غلام شبیر
عالمی شہرت کے حامل ُاردو زبان و ادب کے نامور تخلیق کار ،مترجم ،ڈرامہ
نگار ،افسانہ نگار ،عالمی ادبیات کے نباض ،دانش ور اور محقق مظہر الحق علوی
نے ترکِ رفاقت کی ۔ منگل ،17۔دسمبر 2013کی شام اُردو ادب کے طالب علموں کے
لیے شامِ اَلم ثابت ہوئی ۔اس رات پونے دس بجے کے قریب اجل کے بے رحم ہاتھوں
نے اِس یگانہء روزگار ادیب سے قلم چِھین لیا۔وہ بے مثال تخلیق کار جس نے
گُزشتہ سات عشروں سے اپنی تخلیقی فعالیت سے ایک عالم کو اپنا گرویدہ بنا
رکھا تھا اور تاریخ ادب میں اپنی ادبی کامرانیوں کے نئے باب رقم کیے، اب
تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔احمدآباد (بھارت )سے گُزشتہ چند ہفتوں سے اُن کی
علالت کی خبریں آ رہی تھیں۔نوے سال کی عمر میں بھی وہ نہایت مستعدی کے سا
تھ پرورش لوح و قلم میں مصروف تھے ۔عارضہء قلب میں مبتلا اس بزرگ اور ہفت
اختر ادیب کو احمد آباد کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے لایا گیا لیکن سب
تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور دوا نے کُچھ بھی کام نہ کیا اور بیماریء دِل نے
اِ س شمع فروزاں کو ہمیشہ کے لیے گُل کر دیا ۔شہر خموشاں ولی دکنی کی زمین
نے اُردود ادب کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔ ُاردو
زبان و ادب کا وہ آفتاب عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا جس کی ضیا
پاشیوں سے کُل عالم بُقعہ ء نُور ہو گیا ۔وہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق
کار جس نے اپنی تخلیقی فعالیت سے اُرد وزبان و ادب کو عالمی ادبیات میں
معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا اور اُردو ادب کو افلاک کی وسعت عطا کی
اب پیوند خاک ہو چکا ہے ۔اُردو زبان میں ترجمہ نگاری کی درخشاں روایت اور
منور باب اختتام کو پہنچا۔دنیا لاکھ ترقی کرے اب ایسے با کمال لوگ کبھی
پیدا نہیں ہو سکتے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُردو میں ترجمہ نگاری ،افسانہ
نگاری اور بچوں کے ادب کی تخلیق کے ہمالہ کی ا یک سر بہ فلک چوٹی اجل کے
ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ہے ۔مظہر الحق علوی کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار اور
ہر دِ ل سوگوار ہے ۔ایسے لوگ بلاشبہ نا یاب ہوتے ہیں ۔شاد عظیم آبادی نے سچ
کہا تھا :
ڈُھونڈو گے اگر مُلکوں مُلکوں مِلنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جِس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
مظہر الحق علوی کا تعلق ایک ممتاز علمی و ادبی خاندان سے تھاجس کا سلسلہ
اُردو کے نامور کلاسیکی شاعر ولی دکنی (پیدائش :1667 وفات:1707)سے ملتا ہے
۔اُردو زبان کے نابغہء روزگار ادیب وارث علوی ،محمد علوی اور مظہر الحق
علوی اِسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔پیرانہ سالی میں جب مظہر الحق علوی کے
اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں اعتدال عنقا ہونے لگا تووہ پھر بھی بھرپور
عزم اور ولولے کے ساتھ مطالعہ اور تخلیق ِادب میں مصروف رہے ۔ان کے اشہب
قلم کی جولانیوں میں کوئی فرق نہ آیا۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان
علم و ادب تھے ۔ان کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا ۔اُردو زبان و ادب
کے طالب علموں کو اُنھوں نے قاموس و لغت سے بے نیا ز کر دیا ۔وہ علم و ادب
کا ایک دائرۃ المعارف تھے ۔احمدآباد (بھارت )کے نواح میں واقع ایک پُر فضا
مقام نشاط آباد میں مظہرالحق علوی کا مکان طویل عرصہ تک ادیبوں کی ادبی
نشستوں کا مر کز رہا ۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے اِس گھر کے اُداس
