اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟

فیض احمد فیض ویسے تو رجائیت پسند شاعر تھے مگر نہ جانے کیوں قنوطیت کا شکار ہوکر انہوں یہ کہا’’اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے‘‘۔لیکن ؁۲۰۱۳ جاتے جاتے یہ پیغام دے رہا ہے کہ ’’قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت ‘‘ اور عالم ِ گیتی پر ایک نیا دور دستک دے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی یہ ایک روایت ہے کہ ہر عیسوی سال کے آخر میں گذرے ہوئے سال کا مختلف زاویوں سےجائزہ لیا جاتا ہے اور آنے والے سال سے متعلق قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں ۔ اس سال کے سارے اہم واقعات کے بجائے صرف ماہِ دسمبرمیں رونما ہونے والے چندواقعات کا اگر گہرائی سے مطالعہ کرلیا جائے تو مطلع اپنے آپ صاف و شفاف ہوجاتا ہے۔ ایک واقعہ چین میں وقوع پذیر ہوا جس کا سورج ؁۲۰۱۴ کی مانند طلوع ہونے کیلئے انگڑائیاں لےرہا ہے اور دوسرا امریکہ میں گھڑا جس کا سورج غروب ہونے سے قبل ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ایک اورایسا معاملہ بھی اس دوران اخبارات کی زینت بنا جودونوں کے درمیان مشترک ہے ۔ اس کے علاوہ ایک سانحہ چین کےہمسایہ اورامریکہ کے ہمنوا ہندوستان کے ساتھ پیش آیا اور دوسرا سوڈان میں ۔

سب سے پہلے سنٹا کلاژامریکہ کا ذکر ہو جائے جہاں اس سال کے ابتداء میں براک اوبامہ نے بڑے تزک و احتشام سے دوبارہ صدارت کا حلف لیا لیکن جولائی کے آتے امریکی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ رونما ہوگیا ۔ امریکہ کا ایک صنعتی شہرڈیٹرائیٹ جوساری دنیا میں امریکی گاڑیاں بنا کر برآمد کرنے کیلئے مشہور تھا اچانک قلاش ہوگیا ۔ امریکہ میں کسی شہر کی میونسپلٹی کا۱۸ تا ۲۰ بلین ڈالر خسارہ دکھلا کر دیوالیہ ہوجانے کا یہ اولین واقعہ تھا ۔ اس کے تین ماہ بعد امریکی پارلیمان کے اندر حزب اقتدار اور اختلاف کی لڑائی آئندہ سال کےبجٹ کی توثیق میں آڑے آگئی اور یکم تا۱۶ اکتوبر سارے حکومتی ادارے تعطل اور غیر یقینی کا شکار ہوگئے ۔ اس طرح گویا ریپبلکن پارٹی نے صدر براک اوبامہ کو ساری دنیا کے سامنے رسوا کیا اور خود اپنی عوام کو شدید مصائب سے دوچار کیا۔

صدر براک اوبامہ ۱۴دسمبر کوگذشتہ سال اسی دن رونما ہونے والے ایک الم ناک حادثے کا سوگ منانے کی خاطرکنکٹی کٹ کے نیوٹاؤن میں سینڈی ہُک ابتدائی اسکول پہونچے جہاں آدم نامی وحشی حملہ آور نے خود کشی سے قبل ۲۰ بچوں سمیت ۲۶ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ مہلوکین میں اس کی اپنی ماں بھی شامل تھی۔ اس موقع پر ہلاک شدگان کی یاد میں موم بتی جلانے کے بعد اوبامہ نے کہا ہم نے اپنے ملک وقوم کو محفوظ تر بنانے کیلئے ضروری اقدامات نہیں کئے ۔ ہمیں خطرناک لوگوں کو اس قدر آسانی سے بندوق حاصل کرنے سے روکنے کیلئے بہت کچھ کرنا ہے۔مگرمچھ کے آنسو بہانے والے اوبامہ پر اب حامد کرزئی تک اعتبار نہیں کرتا۔ کرزئی کو فی الحال طالبان کو اوبامہ سے زیادہ قابلِ اعتماد سمجھتا ہے۔

