ہند پاک تعلقات کا خوشگوار دور

حالیہ دنوں بڑے زور شور اور چاہت سے ہندو پاک کے آپسی تعلقات خوشگوار ترین ہوتے جارہے ہیں اور برسو ں سے بچھڑے عوام گلے لک کر اپنے گلے شکوے بھلا نے کو بے قرارہیں ۔وقت اور حالات کی یہ خوشگوار کر وٹ ان دیرینہ دعاؤں ،آرزؤں اورتمناؤں کا اثرہے جوجانبین کے عوام ایک طویل عرصے سے مانگتے آرہے ہیں ۔بس فکر اس بات کی ہے کہ کہیں جانبین کے انتہا پسندوں کی نظر اس پیش رفت کو نہ لگ جائے اور ہم پاس آتے آتے پھر دو رنہ ہو جا ئیں ۔

دونوں جانب کے عوام تو ایک عرصے سے اس تگ و دو میں مصروف ہیں ہی مگر سرکاری سطح پر تعلقات استواری کی اس پیش رفت کو اس وقت مزید تقویت ملی جب24دسمبر 2013کو تقریبا ً14سال کے طویل عرصے بعدیا کارگل سانحے کے بعد ہندو پاک ڈی جی ایم او کی میٹنگ لاہور میں منعقد ہو ئی ۔اس میٹنگ میں فریقین نے متعدد حساس مسئلوں یا ایشو ز پر تبادلۂ خیال کیااور آپسی رنجشوں کے خاتمے کا اعلان بھی۔واضح ہو کہ اس میٹنگ کے انعقاد کی پہل بھی پاکستان کی جانب سے ہوئی جس کے محرک ڈی جی ایم او میجر جنرل عامر ریاض رہے۔

اس میٹنگ میں کیا ہوا ،کن کن موضوعات اور مسائل پر بحث ہو ئی،پاکستان نے کیا پیش کش کی اور ہندوستا ن کا مطالبا کیا تھا۔ان سوالوں کے جوابات حقیقت بن کر بہت جلد ہمارے سامنے آئیں گے تاہم ان سے قبل ہمیں اب اپنے دلوں میں پاکستانی عوام کے لیے اور پاکستانی عوام کو ہمارے لیے اپنے دلوں کو فراخ کر لینا چاہیے اس لیے کہ ہمار ے آپسی تعلقات اور ہما ر ی قربتوں کا دور اب دوچار دن نہیں بلکہ صد یو ں تک چلے گا ۔

ہندوستان پاکستان کے عوام اور حکومتوں و سرکاری اداروں کا قریب آنا نیک فال اور وقت کا اہم ترین مطالبا بھی ہے اس لیے کہ اب تمام دنیا بالخصوص ایشیا کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے ۔اب عوام ان حکومتوں کا تخت پلٹ کر رہے ہیں جنھوں انھیں ،بھوک،خوف،محرومی،دہشت گردی،مہنگائی اور ظلم و زیادتی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔اس کی ایک ادنی سے مثال ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کا بے نظیر واقعہ ہے ۔کس طرح معمولی اور گمنام لوگوں کی پارٹی نے دہلی کی جڑو ں میں پیوست کانگریس کواکھاڑ پھینکا۔ عالم یہ ہے کہ ماہرین سیاست چکرائے ہوئے ہیں اور ان کے منہ سے صرف یہ نکل رہا ہے کہ یہ کیسے ،کیا اور کیوں ہو گیا۔دراصل یہ مظلوم عوام کی آہوں اور کر اہوں کا نتیجہ ہے۔یاد رکھیے!جب یہ عرش الٰہی کو ہلادینے والی آہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر بر پا ہوں گی تو دنیا ناقابل یقین واقعات کا مشاہدہ کر ے گی۔

ہندوپاک کے سابق حکمرانوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ ہمارے ملکوں میں خلفشارکیوں ہے۔عوام ہم سے بے زار ہوکر اسلحہ بر دار کیوں ہو گئے۔ان کی شکایت کیا اور آرزو کیا۔اس لیے کہ کبھی حکمرانوں نے عوام کو اس قابل سمجھا ہی نہیں کہ ان سے مشورے لیے جائیں اورانھیں ملکی معاملات میں دخیل بنا یا جائے۔اس طرح کو ئی بھی ملک سلامت نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔

عہد خلافت میں عام آدمی تک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ وقت کا گریبان پکڑ کر عدالت میں لے جائے۔اپنے ٹیکس اور خراج کی تفصیل معلوم کر ے نیز اگر اسے خلیفہ وقت سے شکایت ہے تو اس کے دربار میں اس کا بر ملااظہار کر ے۔اصل جمہوریت یہ ہے ۔لیکن ہندوپاک میں دستور اور جمہوریت کا تصو ردوسرا ہو کر رہ گیا ۔یہاں وزیر اعظم ،وزیر اعلا اور نوکر شاہ جو کر نا چاہیں وہ بے کھٹکے کر سکتے ہیں ۔عوام کا گلہ گھونٹنے کی انھیں کھلی چھوٹ ہے ،نہ کو ئی ان سے باز پرس کر نے والا ہے اور نہ کوئی گر فت کر نے ولا۔یہی بات عوام کے دلوں میں چھید کر جاتی ہے اوروہ مجبور ہو کر ہتھیار اٹھالیتے ہیں پھر جوکوئی بھی سامنے آتا ہے انجام سوچے بنا اسے نشانہ بنا دیتے ہیں۔