بام اور کُھلے در کو پکارتے چھوڑکر اپنے چچا زاد بھائی اور سمدھی وارث علوی
کے ہاں قیام پذیر ہو گئے ۔مظر الحق علوی کے بیٹے امتیاز علوی (جو کہ وارث
علوی کے داماد ہیں )نے اپنے والد کی نگہداشت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی
۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔بالآخر چشم کے
مُرجھا جانے کا سانحہ ہو کے رہا اور مختصر علالت کے بعد مظہر الحق علوی
زینہء ہستی سے اتر کر دائمی مفارقت دے گئے ۔اُردو زبان کے ارتقا میں ان کے
خاندان نے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ ادب میں آبِ زر سے
لکھنے کے قابل ہیں۔وہ تمام عمر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تصنیف و
تالیف میں مصروف ر ہے ۔ انھوں نے انگریزی زبان اور گجراتی زبان کے مقبول
ادب پاروں کا اردو ترجمہ کر کے اردو زبان و ادب کی جو خدمت کی اس کے اعتراف
میں سال 2012میں مظہر الحق علوی کو بہادر شاہ ظفر ایوارڈ سے نوازا گیا
۔انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں پر اُنھیں عبور حاصل تھا۔ان کے تراجم میں
تخلیق کی جو چاشنی پائی جاتی ہے وہ اُن کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔انگریزی
زبان کے ایک سو سے زائد مشہور ناولوں کا اُردو میں ترجمہ کر کے انھوں لوح
جہاں پر اپنا دوام ثبت کر دیا ہے ۔ترجمہ نگاری میں اُنھوں نے جو فقید
المثال کامرانیاں حاصل کیں اِن میں کو ئی اُن کا شریک و سہیم نہیں :
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگنِ عشق
ہے مکرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد
بر صغیر میں علمی و ادبی تحریکوں سے مظہر الحق علوی نے گہرے اثرات قبول کیے
۔1936میں جب ترقی پسند تحریک نے روشنی کے سفر کا آغاز کیا تو اس تحریک سے
وابستہ ادیبوں نے قارئین ادب کے دلوں کو افکارِتازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ
تک رسائی کی راہ دکھائی ۔مظہر الحق علوی نے ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہتے
ہوئے فروغ ادب کے لیے سر گرم اور فعال کردار ادا کیا ۔اپنی تحریروں سے تیزی
سے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں قارئین میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے
کے سلسلے میں اُن کی مساعی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اُ ن کی تحریریں عصری
آگہی کا اعلا معیار پیش کرتی ہیں۔اُردو زبان میں بچوں کے ادب پر بالعموم
بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔پاکستان میں صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے بچوں کے
لیے جو نظمیں لکھی ہیں وہ بچوں میں بہت مقبول ہوئیں۔اسی طرح شفیع عقیل نے
بھی بچوں کے ادب کی تخلیق کی ضرورت کو اُجا گر کیا ۔مظہر الحق علوی نے بچوں
کے ادب پر خصوصی توجہ دی ۔بچوں کے لیے اُردو نثر میں ان کی تخلیقات کو بہت
پذیرائی ملی ۔لکھنؤ سے نامور ادیب نسیم انہونوی کی ادارت میں شائع ہونے
والے بچوں کے علمی و ادبی مجلے ’’’کلیاں‘‘کو بچوں کا ایک رجحان ساز مجلہ
سمجھا جاتا تھا ۔مظہر الحق علوی نے ’’کلیاں ‘‘میں بچوں کے لیے نہایت دلچسپ
اور سبق آموز کہانیاں لکھیں ۔یہ کہانیاں بچے بڑے شوق سے پڑھتے اور اس طرح
اُن کے ذوق کی تسکین ہوتی ۔
فرانس کے مشہور ادیب الیکزنڈر ڈوماس (Alexander Dumas)جس کا عرصہء حیات
24-07-1802 تا05-12-1870ہے۔اپنے عہد کا مقبول ترین ناول نگار تھا ۔اس کے
مشہور ناول دی کاؤنٹ آف مونٹے کرسٹو ( ’’The Count Of Monte Cristo ‘‘)کا
ترجمہ مظہر الحق علوی نے ’’ظلِ ہما‘‘ کے نام سے کیا ۔اس ترجمے کو قارئین
ادب نے بہت سراہا ۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت روز ِروشن کی