ایک سال قبل براک اوبامہ نے اسی مقام ایک نہایت جذباتی تقریر کی تھی جس کے دوران وہ دو مرتبہ روپڑے تھے اور قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس طرح کا قتل عام روکنے کیلئے وہ بامعنیٰ اقدامات کریں گے لیکن سال بھر میں ان کو اور نائب صدر جو بیڈن کواسلحہ ساز سرمایہ داروں نے اپنے اشارے پررقص کرنے والے سیاستدانوں کی مدد سے پوری طرح مفلوج کردیا ۔ اوبامہ کے صدر بننے کے بعد چار سالوں میں گولی باری کے چار بڑے واقعات ہوئے جن میں سے ایک میں ممبر پارلیمان(کانگریس) بھی ہلاک ہوئیں لیکن قتل و غارتگری کا بازار بدستورگرم رہا ۔ بندوقوں کی خریدو فروخت بلا روک ٹوک زور و شور سےجاری رہی۔ یہاں تک کہ اس سال بھی مذکورہ تقریب سے ایک روز قبل کولاریڈو میں ایک ۱۸ سالہ طالب علم نے اپنے ساتھ پڑھنے والی دوطالبات کو بری طرح زخمی کرنے کے بعد خودکشی کرلی ۔ ستمبر میں نیوی ہیڈ کوارٹر میں ۱۲ لوگ ہلاک کردئیے گئے ۔

اوبامہ نے ایک سال قبل کہا تھا ہمارے بامعنیٰ اقدام میں سیاست آڑے نہیں آئیگی لیکن چونکہ سیاست کی بنیاد ہی سرمایہ داری پر ہے وہ سرمایہ داروں سے بغاوت کرنے کی جرأت نہ کرسکے ۔ اس وقت جبکہ ۸۰ فیصد رائے عامہ اسلحہ پر پابندی کے حق میں تھی نیویارک کے مئیرمائیکل بلومبرگ نے کہا تھا صدراوبامہ نے بجا طور پسماندگان کو دلی تعزیت پیش کی ہے لیکن ملک ان سے تعزیری قوانین کی توقع کرتا ہے ۔بامعنیٰ نہیں بلکہ فوری اقدام ضروری ہے ۔ ہم اس طرح کے جذباتی بیان بہت سن چکے ہیں لیکن افسوس کہ ہمیں پارلیمان کے ایوانوں میں قیادت کا فقدان نظر آتا ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔ بلومبرگ نے کہا ہمارے التواء اور کوتاہی کے سبب ہر روزاوسطاً ملک بھر میں۳۴ بے قصور لوگ بندوق کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ نیویارک کے گورنر انڈریو کومو نے سارے معاشرے کو متحد ہوکر اسلحہ سازوں پر ہلہ ّ بول دینے کا نعرہ لگایا تھالیکن اسلفاظی کے باوجود قانون میں سختی کے بجائے نرمی آئی اورسمتھ ویسن نامی بندوق بنانے والی کمپنی کی فروخت میں ۴۸ فیصد کا اضافہ ہوا۔

