بلاول بھٹو زرداری عملی سیاست
میں قدم رکھنے سے قبل دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کوللکاررہے ہیں۔وہ
نوجوان ہیں، اس لیے اپنی تقریروں میں بھی خوب گرج اور برس رہے ہیں۔27 دسمبر
کو گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسے میں ان کا کہنا تھا کہ آیندہ عام
انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو کے تمام بچے عملی سیاست میں حصہ لیں گے۔
بلاول نے اپنی تقریر میں عمران خان اور ن لیگ کی قیادت کو کڑی تنقید کا
نشانہ بنایا۔ عمران خان کو نیٹو سپلائی روکنے اور ڈرون حملوں کے خلاف تحریک
چلانے پر ’بزدل خان‘ کا لقب بھی اُنہوں نے ہی دیا، پی پی چیئرمین نے عمران
خان کو حکیم اﷲ محسود کا ساتھی بھی قرار دیا۔ جہاں تک ن لیگ کی قیادت پر
تنقید کی بات ہے، تو اس حوالے سے ان کے خطاب کو تضادات کا مجموعہ کہنا بہتر
ہوگا۔ ایک جانب بلاول کہتے ہیں کہ شیر بھی وہی دودھ پی کر پلا جو جو دہشت
گردوں نے پیا دوسری جانب وہ جمہوریت کی آڑ میں شیر کے ساتھ کھڑے ہونے کی
بات کرتے رہے۔
انتخابات میں اپنی جماعت کی ناکامی پر روشنی ڈالتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا
کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلاف تھی اس لیے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ
کرسکے۔ اگر واقعتاً ایسا ہوتا تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج سندھ
میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب نے ہی
پیپلزپارٹی کو نچلے اور درمیانے طبقے کی جماعت بناکر ابھارا۔ 70ء کے
انتخابات میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے 61 ارکان قومی
اسمبلی کا تعلق درمیانے طبقے سے ہی تھا۔ جب کہ سندھ سے ان انتخابات میں پی
پی پی کے پلیٹ فارم سے جیتنے والوں کا تعلق جاگیردار خاندانوں سے تھا۔ اس
سے واضح ہوتا ہے کہ یہ پنجاب ہی تھا جس نے پی پی پی کو ایک نظریاتی اور
طبقاتی شناخت فراہم کی۔اگر ہم ماضی کے انتخابات کا جائزہ لیں تو یہ بات
سامنے آتی ہے کہ یہ پنجاب ہی تھا جس نے 1970ء، 1977ء، 1988ء، 1993ء او
2008ء میں پیپلزپارٹی کو وفاقی حکومت بنانے کے قابل بنایا۔سوال یہ ہے کہ
2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں ناکامی کا سامنا کیوں کرنا
پڑااور کیا بلاول کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو اس شکست کا ذمہ دار قراردینا
درست ہے؟اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی پی پی کا
پنجاب میں1988ء کے انتخابات کے بعد کردار نظریاتی بنیادوں سے ہٹنا شروع ہوا۔
1988ء سے 2008ء تک کے انتخابات میں اس جماعت نے پنجاب سے جاگیردارانہ قیادت
کو اہم کردار ادا کرنے کے مواقع دیے۔ اس حکمتِ عملی نے پیپلزپارٹی کو نقصان
پہنچایا۔ جنوبی پنجاب سے لغاری، قریشی، گیلانی اور دیگر روایتی سیاسی
خاندان پی پی کے پلیٹ فارم سے ملکی سیاست میں آگے آئے، تو اس کو بھی پی پی
پی کی نظریاتی کی بجائے خاندانوں کی سیاست کی پیداوار قرار دیا جاسکتا ہے۔
پنجاب میں پی پی کی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا تحریک ِانصاف نے
پُر کردیا۔ اس کا ووٹ پی ٹی آئی کی جانب گیا جس کا خمیازہ اسے انتخابات میں
بھگتنا پڑا۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد پنجاب پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کے لیے
ثانوی حیثیت اختیار کرگیا۔ جن لوگوں کو صوبائی قیادت سونپی گئی ان کا تعلق
جاگیردار طبقے سے تھا اور وہ اپنے حلقوں تک محدود تھے۔ ان لوگوں نے پارٹی
کے قومی یا صوبائی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی بجائے وزارتوں کی طاقت کو بھی
اپنے حلقوں تک محدود کیے رکھا۔دوسری جانب سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص
نقصان نہیں پہنچا، کیوں کہ سندھ میں ذوالفقار بھٹو مرحوم سے جذباتی لگاؤ
اور ان سے عقیدت کی وجہ سے لوگ اس پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جب کہ یہاں قیادت