طرح سامنے آتی ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں بر صغیر میں انگریزی ناولوں
کے اُردو تراجم بہت مقبول ہوئے ۔ اُردو زبان میں انگریزی زبان کے ناولوں کے
تراجم کا جو سلسلہ منشی تیرتھ رام سے شروع ہوا ، اُسے قارئین ادب نے بہ نظر
تحسین دیکھا اور اُردو زبان میں تراجم کی صورت میں تازہ ہوا کی ایک ایسی
لہر آئی جس نے نہ صرف فکر و نظر کی کایا پلٹ دی بل کہ اس کے معجز نما اثر
سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ہوا۔ترجمہ نگاری کی اس لہر کے
اُردو ادب پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔سید سجاد حیدر یلدرم اور متعدد
ادیبوں نے تراجم کے ذریعے اپنے متنوع تجربات سے اُردو زبان وادب کا دامن
گُل ہائے رنگ رنگ سے مزین کر دیا ۔مظہر الحق علوی نے انگریزی زبان کے نامور
ناول نگار ایم۔جی ۔لیوس (Mathew Gregory Lewis)کے ناول کا اردو ترجمہ ’’
ــخانقاہ ـ‘‘پیش کیا تو اِسے قارئین نے بہت پسند کیا ۔مصنف ایم۔جی۔لیوس
(پیدائش :09-07-1775 وفات:10-05-1818)کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے انگریزی
زبان میں پُر اسرار اور ہیبت ناک ناول لکھ کر اپنے منفرد اسلوب کا لوہا
منوایا ۔لفظی مرقع نگاری سے ماحول کو ہیبت اور دہشت سے لبریز بنانے کے
سلسلے میں ایم ۔جی ۔لیوس کی تصانیف کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے ۔ خانقاہ
میں مصنف نے تارک الدنیا راہبوں ،پادریوں اور گوشہ نشین مر د و خواتین کی
جعل سازی ،دوہری شخصیت ،ملمع سازی ،مکر کی چالوں ،منافقت ،عیاری اور جنسی
جنون کا پردہ فاش کیا ہے ۔اُس نے واضح کیا ہے کہ بادی النظر میں کواکب جس
طرح دکھائی دیتے ہیں اُ س طرح ہر گز نہیں ہوتے ۔تارک الدنیا راہبوں کی مثال
بالکل ہاتھی کے دانتوں جیسی ہے جو کھانے کے اور جب کہ دکھانے کے اور ہوتے
ہیں۔یہ بازی گھر کُھلا دھوکا دے کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں دُھول
جھونک کر اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں۔اس ناول میں ابلیس نژاد درندوں کو آئینہ
دکھایا گیا ہے جنھوں نے تقدس اور پارسائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ،ان سفہا
او ر اجلاف و ارذال کے مظالم،جنسی جنون ،شقاوت آمیز نا انصافیوں،مریضانہ
ذہنیت ،کور مغزی ،بے بصری اور بے رحمانہ عصبیت کے باعث زندگی کی تمام رُتیں
بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں ۔خانقاہ جب پہلی بار 1796میں شائع ہوا تو یورپ کے
متعصب پادریوں نے اس کے خلاف شدید رد ِ عمل کا اظہار کیا ۔اپنے بارے میں
تلخ حقائق کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ اس ناول کے مطالعہ
،اس کے کتب خانوں اور گھروں میں رکھنے کی ممانعت کر دی گئی۔ چربہ ساز ،سارق
،کفن دُزد ،جو فروش گندم نُما اور بگلا بھگت ننگِ انسانیت مسخروں کا چِیں
بہ جبیں ہونا قابل فہم ہے ۔اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے اور اُن
سے تائب ہونے کے لیے جِس ظرف کی ضرورت ہوتی ہے یہ لوگ اُس سے عاری ہوتے
ہیں۔ انگریزی زبان کے اس شاہ کار ناول کے ترجمہ کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو
اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ادیب شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی (پیدائش
:05-12-1898 وفات :27-02-1982)کی نظم ’’فتنہء خانقاہ ‘‘یاد آتی ہے جوش کی
اس نظم سے چند اشعار پیش خدمت ہیں :
ایک دِن جو بہرِ فاتحہ ایک بِنتِ مہر و ماہ
پہنچی نظر جھکائے ہوئے سُوئے خانقاہ
زُہاد نے اُٹھائی جھجھکتے ہوئے نِگاہ
برپا ضمیرِ زُہد میں کُہرام ہو گیا
اِیماں دِلوں میں لرزہ بر اندام ہو گیا
