مشرف فوج سے کیا چاہتے ہیں؟

بلّا عموماً انسان پر حملہ نہیں کرتا ہے، لیکن اگر وہ یہ محسوس کرے کہ اب اس کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا ہے تو وہ بڑے خونخوار انداز میں جھپٹ پڑتا ہے۔ اپنے ہاں بھی آج کل ایک ’’بلا‘‘ قابو میں آیا ہوا ہے۔ پہلے تو اس کی باتیں ایویں ہی ہوا کرتی تھیں، مگر جب سے باقاعدہ طور پر غداری کا مقدمہ شروع ہوا ہے، وہ خاصا سنجیدہ ہوگیا ہے۔ اب اس کی گفتگو میں بڑھکوں کی بجائے التجا سی آنے لگی ہے۔

اتوار کی شام ٹی وی چینلوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ سابق صدر کا انٹرویو نشر کیا۔ ملزم کو دفاع کا حق حاصل ہے اور اس کا موقف بھی سامنے لانے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن مشرف کے معاملے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خفیہ ہاتھوں نے اس کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے منظم مہم شروع کردی ہے، ٹی وی انٹرویو بھی اس مہم کا حصہ ہے۔ بہرحال سابق صدر نے اپنے انٹرویو میں زیادہ تر تو وہی گھسی پٹی باتیں کی ہیں، جنہیں سن سن کر کان پک گئے ہیں، البتہ ان کے انٹرویو میں دو تین ایسی باتیں بھی کہی گئی ہیں جن کا پوسٹ مارٹم کیا جانا ضروری ہے۔

سابق صدر نے اپنے انٹرویو کے ذریعے فوج کو بھی معاملے میں ملوث کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر غداری کے مقدمے سے فوج پریشان ہے۔ انہوں نے جنرل کیانی کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں کیانی نے میرا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ پاکستان میں یہ تأثر عام ہے کہ یہاں کسی فوجی افسر کو سزا دینا تو درکنار اس پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانا بھی ممکن نہیں۔ یہ تأثر بہت حد تک درست ہے۔ ہمارے ہاں ایسی مثالیں نہیں ملتیں جب فوجی افسران کو ہتھکڑیاں پہنائی گئی ہوں۔ اس طبقے کو ہمیشہ ’’تقدس‘‘ حاصل رہا ہے۔ یہاں سیاست دانوں کو تو غداری کے الزامات میں جیلوں میں بند رکھا گیا ہے، مگر پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے والے جرنیلوں کو مرنے کے بعد قومی پرچم میں لپیٹ کر سپردخاک کیا گیا۔ یہ تاریخی حقائق ہیں، جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ آپ دیکھیں سیاست دانوں، سول بیوروکریٹس اور معاشرے کے تقریباً تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد پر کرپشن کے الزامات کے تحت مقدمات چلتے رہے ہیں، لیکن اس معاملے میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ایک طرح کا استثناء حاصل رہا ہے۔ بڑے بڑے جرنیلوں پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں، مگر کسی کے خلاف کچھ ’’ثابت‘‘ نہیں کیا جاسکا۔

مشرف کا فوج کو آواز دینا دراصل اسی ذہنیت کی علامت ہے۔ ان کا خیال ہے چونکہ وہ ’’مقدس‘‘ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں محفوظ راستہ دے دیا جائے گا، مگر شاید مشرف صاحب کو علم نہیں کہ اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔اب ہائی پروفائل کیسز میں فوج قوم کے مدمقابل نہیں آئے گی۔ فوج اب پروفیشنلزم کی طرف پلٹ رہی ہے، اس نے سیاست میں مداخلت بہت حد تک کم کردی ہے۔ جنرل کیانی پر لاکھ اعتراضات کیے جاسکتے ہیں، لیکن انہیں اس بات کا ضرور کریڈٹ دیا جائے گا کہ انہوں نے فوج کو سیاست کی دلدل سے نکالنے کی مخلصانہ کوششیں کیں اور اس میں وہ کافی کامیاب بھی رہے۔ موجودہ آرمی چیف کو بھی فوجی امور پر نظر رکھنے والے بیشتر ماہرین غیرسیاسی قرار دیتے ہیں۔ یقینا اپنے سابق سربراہ پر سنگین مقدمات کا معاملہ فوج میں گفتگو کا موضوع ہوگا، یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، ہر ادارے میں ایسا ہوتا ہے، البتہ مشرف کا یہ کہنا کہ فوج اس کے لیے پریشان ہے، محض ’’ہوائی فائرنگ‘‘ ہے۔