قانون وضع کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام و نامراد ہونے کے بعد حکومت نےانتظامی اصلاحات کی جانب نہایت مضحکہ خیز انداز میں پیش قدمی کی۔ اول تو بندوق کی فروخت کو روکنے کا معاملہ تھا پھرنفسیاتی مریضوں تک اسلحہ کی رسائی کو روکنے پر مصالحت ہوئی اور گفت و شنید نیز معلومات کا تبادلہ شروع ہوا۔جس کے نتیجہ میں اساتذہ اور سماجی کارکنان کو یہ ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا گیا کہ وہ دماغی امراض کے شکار نوجوانوں کی شناخت کریں اور ان کا علاج کروائیں ۔ اس کام کیلئےوہائٹ ہاؤس نے۱۳۰ملین ڈالر کا بجٹ مانگا لیکن پھر سیاست نے رخنہ ڈال دیا اور کانگریس نے اس کی توثیق سے بھی انکار کردیا ۔ اس کام کیلئے ۵۰ ملین صحت و خدمت خلق کے محکمہ اور۵۰ ملین زراعت کے شعبے سے حاصل کئے گئے ۔ ان حقائق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ساری دنیا میں قتل و غارتگری مچانے والے امریکی حکمراں خود اپنے شہریوں کے تحفظ کے تئیں بھی کس قدر سفاک ولاپرواہ ہیں ۔

جس وقت براک اوبامہ کنکٹی کٹ کے سینڈی ہُک اسکول کے اندر آنسو بہا رہے تھے چین کے اندر خلائی گاڑی کے چاند پر اتر نے کی خوشی کا جشن منایا جارہا تھا ۔ امریکہ اور روس کے بعد چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کی خلائی گاڑی ’’یوتو‘‘چاند پر کامیابی سے اتاری گئی ہے۔ اس خلائی گاڑی کا نام چین میں انٹرنیٹ پر ایک عوامی سروے کے بعد رکھا گیا تھااور ۳۴ لاکھ چینی شہریوں کی غالب اکثریت نے چینی لوک کہانی کے چاند پر بسنے والے کردار خرگوش کے نام پرخلائی گاڑی کا نام رکھنے کا مشورہ دیا ۔۳۷ برس بعد چاند پر اترنے والا’’یوتو‘‘ ماضی کی خلائی گاڑیوں کے مقابلے جدید تر آلات سے لیس ہے۔

دس سال قبل؁۲۰۰۳میں چین نے پہلی بار ایک خلاباز کو خلا میں بھیجا اور اس طرح امریکہ اور روس کے بعد وہ تیسرا ملک بن گیا جس نے بغیر کسی اور ملک کی شراکت کے انسانوں کو کامیابی کے ساتھ خلائی سفر پر بھیجاتھا۔اس کے بعدوہ چاند کی جانب بڑھا اور ؁۲۰۰۷ میں اس نے ایک خودکار خلائی جہاز چاند کے مدار میں بھیجاجس کو۱۶ ماہ تک چاند کی گرد ش کرانے کے بعد چاند پر گرا دیا گیا۔ اس سال جون میں تین چینی خلابازوں نے پندرہ دن زمین کے گرد مدار میں گزارے اور اپنے خلائی جہاز کو ایک تجرباتی خلائی تجربہ گاہ سے منسلک کر دیا ۔واپس آنے سےقبل خلاباز وانگ یاپنگ نے خلاء سے زمین پر موجود طلبا سے خطاب کیااور نائی ہائشنگ نے خلا میں سب زیادہ وقت گزارنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ چینی سائنسدانوں کے مطابق اس مشن کا مقصد جدیدٹیکنالوجی کی آزمائش، نئی سائنسی معلومات اور علمی مہارت حاصل کرنا ہے۔ یہ مشن ایسی معدنیات کو بھی تلاش کرے گی جسے بعد میں کسی وقت نکالا جا سکے۔انسانی تاریخ میں پہلی بار خلائی جہاز’یوتو‘ کے چاند پر اترنے کو چین کے سرکاری ٹیلی ویژن نے براہ راست نشر کرکے خلائی پروگرام میں امریکہ اور روس کی برتری کا خاتمہ کردیا ہے۔