مظہر الحق علوی نے عالمی ادبیات کے اعلا فن پاروں کو اردو زبان کے قالب میں
ڈھال کر دو تہذیبوں کے سنگم کو یقینی بنا دیا۔برام سٹوکر(Bram Stoker)جس کا
عرصہء حیات (پیدائش :8-11-1847،وفات:20-04-1912) ہے اپنے عہد کا مقبول مصنف
تھا۔اُس کے ناول ڈریکولا(Dracula) کا ترجمہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔
برطانیہ کی ایک ممتاز ناول نگار میری شیلے (Mary Shelley) جِس کا عرصہء
حیات پیدائش ،30-08-1797 وفات :01-02-1851ہے ،کے ناول فرنکنسٹائن
(Frankestein)کا اردو ترجمہ قارئین ادب ہمیشہ یاد رہے گا۔تین جلدوں پر
مشتمل یہ انگریزی ناول لندن سے پہلی بار 1833میں شائع ہوا ۔اِ س ناول کی
پُوری دنیا میں دُھوم مچ گئی۔،مظہر الحق علوی نے اِس ناول کا جو ترجمہ کیا
ہے وہ جہاں اُن کے ابد آشنا تخلیقی وجود کا اثبات کرتا ہے وہاں قاری کو
زندگی کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ کرتا ہے ٍ۔اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی
زبان کے مشہور ادیب اور ناول نگار رائیڈر ہیگرڈ (Rider Haggard)کے ناولوں
پر بھی توجہ مرکوز رکھی ۔اس مصنف نے شی سلسلہ (She Series)کے جو ناول لکھے
وہ ہیبت ناک مہماتی اسلوب اور سنسنی خیز فضاکے باعث قارئین میں بے حد مقبول
ہوئے ۔مظہر الحق علوی نے اس سلسلہ کو نہایت دل نشیں اسلوب کے ساتھ اُردو کے
قالب میں ڈھالا ۔وہ رائیڈر ہیگرڈ (پیدائش :22-06-1856وفات :14-05-1925)کے
اسلوب سے بہت متاثر تھے ۔رائیڈر ہیگرڈ کے ضخیم مہماتی ناولوں کا اردو ترجمہ
کر کے انھوں نے اپنے ذوق سلیم کا ثبوت دیا ۔ان کے جو تراجم قارئین ادب میں
بہت مقبول ہوئے ان میں ’’روح کی پکار ‘‘، ’’خونخوار ‘‘،فرعون کی آپ بیتی
‘‘،آدم خور قبیلہ ‘‘، ’’فرعون و کلیم ‘‘ ،’’بھونرا‘‘ اور ،’’ الیشہ ‘‘،اپنے
دور میں اس قدر مقبول ہوئے کہ ان کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ۔
مظہر الحق علوی نے اپنی زندگی تصنیف و تالیف کے کاموں کے لیے وقف کررکھی
تھی ۔ان کی زندگی میں ان کی ایک سو سے زائد وقیع تصانیف شائع ہوئی جن سے
اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ۔ تخلیقی ادب اور عالمی ادبیا ت کے تراجم
کا یہ گنج گراں مایہ جو ایک سو سے زائد تصانیف پر مشتمل ہے انھیں شہرت عام
اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر فائز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوگا۔
ان کی اہم تصانیف میں انگریزی ناولوں کے تراجم ،طبع زاد افسانے اور بچوں کی
کہانیاں شامل ہیں ۔اردو زبان میں تراجم کے حوالے سے مظہر الحق علوی کی
خدمات بہت اہم ہیں ۔ ان کی بدولت اُردو ادبیات کو عالمی ادبیات میں ممتاز
مقام حاصل ہوا ۔ اُردو زبان میں ترجمہ نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم
روایت کی صورت اختیار کر لی ہے۔یہاں مناسب ہو گا کہ اُردو میں ترجمہ نگاری
کے ارتقا اور اس کے اعجاز سے منصہء شہود پر آنے والی تصانیف پر طائرانہ
نگاہ ڈال لی جائے۔محمد طحٰہ خان کے کلیات رحمٰن بابا کے اردو ترجمے کی
اہمیت اور افادیت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور اس شاہ کار ترجمے کا
مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں محفوظ کر لیا گیا ۔یہ ان کا پشتو اور اردو
زبان کا اور خاص طور پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادیب ان
کے افکار کی جو لانیوں سے استفادہ کر رہے ہیں ۔محمد طحٰہ خان نے ہمیشہ مظہر
الحق علوی کی تر جمہ نگاری کو بہ نظر تحسین دیکھا ۔تراجم کے ذریعے دو
تہذیبوں کو قریب تر لانے کی ان کی مساعی کو دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں
سراہا گیا ۔ ممتاز ادیب پروفیسر آفاق صدیقی جنھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی
کے سندھی کلام ’’شاہ جو رسالو‘‘کا اردو میں ترجمہ کیا تھا وہ مظہر الحق
علوی کے بہت بڑے مداح تھے ۔محمد طحٰہ خان تراجم کی اہمیت پر ہمیشہ زور دیتے
تھے اور مظہر الحق علوی کے اسلوب کو مثالی اسلوب سے تعبیر کرتے تھے
۔پروفیسر اسیر عابد نے دیوان غالب کا جو منظوم ترجمہ پیش کیا اسے وہ
پاکستان کی علاقائی زبانوں اورقومی زبان کے مابین ربط کی ایک صورت سے تعبیر
کرتے تھے۔پروفیسر اسیر عابد نے مظہر الحق علوی کے تراجم کا عمیق مطالعہ کیا
اور ان سے گہرے اثرات قبول کیے ۔اُردو میں ترجمہ نگاری کی اِس لہر نے تخلیق
کاروں کے فکر و نظر کو اِس طرح مہمیز کیا کہ وہ ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ
تجلی کی کیفیت سامنے لانے کے لیے سر گرم ِ عمل ہو گئے ۔مظہر الحق علوی کو
اِس کا بنیا د گزار سمجھا جاتا ہے ۔وہ بھی تراجم کے اِ س سلسلے کو قدر کی
نگاہ سے دیکھتے تھے۔پاکستانی ادیبوں کے ساتھ اُن کے علمی رابطوں کا سلسلہ
زندگی بھر جاری رہا ۔خاص طور پر محمد طحٰہ خان کے وہ بہت مداح تھے اور اُن
کی ترجمہ نگاری کو تہذیبی و ثقافتی اقدار و رویات کے تحفظ و بقا کی ایک
صورت قرار دیتے تھے ۔وہ اِ ن تراجم کو افادیت سے لبریز سمجھتے تھے ۔محمد
طحٰہ خان کا ایک اور کا رنامہ یہ ہے کہ انھوں نے خوشحال خان خٹک کے پشتو
کلام کا اردو ترجمہ کیا ۔۔حکومت پاکستان نے ان کی فقید المثال ادبی خدمات
کے اعتراف میں انھیں 2007میں پرائڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا۔
اپنی بصیرت اور فنی مہارت کے اعجاز سے مظہر الحق علوی نے عالمی ادبیات کے
شاہکاروں کے تراجم کو تخلیق کے اسلوب سے ہم آ ہنگ کر دیا۔اُ ن کے منفرد
اسلوب کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے اور تحریر کی اثر آفرینی قلب اور وح
کی گہرائیوں میں اُتر کر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے
۔اُردو میں ترجمہ نگاری کا یہ انداز ہمیشہ لائق تقلید سمجھا جائے گا
۔اُنھوں نے اپنے اسلوب میں سادگی ،سلاست اور حُسنِ بیان کو ملحوظ رکھا ہے ۔
اُن کے تراجم پڑھ کر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ انگریز مصنفین نے یہ ناول
شاید اُردو زبان میں لکھے ہیں ۔قارئین ادب ان تراجم کا مطالعہ کرتے وقت اصل
مصنف کے خیالات کی تفہیم میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔اِسلوب کی اس دل کشی اور
اثر آفرینی کو مظہر الحق علوی کے کمالِ فن کی دلیل سمجھا جاتا ہے ۔ایک زیرک
ترجمہ نگار اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کو تخلیق کی
چاشنی کس طرح عطا کرتا ہے اس کی تفہیم کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
رحمٰن بابا کے کلام کے منظوم اردو ترجمے میں محمد طحٰہ خان کی فنی مہارت
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس اور علم عروض پر عبور کا جادو سر چڑھ کر بو
لتا ہے۔انھوں نے رحمن بابا کے کلام کے فنی محاسن کو قارئین ادب کے سامنے
لانے کے سلسلے میں جس تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیاہے وہ ان کے تبحر علمی کی
دلیل ہے ۔خاص طور پر صنائع بدائع کو ترجمے میں بھی پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ان
کے ترجمے میں تخلیق کی چاشنی کا کرشمہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے ۔رحمٰن
بابا کی کئی غزلیں ایسی ہیں جن کا ترجمہ کرتے وقت محمد طحٰہ خان نے اسی بحر
،ردیف اور قافیے کو استعمال کیاہے جو رحمٰن بابانے کیے ہیں ۔بادی النظر میں
یوں لگتا ہے کہ رحمٰن بابا نے خود اُردو میں شاعری کی ہے ۔نیچے دی گئی غزل
میں رحمٰن بابانے صنعت عکس و تبدیل کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ استعمال