واضح ہونا چاہیے کہ خدا وند تعالیٰ نے ہم سب کو انسان بنایا ہے’انسان ‘کامطلب ’انس اور محبت ‘ہے مگر آج کے حکمرانوں نے ’انسان ‘کا مطلب’نفرت ، دشمنی‘ اور’دوری ‘بنا دیا ۔ کہیں رنگ کا امتیاز ہے تو کہیں زبان کا فرق ،کہیں علاقایت ہے تو کہیں خاندانی وجاہتیں ہیں۔کہیں دوسرے عوارض ہیں توکہیں دوسری خرافات ۔غرض انسان کو انسان سے ملانے والے تمام راستوں پر اسی طرح کے ڈھکوسلے بٹھا رکھے ہیں ۔سرحدوں کی بات تورہنے دیجیے اپنے ہی ملک میں لوگ اجنبیت کی زندگی گذاررہے ہیں۔ایسی گھٹن بھری زندگی کا تصور کیجیے اور احساس کیجیے اس دل کی بے چینی کو جو ملنے کو بے قرا ر ہو اوراس آنکھ کی بے تابی کا جو دیدارکی منتظر ہو۔ ہویدا یہی ہو گا کہ اس طرح کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے ؟اس سے تو مرجانا بہتر ہے اور اگر انسان کے بس میں مر جانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے یہی کا م کر تا ۔

ہندوستان پاکستان کے مابین تعلقات کے تعطل کی ذمے داری اکثر میڈیا ،حکمرانوں اورسرکاری ادارو ں پر ڈالی جاتی ہے ۔یہ حقیقت بھی ہے اس لیے کہ ملکوں کے انتظامات ان ہی کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور وہی ممالک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ملکوں میں بسنے والے عام باشندو ں کے ارمانوں کا خون کر دیا جائے اور ان سے ان کی زندگی چھین لی جائے۔انسان سے انسان کی قربت اور تحفظ کے احساس کی حقیقت کو آپ اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں:’’ایک شخص اپنے کارواں سے بچھڑ کر لق و دق صحرا اور بے نشان وادی میں چلا جارہا ہے۔جہاں اسے قافلے سے بچھڑنے کاغم ہے وہیں اسے انجانے خدشات بھی ڈس رہے ہیں ۔بھوک پیاس،سفر کی تکان الگ رہیں ۔ ایسی حالت میں اگر کو ئی آدم زاداسے مل جائے تو اس کی خوشی کا عالم قابل دید ہوگا ۔وہ اپنی ساری تکلیفیں ،غم ،پریشانیاں اور مشکلات آن واحد میں بھول جائے گا۔اسی طرح ہم سب یعنی ہندو پاک کے عوام اپنے قافلوں سے بچھڑکر صحراؤں میں تنہا بھٹک رہے ہیں ،ہمیں انسانی محبت اور دست رسی کی سخت ضرورت ہے ۔ہمیں انسان سے ملنے کی بے انتہا چاہت ہے۔اب چا ہے وقت،زمانہ،حالات ،حکومتیں اور انتظامیہ کتنی روکاوٹیں کھڑی کر دے ،ہم اس کے باوجود انسانوں سے ملنے کی کوشش کر یں گے۔اب ہمیں فرسود ہ نظام بدلنا ہی ہوگا اور آپسی اتحاد کی ایسی تاریخ رقم کر نی ہوگی کہ ہمارے حکمران ہمارے مطالبے سننے پر مجبور ہو جا ئیں۔

ہندوستان پاکستان کا بٹوارہ دو ملکوں کا بٹوارہ نہیں تھا بلکہ ایک دل کے دو ٹکڑے کرنے کے مترادف تھا ۔بھلا کیا کوئی انسان آدھے دل کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے ۔دیوانے لوگ بھی اسے موت کہیں گے ۔مگر ہمارے حکمران اسے زندگی کہتے ہیں اور ہمیں اسی طرح جینے پر مجبور کر تے ہیں۔مزید ہم پر پابندیاں عاید کر تے ہیں اور ہمیں نہ آہ بھر نے دیا جاتا ہے ہے اور تڑپنے کی اجازت ہے۔

آئیے اے ہندو پاک کے عوام!اس بدلتے منظر نامے کا استقبال کر یں اور ان لمحات کو اپنی آنکھو ں میں بسالیں جب ہمیں حقیقی آزادی ملے گی،بھائی سے بھائی کے ملنے کی آزادی اور اپنوں سے اپنوں کے ملنے کی اجازت۔آئیے اس بدلتے منظر نامے پرجشن منائیں اور اپنے 67سالہ پرانے زخموں کا مدوا کر یں ۔

احساس
خدا وند تعالیٰ نے ہم سب کو انسان بنایا ہے’انسان ‘کامطلب ’انس اور محبت ‘ہے مگر آج کے حکمرانوں نے ’انسان ‘کا مطلب’نفرت ، دشمنی‘ اور’دوری ‘بنا دیا ۔ کہیں رنگ کا امتیاز ہے تو کہیں زبان کا فرق ،کہیں علاقایت ہے تو کہیں خاندانی وجاہتیں ہیں۔کہیں دوسرے عوارض ہیں توکہیں دوسری خرافات ۔غرض انسان کو انسان سے ملانے والے تمام راستوں پر اسی طرح کے ڈھکوسلے بٹھا رکھے ہیں ۔سرحدوں کی بات تورہنے دیجیے اپنے ہی ملک میں لوگ اجنبیت کی زندگی گذاررہے ہیں۔ایسی گھٹن بھری زندگی کا تصور کیجیے اور احساس کیجیے اس دل کی بے چینی کو جو ملنے کو بے قرا ر ہو اوراس آنکھ کی بے تابی کا جو دیدارکی منتظر ہو۔ ہویدا یہی ہو گا کہ اس طرح کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے ؟اس سے تو مرجانا بہتر ہے اور اگر انسان کے بس میں مر جانا ہوتا تو وہ سب سے پہلے یہی کا م کر تا ۔
 
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62244 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More