بھی جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ہے۔
پی پی پی کے کرتا دھرتاآصف علی زرداری صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز ہونے کے
بعد ایوان صدرتک محدود ہوگئے تھے۔ انہوں نے اس عرصے میں پی پی پی کا پنجاب
کے عوام سے بھی ناتا توڑ دیا۔ اور یوں پی پی کی سیاسی شناخت کو مسخ کرنے
میں اس کی اپنی حکومت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ کیوں کہ اس نے اپنے دور
حکومت میں کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جاسکے۔
مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کی وجہ سے لوگ پی پی حکومت سے تنگ آگئے اور
ان کے جانے کی تمنائیں کرنے لگے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پی پی اپنے ’اعمال‘
کی وجہ سے انتخابات سے قبل ہی ہار گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی
عوامی سیاست و نظریات کے ساتھ ساتھ پنجاب کو بھی کھوچکی ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ
کوسنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کی راہ میں حائل ہوتی
تو وہ اسے سندھ سے بھی ہرادیتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں
پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم بھی نہیں چلائی۔ جہاں تک سندھ کی بات ہے تو یہ
اس جماعت کا مضبوط گڑھ ہے۔ اس لیے لوگوں نے ماضی کی طرح اس بار بھی پی پی
کو ووٹ دیا۔ لیکن اگر بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا جائزہ لیا جائے تو صاف
محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نوڈیرومیں یہ تقریر جیالوں کے لیے کی، کیوں کہ
وہ بار بار جیالوں کو ساتھ دینے کی تلقین کرتے رہے۔لیکن اپنی خراب کارکردگی
اور جیالوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معذرت کی نہ اپنی اور اپنی حکومت
کی غلطیوں کا اعتراف کیا ۔
آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو زرداری کو بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کے موقع
پر ان کے قاتلوں کے متعلق بھی لب کشائی کرنا چاہیے تھی۔ لوگوں کے ذہنوں میں
سوالات ہیں کہ اس ہائی پروفائل کیس کو منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچایا
گیا؟ بلاول عمران خان کو نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں کے خلاف تحریک چلانے
پر تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے ذرا اپنے گریبان میں بھی تو جھانک کر دیکھ
لیتے۔ اب تک بے نظیرقتل کیس میں صرف 4 گواہوں کی شہادت قلمبند کی جاسکی ہے۔
4 مختلف اداروں نے اس کی تحقیقات کیں، ایک مقدمے میں 9 چالان پیش ہوئے، 5
جج تبدیل ہوئے، مقدمے کے 8 میں سے 5مبینہ ملزم اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف، ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد ضمانت پر
ہیں۔
اس مقدمے کی اگر یہی رفتار رہی تو اسے مکمل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ بے نظیر کے قتل کے بعدپیپلز پارٹی کی اپنی حکومت آئی
لیکن اس نے 5 سال میں کچھ نہیں کیا…… کسی اور کی حکومت ہوتی تو کوئی عذر
تراشا جاسکتا تھا، لیکن پی پی پی نے بھی روایتی بے حسی کامظاہرہ کیا۔ جو
پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں اپنی قائد کے قاتلوں کوسزا دلانے میں ناکام رہے
اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف دے گی، فضول معلوم ہوتا ہے۔
ہر سال 27 دسمبرکو اخبارات میں خصوصی مضامین اور اشتہارات کی بھر مار ہوتی
ہے، جن میں پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنی ’شہید‘قائد کو خراج ِعقیدت پیش کرتی
ہے۔ گڑھی خدا بخش میں برسی کے موقع پر مرکزی تقریب ہوتی ہے جس میں پی پی کے
مرکزی رہنما پرجوش انداز میں تقریریں کرتے ہیں پھر سب کچھ بھلا کر نئے سال
کا آغاز کیاجاتا ہے اور سابقہ معمولات بحال ہوجاتے ہیں۔ پی پی کی قیادت کی
ذمہ داری شاید یہیں تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد کون پوچھتا ہے کہ بے نظیر کے
قاتلوں کا کیا ہوا؟ |