کیا ہے ۔اس صنعت میں ایک با کمال تخلیق کار پہلے مصرعے میں جو مضمون پیش
کرتا ہے دوسرے مصرعے میں اس کا عکس شعر کی باز گشت کی صورت میں قاری کو
حیرت زدہ کر دیتا ہے ۔
سر ہوا ساماں ہوا ،صدقہء جاناں ہوا صدقہ ء جاناں ہوا ،سر ہوا ساماں ہوا
سب گل و ریحاں ہوا گیسوئے جاناں مجھے گیسوئے جاناں مجھے سب گل و ریحاں ہوا
جو زیاں نقصاں ہوا ،ہجر میں اے جاں ہوا ہجر میں اے جاں ہوا ،جو زیاں نقصاں
ہوا
وصل کہ ہجراں ہوا دونوں مجھے ہیں عزیز دونوں مجھے ہیں عزیز ،وصل کہ ہجراں
ہوا
آخری شعر میں رحمٰن بابا نے جو مضمون پیش کیا ہیوہی مضمون ان سے پونے دو سو
سال بعد مرزا اسداﷲ خان غالب نے کچھ اس طرح اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے :
وداع و وصل جُداگانہ لذتے دارد ہزار بار برو ،صد ہزار بار بیا
غالب کے اس مشہور شعر کو صوفی غلام مصطفی تبسم نے پنجابی زبان کے قالب میں
اس طرح ڈھالا ہے :
بھانویں ہجر تے بھانویں وصا ل ہووے وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سو ہنیا جا ہزار واری ،آجا پیاریا تے لکھ وار آجا
اپنی پشتو شاعری میں رحمٰن بابا نے صنعت تشابہ کو جس مہارت سے استعمال کیا
ہے وہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہے ۔اس نوعیت کے فنی تجربوں کے ذریعے اس
نابغہء روزگا تخلیق کا ر نے پشتو شاعری کو نئے تخلیقی امکانات سے رو شناس
کرایا ۔محمد طحٰہ خان نے رحمٰن بابا کی شاعری کے منظوم ترجمے میں ان تجربات
کی جانب مبذول کرائی ہے ۔نیچے دی گئی غزل میں صنعت تشابہ کے ذریعے کلام میں
حُسن پیدا کیا گیا ہے ۔اس قسم کے شعری تجربوں کے چشمے رحمٰن بابا کی شاعری
اس طرح پھوٹتے ہیں کہ گلشن ادب میں تخلیقات کے گل ہائے رنگ رنگ ان سے سیراب
ہو جاتے ہیں ۔
برابر ہے یہاں شمس وقمر اور شکل دلبر کی مقابل قامت محبوب ہے سرو صنوبر کی
نہ میں ہوں شہد کی مکھی نہ میں گل کا شکر خورا لب محبوب سے لیتا ہوں لذت
شہد و شکر کی
عجب معجز نمائی ہے مشام جاں نے پائی ہے غبار کوچہء جاناں میں خوشبو مشک و
عنبر کی
فراق یار سے، غارت گری سے، قتل سے توبہ کہ تینوں میں یہاں تکلیف ہوتی ہے
برابر کی
مظہر الحق علوی نے ترجمہ نگاری میں اپنے فنی تجربات کے جس انداز میں جوہر
دکھائے ہیں اُ ن کے اعجاز سے اُردو زبان میں تخلیقِ ادب کے متعدد نئے
امکانات تک رسائی کی صورت پیدا ہوئی۔ اُردو نثر میں عالمی ادب کی اہم
تصانیف کے تراجم سے قارئین ادب کو جہان ِتازہ کے اسرارو رموز سے آگا ہ کرنے
کی جو کو ششیں کی گئیں وہ ثمر بار ثابت ہوئی۔کرنل محمد خان نے یورپی مزاح
نگاروں کی نمائندہ تحریروں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا ۔اُن کے تراجم پر
مشتمل کتاب ’’بدیسی مزاح ‘‘ شگفتہ مزاج قارئین ادب میں قدر کی نگاہ سے
دیکھی گئی۔تنقید میں صدیق کلیم کی کتاب ’’نئی تنقید ‘‘بھی مغربی نقادوں کے
مضامین کے تراجم پر مشتمل ہے ۔تراجم کے یہ مختلف اسالیب اپنی اپنی جگہ
ترجمہ نگاری کے نئے آہنگ سامنے لاتے ہیں ترجمہ کرتے وقت مترجم اپنے آپ کو
اس تہذیب اور معاشرت کے رنگ میں رنگ لیتا ہے جس میں کوئی اصل تصنیف صفحہء
قرطاس پر منتقل ہوئی۔مظہر الحق علوی ترجمہ کرتے وقت زبان و بیان ،تشبیہات
،استعارات ،صنائع بدائع اور حالات و واقعات کو بالکل اُسی رُوپ میں قاری کے
سامنے لانے کی سعی کرتے ہیں جو کہ مصنف کے پیش نظر تھا۔ گجراتی زبان کے
نامور ادیب اور ناول نگار جھاویر چند میگھانی (Jhaverchand Meghani)کے
گجراتی زبان میں لکھے گئے ناول ’’سوراتھ طرح وہتا پانی‘‘(Sorathh Tara
Vaheta Paani)کا اُردو ترجمہ کرتے وقت مظہر الحق علوی نے جِس محنت ،لگن علم
و ادب سے والہانہ وابستگی اور کمالِ فن کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے
۔اُنھوں نے جو طرز ِفغاں ایجاد کی ہے اُسی کوا ب طرزادا کا درجہ حاصل ہے
۔اُ ن کا اسلوب اُن کی ذات ہے ۔اُنھوں نے جو پیرایہء اظہار اپنایا ہے وہ
اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں۔اِس ناول کی اہم بات یہ ہے کہ اِس میں مصنف
نے گجرات اُ س کے مضافات اور اُس کے نواحی علاقوں میں مروج علاقائی زبانوں
کی بو لیوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے ۔ان بو لیوں کی تعداد ایک سو چار کے
قریب ہے ۔اس ناول میں جو اہم بولیاں استعمال ہوئی ہیں ،وہ درج ذیل ہیں:
بہاروتیہ(Baharvatiya)،سیپائیانا(sipaiyana)،ٹھیکرانا(Thakarana)اور مکرانی
(Makarani)
اِن بولیوں اور اور اِن میں استعما ل ہونے والے قدیم ،نامانوس اور غیر
مستعمل ادق الفاظ کے مفہوم کو سمجھنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے ۔ اُردو
کے ممتاز مترجمین طحٰہ خان ،آفاق صدیقی ،اسیر عابد اور صوفی تبسم کی طرح
مظہر الحق علوی نے بھی زبان کی تفہیم کے لیے بہت محنت کی ۔گجرات کے جن دُور
اُفتادہ علاقوں میں یہ بو لیاں بولی جاتی تھیں وہ طویل مسافت طے کر کے وہاں
پہنچے اور مقامی باشندوں سے مل کر الفاظ و معانی کے بارے میں حقائق معلوم
کیے ۔اِ س کے علاوہ اُنھوں نے خانہ بدوش مردوں اور عورتوں سے بھی معتبر ربط
قائم کیا جو شاہراہوں اور عمارات کی تعمیر میں مزدوری کرتے تھے۔یہ ملاقاتیں
بہت مفید ثابت ہوئیں ور اُن سے متعدد مشکل الفاظ کا مفہوم معلوم ہوا ۔مصنف
کے اسلوب میں اِن الفاظ کو گنجینہء معانی کے طلسم کی حیثیت حاصل تھی ۔اِ ن
کا مفہوم واضح ہونے کے بعد کئی حقائق کی گرہ کشائی ممکن ہوئی۔اُردو زبان و
ادب کے طالب علموں کے لیے مظہر الحق علوی کی یہ خدمت خضر ِ راہ ثابت ہوئی
۔مظہر الحق علوی نے اپنے مو ثر اور مسحور کُن اسلوب سے واضح کر دیا کہ
ترجمے سے زبان کو ترقی دی جا سکتی ہے ۔اُنھوں نے چربہ ساز ،سار ق ،کفن دُزد
اور نقال حشرات ِادب پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی مذموم روش سے باز آ جائیں
اور اپنی بے بصری کو چھپانے کے لیے مستعار نظریات اور دوسروں کی تخلیقات کا
سہارا نہ لیں۔اُنھوں نے تراجم کی اہمیت و افادیت کو اُجاگر کر کے سب کو
راہِ عمل دکھائی۔ تخلیق کی چاشنی لیے ہوئے تراجم کسی بھی زبان کو ثروت مند
بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔وہ چاہتے تھے کہ اُردو زبان کو یکسانیت
اور جمود کی اعصاب شکن فضا سے نکالا جائے اور اِ س کا دامن گُل ہائے ہائے
رنگ رنگ سے مالا مال کر دیا جائے ۔اُنھوں نے تراجم کے ذریعے اپنے فنی
تجربات کو رو بہ عمل لانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔مظہر الحق علوی کے اِن
تجربات کے معجز نما اثر سے اُردو ادب میں فکری تنوع ،خیلات کی تونگری
،اسالیب کی بُو قلمونی اور تخلیقی فعالیت ی ہمہ گیری کا جو دھنک رنگ منظر
نامہ مر تب ہوا اُس نے اُردو ادب کے قارئین کو مسحور کر دیا ۔قُدرت کا ملہ
نے مظہر الحق علوی کو جس بصیرت سے متمتع کیا تھااُ س کا واضح پرتو اُن کی
تحریروں میں دکھائی دیتا ہے ۔وہ زندگی میں مقصدیت اور معنویت ،اصلاح اور دل
کشی،خلوص اور دردمندی کی نمو کے آرزومند تھے اس لیے اُنھوں نے زندگی بھر
لفظ کی حرمت کو پیش نظر رکھا اور حریت ِفِکر کا علم بلند رکھا۔اُنھیں اِس
بات کا قلق تھا کہ معاشرتی زندگی میں بے حسی بڑھنے لگی ہے ۔آج سسکتی ہوئی
مظلوم انسانیت کے مسائل جامد و ساکت پتھروں،چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں اور
سنگلاخ چٹانوں کے سامنے پیش کرنے پڑتے ہیں۔اس اعصاب شکن صورتِ حال میں
الفاظ کھوکھلے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور زندگی کی حقیقی معنویت عنقا ہونے
