شعر کا مطلب ہمیشہ شاعر کے دل
میں ہوتا ہے۔جب شعر لکھ دیا جاتا ہے پڑھ لیا جاتا ہے تو پھر ہر ایک اس کی
تعبیر اپنے ذوق، علم اور سمجھ کے مطابق کرتا ہے۔
وہ میرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں
اس کا حق ہے کہ جسے چاہے اسے پیار کرے
اس شعر کو پڑھ کے یہی لگتا ہے کہ شاعر کوئی بہت بڑے دل کا آدمی ہے جو
انسانی حقوق پہ پورا یقین رکھتا ہے اور یہ تائثر دینا چاہتا ہے کہ اس کا
محبوب اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا تو اس میں برا ماننے والی کوئی
بات نہیں۔اسے مکمل اختیار ہے کہ وہ جس پہ چاہے اپنی محبتیں نچھاور کرے۔جسے
چاہے اپنے من کا میت بنائے۔جسے چاہے اپنے دل کی حکومت بخش دے۔سننے والے کو
یہ سب فقرے متائثر کرتے ہیں لیکن ان فقروں میں چھپی بے بسی اور بے کسی کا
کوئی اندازہ نہیں لگاتا۔ٹھکرائے جانے کا دکھ معمولی نہیں ہوتا۔ آپ اپنا تن
من دھن ایک شخص کے حوالے کرنے پہ تیار ہوں اور وہ بے نیازی سے بڑھ کے
بیزاری کا اظہار کرے تو دل کے لٹنے کا احوال کوئی صاحبِ دل ہی جان پاتا
ہے۔محبت اور نفرت انتہاء کے جذبات ہیں اوران میں انسانی حقوق کا حوالہ صرف
اسی وقت آتا ہے جب ہاتھ میں کچھ نہ رہ جائے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں پاکستانی حکومت کے لبوں پہ بھی یہی شعر آج
کل اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ میاں صاحب جب جب حکومت میں آئے ان کی زبان پہ
یہی گانا رہا بلکہ اس سے بھی بڑھ کے کہ" دل ول پیار ویار میں کیا جانوں رے
،جانوں تو جانوں بس اتنا کہ تجھے اپنا جانوں رے"امن اور اسلام ہم معنیٰ و
ہم پلہ ہیں۔لازم وملزوم۔مسلمان تو جنگ کے ہنگام بھی سبز درخت نہیں کاٹ
سکتا۔کھڑی فصلوں کو تباہ نہیں کر سکتا۔عورتوں اور بچوں پہ ہتھیار نہیں اٹھا
سکتا۔ایسا کرے تو اس کی مسلمانی پہ حرف آتا ہے۔اسلام امن کا داعی ہے لیکن
باجگذاری کا نہیں۔اعتراض یہ نہیں کہ بھارت سے امن کی بات نہ ہو۔جنگ سے منہ
نہ موڑا جائے دکھ اس بات کا ہے کہ بھارت کو مائی باپ تسلیم نہ کیا جائے۔
ہمارے حکمرانوں کا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ وہ معاہدے نہیں کرتے ملک کو ٹھیکے
پہ دے دیتے ہیں۔امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ہم نے انہیں کیا کیا پیش
نہیں کیا۔ اپنی ہوائیں اپنی فضائیں،اپنی زمین اپنے سمندر سبھی کچھ ان کے
حوالے کیا۔انہوں نے لیکن ہمیشہ اپنی کنیز جانا۔ڈو مور کا تقاضا کیا اور
حصول مقصد کے بعد یہ جا وہ جا۔
میاں صاحب نے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی جس پہلی خواہش کا اظہار
کیا وہ ان کی رسم تاجپوشی میں من موہن سنگھ کی موجودگی تھی۔بادشاہ سلامت کو
بڑی مشکل سے باور کرایا گیا کہ عجلت شیطانی افعال میں سے ایک ہے اور شنید
ہے کہ وہ بڑی مشکل سے مانے۔پچھلے سڑسٹھ سالوں سے ہم یہی سنتے آ رہے ہیں کہ
بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔بھارت نے ہماری شہہ رگ دبوچ رکھی ہے۔بھارت نے
