے وہ دوبہن
بھائی ہیں اس کے ابو ڈاکٹر ہیں وغیرہ وغیرہ استاد نے مضمون کو حیرت سے پڑھا
اور پھر کہا کہ چلو اب ’’میری گائے‘‘ پر مضمون لکھو اب طالبعلم نے دوبارہ
مضمون لکھ دیا کہ میرے پاس ایک گائے ہے میں اور میرا دوست اس کا خیال رکھتے
ہیں میرے دوست کا نام اسلم ہے وہ دو بہن بھائی ہیں اس کے ابو ڈاکٹر ہیں
وغیرہ وغیرہ، یہ مضمون دیکھ کر تو استاد کا دماغ پھر گیا اور سخت غصے میں
اس نے طالبعلم کو پہلے تو خوب پھینٹی لگائی اور پھر کہا کہ اب ’’ہوائی سفر
‘‘ پر مضمون لکھو اور یاد رکھنا کہ اب اسلم تمہارے ساتھ نہیں ہونا چاہئے اب
طالبعلم کو موجودہ حکومت کی طرح پہلے کا دو دفعہ مضمون لکھنے کا تجربہ تھا
چناچہ اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر طالبعلم نے خوب سوچ سمجھ کر مضمون لکھ
دیا کہ میں نے ایک دفعہ اسلام آباد سے لانڈھی جانے کے لئے کراچی تک ہوائی
جہاز میں سفر کیا تھا اور اس سفر میں میرا دوست میرے ساتھ نہیں تھا میرے
دوست کا نام اسلم ہے وہ دو بہن بھائی ہیں اور اس کے ابو ڈاکٹر ہیں وغیرہ
وغیرہ۔اس کہانی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بچے کو مضمون یاد کروانے کی بجائے
مضمون لکھنا سکھانا چاہئے تاکہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر وہ کسی بھی مسئلے
پر سیر حاصل مضمون لکھ سکے لیکن شومئی قسمت کہ ایسا نہیں ہوتا اور اس طرح
کے بچے بڑے ہو کر ہمارے ملک کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں جنہیں ہر عنوان پر
لکھنے اور بولنے کے لئے اسی طرح کا ایک ہی مضمون میسر ہوتا ہے اور وہ اسی
میں کمی بیشی کرکے عوام کو اپنی پرانی کہانی ہی سناسنا کر مسائل کا حل
نکالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اب آپ موجودہ حکومت کے کسی بھی وزیر
باتدبیر کو لے لیں وہ اسی بچے کے کلاس فیلو لگتے ہیں اور یہ ایک ہی مضمون
مختلف پیرائے میں لکھنے والا بچہ بھی اب تو کافی بڑا ہو چکا ہے اور شاید اب
یہ بھی کسی ملک کا وزیر خزانہ ہواور بلکل ویسا ہی کام کرتا ہو جیسا ہمارے
وزیر خزانہ صاحب کرتے ہیں یعنی ملک کی معاشی حالت خراب ہے تو چلو آئی ایم
ایف سے قرض پکڑ لو، حکومتی اخراجات پورے نہیں ہو رہے اور ان کو کم کرنے کی
صورت میں اراکین حکومت ناراض ہو جائے گے تو چلو حکومتی قرضوں کے حجم میں
اضافہ کر لو، اب قرض واپس کرنے کے پیسے نہیں تو چلو ٹیکس کی رقم سے پورا کر
لو،توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے رقم نہیں ہے تو چلو بجلی کے نرخ
بڑھا دو، ٹیکس نیٹ کا حدف پورا نہیں ہو رہا تو اب ٹیکس ریٹ میں اضافہ کر دو
بالکل اسی طرح جیسے چند دن پہلے وزیر خوراک نے فرمایا تھا کہ ٹماٹر مہنگے
ہیں تو ہانڈی میں دہی ڈال لیں (خدا کی پناہ یہ ویژن ہے ان لوگوں کا)
خدا جانے وزیر خزانہ کو بھی اسی قسم کا مشورہ کس نے دیا ہے کہ انہوں نے
عوام سے یہ اپیل کر دی ہے کہ سب لوگ اپنے پاس موجود ڈالر لوکل کرنسی میں
تبدیل کرا لیں ، اس معصوم سی فرمائش یا حکمت عملی سے زیادہ مضحکہ خیز بات
میں نے تو آج تک نہیں سنی، عین ممکن ہے کہ لوگ وزیر خزانہ کے اس جھانسے میں
آجائیں اور اپنے اپنے ڈالر تبدیل کروا لیں اور اس سے عارضی طور پر حکومت
ڈالر کی قدر میں قدرے کمی لانے میں کامیاب بھی ہوجائے لیکن یہ قطعی طور پر
شارٹ ٹرم حل ہے جسکے طویل المدتی نتائج نہایت خطرناک ہونگے فارن کرنسی بھی
تجارتی لحاظ سے ایک کموڈٹی ہے جو مارکیٹ میں طلب اور رسد کے قانون کے طابع
ہے آج اگر اوپن مارکیٹ سے حکومت کسی طرح ڈالر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو بھی