امریکہ و چین کے انفرادی واقعات کے بعد اب ان دونوں ممالک کا ایک مشترکہ واقعہ بھی دیکھ لیا جائے جو اتفاق سے اسی ماہِ دسمبر میں منظرعام پر آیا ۔ مشرقی چین کے ایک جزیرے کو لے کر جو جاپان کے قبضے میں ہے مشرق بعید کے حالاتویسے ہی کشیدہ چل رہےتھے ۔ اس لئے کہ چین کی حکومت نے اس پر ہونے والی آمدورفت کی تفصیل طلب کرکے بیک وقت جاپان، جنوبی کوریا اور امریکہ کو ناراض کردیا تھا۔ اس واقعہ نے دوسری جنگ عظیم کے دو دشمن امریکہ اور جاپان کو ایک دوسرے کا ہمنوا بنا دیا ہے ۔ چین کی دشمنی میں امریکہ نے ۷۲ سال قبلپرل ہاربر کے مقام پر اپنے بحری بیڑے پر ہونے والے جاپانی حملے کو بھلا دیا ہے جس میں دوہزار امریکی ہلاک اور ایک ہزار زخمی ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ جاپان بھی ہیرو شیما اور ناگاساکی کی ایٹمی بمباری کو بھول گیا جس میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ امریکی دہشت گردی کا شکار ہوئے تھے ۔

اس سال ۵ دسمبر کو پیش آنے والے واقعہ نے جاپانی اور امریکی اتحاد پر چین کی بحری برتری ثابت کردی۔ ہوا یہ کہ امریکی فوجی بیڑے کا سب سے بڑا دستہ کوپینس فلپائن میں امداد کے بہانے چین کے ہوائی جہازبردارسمندری بیڑے لیاؤننگ کی نگرانی کررہا تھا۔اس دوران ایک اور چینی جہاز نہایت خطرناک انداز میں کوپینس کی جانب بڑھا اور گھبراکرامریکی بیڑے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ جس وقت یہ محاذ آرائی ہوئی دونوں جہازوں کے درمیان کافاصلہ صرف ۱۸۰ میٹر رہ گیا تھا۔ اگر امریکی بیڑہ فوراً پیچھے نہ ہٹتا تونہایت خطرناک تصادم ہو سکتا تھا۔

امریکی ترجمان نے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا چینی جہاز کی نیت جارحانہ تھی اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم چین کے کے ساتھ مستحکم فوجی تعلقات بحال کرنے کےمتمنی ہیںلیکن ایک اور افسر نے اعتراف کیا کہ وہ خاص طور پر جارحانہ انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔رینم یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر جنکانرونگ کے مطابق مستقبل کے اندراس طرح کے تصادم اضافہ ہوگا اس لئے کہ جنوبی چین کے سمندر میں امریکی بیڑہ موجود ہے اور چین وہاں پر اپنی برتری قائم کرنے کوشش میں لگا ہوا ہے۔جنکا کے مطابق دونوں ممالک کے رہنما تصادم نہیں چاہتے مگراس کےباوجودمحاذ پر موجود نوجوان فوجیوں کو قابو میں رکھنا مشکل ہے۔ حکومت ِ چین نے اس واقعہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔

حکومتِ ہند کیلئے ان واقعات میں عبرت کا سامان ہے ۔ امریکہ بہادر نے دیویانی کھوبرا گڑے کے معاملے میں تو اپنی منہ زوری دکھلاتے ہوئے نہ صرف معافی مانگنے سے بلکہ مقدمہ تک واپس لینے سے صاف انکار کردیا۔ دیویانی کوگرفتار ہونے سے بچانے کی خاطر انہیں اقوام متحدہ کے دفتر منتقل کیا گیا ہے تاکہ وہ سفارتی تحفظ سے بہرہ ور ہو جائیں لیکن جس دن ان کا تقرر ختم ہوگا اپنے آپ مذکورہ تحفظ بھی ختم ہو جائیگا اور امریکہ میںدیویانی کے خلاف وارنٹ نافذالعمل ہو جائیگا۔ اپنے نئے تقرر کے سبب اگر دیویانی جیل جانے سے بچ بھی جائیں تب بھی وہ تاحیات امریکہ کےمطلوبہ ملزمین کی فہرست میں شامل رہیں گی ۔
اس صورت میں جس طرح ان کی ملازمہ سنگیتا ہندوستان میں مفرور مجرم ہے ویسی ہی حالت دیویانی کی امریکہ میں ہوجائیگی لیکن ان دونوں خواتین کا حال پھر بھی یکساں نہیں ہے۔ امریکہ سنگیتا کے شوہر اور بچوں کو اپنےیہاں لےجا چکا ہے اور بہت ممکن ہے کہ سنگیتا کو بغض معاویہ میں نہ صرف سیاسی پناہ بلکہ شہریت سے نواز دیا جائے لیکن دیویانی کا شوہرڈاکٹرآکاش راٹھور تو امریکی شہری ہے اس کا کیا ہوگا ؟ اگر دیویانی کسی طرح امریکہ سے نکل آتی ہیں تو دوبارہ لوٹ کر نہ جاسکیں گی ایسے میں آکاش کو یا تو اپنی بیوی سے دور ہونا پڑے گایا اپنے وطن عزیز امریکہ کو خیرباد کرنا ہوگا ۔ڈاکٹر آکاش جو ماہر شرابیات ہیں ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کریں گے یہ جاننے کیلئے کسی غیب دان کی ضرورت نہیں ہے ؟ اس طرح گویا اپنی ملازمہ کے سبب دیویانی کی ازدواجی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ۔

ہندوستان کی اس بے بسی میں ان تمام ممالک کیلئے عبرت کا سامان ہےجوامریکہ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں یا اس سےدوستی کے خواہاں ہیں۔ اگر اس طرح کے واقعات کی یہ توجیہ پیش کی جائے کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا تو اس کی غلط فہمی کو دور کرنے والی خبرخانہ جنگی کا شکار جنوبی سوڈان سے آگئی ۔ جنوبی سوڈان میں صدر سلو اکیرکو نائب صدر ریک مچھار نے معزول کرکے اپنے گھر میں نظر بند کردیا ہے اور تیل پیدا کرنے والے علاقوں پر اپنے قبیلے کی مدد سے قابض ہوگیا ہے ۔ اس دوران اپنےشہریوں کو نکالنے کے بہانے امریکہ نےمعزول صدر کو رسد پہنچانے کی کوشش کی لیکن امریکی فوجی ہیلی کاپٹر پر باغیوں نے فائرنگ کردی اور وہ گھبرا کر پڑوسی ملک یوگنڈا بھاگ کھڑا ہوا۔ اس طرح امریکی دخل اندازی ناکام بنا دیا گیا۔

امریکہ نے اپنی ہزیمت کی پردہ پوشی کیلئےدھمکی دی کہ اس طرح بزور قوت اقتدار پر قبضے کی کوشش برداشت نہیں کی جائیگی لیکن اسے جوتے کی نوک پررکھتے ہوئے مچھار نے اپنے قبیلے کے ۲۵ ہزار جنگجو نوجوانوں کو دارالخلافہ میں داخل ہونے کا حکم دے دیا ۔اس طرح امریکہ سمیت سارا مغرب باغی نائب صدر کے سامنے بے بس و لاچار ہوگیا اور اس کاکچھ نہ بگاڑ سکا۔چین اور سوڈان نے اپنی دلیری سےیہ ثابت کردیا کہ امریکہ طاقت کی بولی سمجھتا ہے اور اس کے آگےسرجھکاتاہے لیکن جو لوگ اس کا احترام کرنے کی غلطی کرتے ہیں ان کو اپنے قدموں تلے روندتا چلا جاتاہے ۔ان واقعات کی حیثیت مرغ بادنما کی سی ہے جو آئندہسال کے سیاسی بادوباراں کا رخ ظاہر کرتا ہے اور اشارہ دیتا ہے ؎
جہانِ نو ہورہا پیدا عالمِ پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا تھا قمار خانہ
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450341 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.