سیاچین پہ قبضہ کر رکھا ہے۔بھارت نے ہمارا پانی روک رکھا ہے ۔بھارت ہی کی
سازشوں سے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔کبھی ہمیں وہاں سے خیر کی خبر نہیں
آئی۔ہمارے ملک میں دہشت گردی کی آگ بھارت ہی کی لگائی ہوئی ہے۔بلوچستان میں
علیحدگی پسندی کی ساری تحریکوں کا وہ پشتیبان ہے۔ان کے اپنے ملک میں زلزلہ
آ جائے تو اس کی ذمہ داری بھی وہ ہم پہ ڈال دیتا ہے۔ان کے ہاں زکام کی وبا
پھیلے تو اس کے پیچھے بھی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہماری بے بسی کہ
جانتے بوجھتے ہمارا کوئی لیڈر بلوچستان میں کھلی بغاوت کے پیچھے موجود
بھارت کا نام نہیں لیتا جبکہ اس کے برعکس وہ اپنے ملک میں ہونے والی ہر بات
کے لئے نام لے کے ہمیں موردِ الزام ٹھہراتا بلکہ نام نہاد مجرموں کی حوالگی
کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
اس سب کے باوجود ہم امن کی فاختہ اڑانا چاہتے ہیں۔بھارت کے ساتھ دوستی کرنا
چاہتے ہیں۔ہم ویزہ ختم کرنا اور کرنسی ایک کرنا چاہتے ہیں ۔ہم تجارت بڑھانا
چاہتے ہیں۔ہم اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اس کے جواب میں بھارت ہمیشہ ہمیں
ٹھینگا دکھاتا ہے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے شاعر نے کہا تھا کہ وہ میرا ہو نہ
سکاتو میں برا کیوں مانوں۔یعنی میری ساری کوششوں کے باوجود اگر وہ میرا
نہیں ہو سکتا تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں۔اس کا حق ہے کہ جسے چاہے اسے پیار
کرے۔ہم پالیسی بدلنا چاہ رہے ہیں۔ہمیں اب بھارت سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے
خطرہ ہے۔یہ الگ بات کہ یہ خطرہ بھی بھارت نے ہمارے دوست امریکہ سے مل کے
پیدا کیا ہے۔یہ بات ہمیں سب سے پہلے مشرف نے سمجھائی تھی۔ پی پی کی ملکی
سلامتی کے حوالے سے مشکوک جانی جانے والی حکومت نے تو اس دوستی کے حوالے سے
ہاتھ ہولا ہی رکھا لیکن اب حبِ وطن کے سارے پر اپنی کلغی میں سجائے نواز
شریف سب کچھ بھول بھال کے بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہتے ہیں تو بسم
اﷲ۔کہتے ہیں حکومت اور فوج دونوں اس معاملے میں ایک ہی صفحے پہ ہیں۔چشم ِ
ما روشن دل ما شاد۔
پالیسی ایک بیان دینے سے بدل جاتی ہے لیکن سوچوں کا رخ لمحوں میں تبدیل
نہیں ہوتا نہ ہی توپوں اور مورچوں کا۔اس کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔بھارت
کے ساتھ دوستی ہماری ضرورت سہی لیکن یاد رہے کہ اس دوستی کے درمیان بہت
سارا خون بھی ہے شہدا کا بھی اور ارمانوں کا بھی۔ دوستی مبارک لیکن یہ
دوستی برابری کی بنیاد پہ ہونی چاہیے باجگذاری کی بنیاد پہ نہیں۔نواز شریف
ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ دوستی ہو جائے تو پھر اتنی بڑی فوج
رکھنے کی کیا ضرورت؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ معاملہ دوستی کا ہے یا دشمنی کا؟ |