جاتی ہے تو سوچئے کل جب درآمد کنندگان کے لئے خالص درآمدات کی ادائیگی کا
وقت آئے گا تو مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ میں اچانک اضافہ ہو جائے گا جس سے
اس کی قدر شدت سے بلند ہو گی اورآج مصنوعی انداز میں ڈالر کی کم کی گئی قدر
بہت برے طریقے سے باؤنس بیک کرے گی اور اس کی چو ٹ کی شدت کا اندازہ نہیں
کیا گیااس اضافے سے ملک میں مہنگائی کا وہ طوفان آئے گا کہ الامان الاحفیظ
اوریہ مہنگائی پہلے سے موجود مہنگائی کو ہی اوپر لے جائے گی کیونکہ ڈالر کی
قدر کم ہونے کے باوجود مہنگائی پر اثر نہیں پڑے گا اور اگر اشیاء کی قیمتیں
کم کرنے کی کوشش کی گئی تو صنعتی کارٹل عوام کی کمر توڑ دیں گے کیونکہ
صنعتوں کے مالکان ہی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں جو کسی بھی صورت میں اپنی گردن
پر ہاتھ نہیں پڑنے دیں گے عوام کا بھلے منکا ٹوٹ جائے۔ اس کا دوسرا برا اثر
ہماری ملکی برآمدات پر پڑے گا کہ بین الاقوامی منڈیوں کے ماہر کھلاڑی
پاکستانی تاجروں کے ساتھ خرید کے معاہدات میں لیت و لعل سے کام لیں گے تا
وقت کہ ڈالر کی قدر ان کی مرضی کے مطابق طے نہ ہو جائے اس سے برآمدی حجم کم
ہو گا لیکن درآمدی حجم میں اگر اضافہ نہ بھی ہوا تو بھی وہ اپنی جگہ مستحکم
رہے گا جس سے برآمدات اور درآمدات کا فرق جو پہلے ہی ہماری اوقات سے زیادہ
ہے وہ برداشت سے باہر ہو جائے گا جس کو پاٹنے کے لئے ڈالر کی قدر زمین سے
اٹھ کر آسمان پر جا پہنچے گی اور اس پرمرے پر سو درے کے عین مطابق اس وقت
معاملہ اور بھی نازک صورت اختیار کر لے گا اگر امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف
خدمات کے بل میں کمی کر دی کیونکہ حکومت پاکستان کا اس بل کی مد میں قابل
محصول بل ایک عشاریہ پینسٹھ ارب ڈالر ہے اور امریکہ اس کو ایک عشاریہ پچاس
تک لانا چاہتا ہے۔ اور عین ممکن ہے اس وقت تک موجودہ دور میں ہنس کی چال
چلنے والے سارے کوؤں کی پوری ڈار ہی اڈاری مار جائے اور ڈالر تبدیل کروانے
والے سادہ لوح انسان اپنے معاشی زخم چاٹتے رہ جائیں۔
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ معیشت کو مصنوعی تنفس پر زیادہ دیر زندہ
نہیں رکھا جا سکتا اور کسی بھی چیز کی قدر میں کی گئی مصنوعی کمی زیادہ دیر
اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ شارٹ ٹرم پلاننگ
کی بجائے کوئی طویل المدتی پالیسی بنائی جائے اور الٹی سیدھی حرکتیں کرنے
کی بجائے پیداواری عناصر کے استحکام پر توجہ دی جائے جس میں سب سے اہم
سرمایہ ہے اور سرمایاکاری کی فضا قائم کر کے لوگوں کے سرمائے کو تحفظ دیا
جائے صنعتوں کی ترقی کے لئے توانائی کے بحران پر قابو پایا جائے اور
پیداواری لاگت میں کمی کی کوشش کی جائے اگر کسی طریقے سے پیداواری لاگت میں
کمی آجائے توبین الاقوامی منڈیوں میں ہم بھارت اور بنگلہ دیش کا بہتر
مقابلہ کر سکتے ہیں اس طرح مستقبل قریب میں ہمیں ڈالر کے مقابلے میں روپے
کی قدر بار بار کم نہیں کرنی پڑے گی اور سست روی سے سہی لیکن ہم ڈالر اور
روپے کی قدر میں استحکام لانے میں کامیاب ہو جائیں گے ورنہ یاد رکھیں کہ
مصنوعی انداز میں کی گئی ساری کوششیں ناکام رہیں گی اور ڈالر کے ساتھ کسی
بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے اور مصنوعی سیڑھی لگا کراس کو ۹۹ کی سطح پر لے بھی
گئے تو ڈالر لڈو کے سانپ کی طرح ۹۹ پر پہہنچتے ہی اس بری طرح ڈسے گا کہ آپ
دوبارہ ۱۳ سے بھی زیادہ کسی بری حالت سے دوچار ہو سکتے ہیں اور حالات ایسے
بھی ہو سکتے ہیں کہ ڈالر تو شاید ۹۹ء کی پوزیشن پر نہ جا سکے لیکن حکومت
اپنی حرکتوں اور پالیسیوں کی وجہ سے ۹۹ء کی پوزیشن پر چلی جائے۔ |