دراصل مشرف فوج کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ میرے لیے پریشان ہوجاؤ، اگر پریشان نہیں بھی ہو تو کم ازکم پریشان ہونے کا تأثر تو دے دو، تاکہ میری جان بخشی ہوجائے۔ جب تک جنرل کیانی آرمی چیف رہے، مشرف ان کی تعریف میں زمین وآسمان ایک کرتے رہے۔ وہ کیانی کو بہترین سپاہی کہتے نہیں تھکتے تھے، مگر اب وہی کیانی ان کے لیے نان پروفیشنل ہوچکے ہیں۔ پرویزمشرف کا خیال تھا پاکستان واپسی پر کیانی انہیں یس سر، یس سر کہتے پھریں گے۔ حکومت پر دباؤ ڈال کر انہیں مقدمات سے بچالیں گے، مگر کیانی نے اپنے کام سے کام رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ اب سابق صدر، جنرل کیانی کے پیچھے پڑگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 3نومبر کے اقدام میں کیانی بھی ان کے ساتھ تھے، یعنی وہ چاہتے ہیں کہ غداری کے مقدمے میں کیانی کو بھی شامل کیا جائے۔

پرویزمشرف کے فوج سے متعلق بیانات کو سرسری نہیں لیا جانا چاہیے۔ وہ قابو میں آئے بلے کی طرح اب حملوں پر اتر آئے ہیں۔ سب سے پہلے وہ فوج کو نشانہ بنارہے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر فوج ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی تو کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک طرف تو وہ فوج سے معاملے میں مداخلت کے لیے درخواستیں کررہے ہیں اور دوسری طرف فوجی حکام کو ڈرا بھی رہے ہیں کہ اگر انہوں نے ان کی مدد نہ کی تو وہ بھی غداری کے مقدمے سے نہیں بچ سکیں گے۔ سابق آرمی چیف کا بیان فوج میں انتشار پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے۔ وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے سپاہیوں اور افسران کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک سازش ہے، اس سے فوج کا ڈسپلن متأثر ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت سے ٹکراؤ کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔

بڑے تواتر کے ساتھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ بعض حلقے مشرف کی آڑ میں حکومت اور فوج میں ٹکراؤ کی سازش کررہے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں نے گڑھی خدابخش میں سابق صدر آصف زرداری کے بیان کو اسی نظر سے دیکھا ہے۔ ان کے مطابق زرداری کی جانب سے قابو میں آئے بلے کو نہ چھوڑنے کا مشورہ نوازشریف سے خیرخواہی نہیں ہے، بلکہ سابق صدر چاہتے ہیں کہ لیگی حکومت مشرف کے معاملے پر فوج سے ٹکراجائے۔ وگرنہ زرداری مشرف کے اتنے ہی مخالف ہیں تو پھر انہوں نے اپنے دور حکومت میں اس بلے کو پکڑنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ حالانکہ یہ بلا انہیں بے نظیر بھٹو کیس میں بھی مطلوب تھا۔

مشرف کا معاملہ سول حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے، اگر اس نے آمر کو محفوظ راستہ دے دیا تو اس سے یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں آج بھی حکومت سیاست دانوں کی نہیں، بلکہ فوج کی ہے اور فوجی حکام ہر طرح آئین وقانون سے بالاتر ہیں۔ دوسری طرف اگر حکومت مشرف پر آئینی وقانونی سزا نافذ کردیتی ہے تو اس سے بقول مشرف اداروں میں ٹکراؤ ہوسکتا ہے۔ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا، اسے اپنی ساکھ بھی متأثر نہیں ہونے دینی چاہیے اور اداروں سے ٹکراؤ سے بھی بچنا چاہیے۔ پرویزمشرف کے انٹرویو کے بعد سے فوج کے کردار کے حوالے سے بھی تجزیوں اور تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ہر کوئی اپنے رجحانات کے مطابق اندازے لگارہا ہے، کسی کا خیال ہے فوج واقعی مشرف کے معاملے میں پریشان ہے اور وہ اپنے سابق چیف کو ہر صورت بچالے گی، جبکہ بہت سے تجزیہ کار اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ اگر فوج صرف ڈیڑھ دو سطر کا وضاحتی بیان جاری کردے تو اس سے افواہیں خودبخود دم توڑدیں گی۔ مشرف کے دعوؤں اور فوج کی خاموشی سے مشرف کو فائدہ ہو نہ ہو فوج کا امیج ضرور متأثر ہوگا۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102092 views i am a working journalist ,.. View More