لگی ہے ۔یہ کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی بُرا شگون ہے ۔روحانی اور اخلاقی
اعتبار سے ہمارا معاشرہ مسلسل رو بہ زوال ہے ۔شاید اِسی لیے اُنھوں نے ہیبت
ناک ناولوں کے تراجم پر توجہ دی کہ لوگ اُس وقت سے ڈریں جو اُن کی دہلیز پر
دستک دے رہا ہے ۔
ایک وسیع المطالعہ ادیب کی حیثیت سے مظہر الحق علوی نے عالمی ادبیات کا
عمیق مطالعہ کیا ۔عالمی شہرت کے حامل غیر ملکی ادیبوں بالخصوص انگریزی زبان
کے ادیبوں کی شہرہء آفاق تصانیف کا اُنھوں نے نہایت توجہ سے تجزیاتی مطالعہ
کیا ۔وہ جس تصنیف سے بھی متاثر ہوتے ،اں کی دلی خواہش ہوتی کہ وہ اُردو داں
طبقہ بھی اِس معرکہ آرا تصنیف کے مطالعہ سے حظ اُٹھائے جو انگریزی زبان پر
عبور نہیں رکھتا۔اِِس مقصد کے لیے اُنھوں نے ترجمہ نگاری کو اظہار و ابلاغ
کا وسیلہ بنایا۔دُنیا کی دوسری زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کرتے وقت وہ اس
امر کو ملحوظ رکھتے کہ دو مختلف تہذیبوں کو قریب تر لانے کی مقدور بھر کوشش
کی جائے ۔اپنے تجربات کے اعجاز سے اُنھوں نے تخلیق ادب کے نئے معائر کا
تعین کرنے کی کوشش کی مقامی اور عالمی تہذیب و ثقافت کے امتزاج سے اُنھوں
نے نئے تخلیقی تجربات کی راہ ہموار کر دی ۔اُنھوں نے تراجم کے ذریعے قارئین
ادب کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ مثبت شعور اور عصری آگہی کو پروان
چڑھانے میں مدد ملی ۔زندگی کی وہ درخشاں اقدار و روایات جو تہذیب و ثقافت
اور سماج و معاشرت سے وابستہ ہیں،اُنھیں ترجمے کے منفرد تجربے کے ذریعے
متنوع جہات سے آشنا کرنے کی کوشش کی گئی ۔مظہر الحق علوی نے تراجم کے ذریعے
اُردو میں تخلیقی فعالیت کو ایک نیا آہنگ عطا کیا۔اُن کے تراجم کے مطالعہ
سے قارئین ِادب وسیع تر تناظر میں تخلیق ادب کے محرکات کاجائزہ لے سکتے
ہیں۔
مظہر الحق علوی کی وفات کی خبر سُن کر پُوری دنیا میں گہرے رنج و غم کا
اظہا کیا گیااُ کا حلقہء احباب بہت وسیع تھا۔وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص
سے بھرپور سلوک کرتے ۔علمی ،ادبی ،تہذیبی ،ثقافتی ،سماجی اقدار و روایات کی
سر بلندی اور انسانیت کی عظمت کو اُنھوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھااُن کے
مداحوں میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،غفار بابر ، معین تابش
،مظفر علی ظفر ،محسن بھوپالی ،صہبا لکھنوی ،صابر کلوروی ،محمد شیر افضل
جعفری ،کبیر انور جعفری ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،خواجہ شائق حسن ،مولا بخش
خضر تمیمی ،صدیق لالی ،رام ریاض ،میاں اقبال زخمی ،امیر اختر بھٹی ، محمد
فیروز شاہ ،سجاد بخاری ،محمد آصف خان،راجا رسالو،نُور احمد ثاقب اور دیوان
احمد الیاس نصیب کے نام قابل ذکر ہیں ۔اُردو زبان و ادب کے یہ سب آفتاب و
ماہتاب اب غروب ہو چکے ہیں ۔ اِن کی یاد میں آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح
برستی ہیں۔ایسے یادگارِ زمانہ لوگ اب دنیا میں کبھی نہ آئیں گے ۔مرزا محمد
رفیع سودا کے شاگرد فتح علی شیدا نے کہا تھا :
وے صورتیں الٰہی ،کِس مُلک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جِن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
19۔دسمبر 2013کی سہ پہر احمد آباد میں خان پور کے علاقے میں واقع مسجد شاہ
وجیہہ الدین بابا میں مظہر الحق علوی کے ہزاروں مداح اِ س لافانی تخلیق کار
کے حضور اپنی آہوں اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ۔ہر
آنکھ اشک بار تھی اور ہر لب پر یہ دعا تھی :
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہء نو رستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے |