1947کے بعدسے پاکستان کے غریب
طبقے کے حصے میں سیاست آئی ہے۔وہ جسے چاہیں تخت پربٹھادیں جسے چاہیں تخت
کیلئے ترساترساکہ ماردیں(سمجھ جائیے ناں) ۔یقیناآپ مجھ سے متفق نہیں ہوں گے
کیونکہ غریب تو حلقہ کی ٹکٹ کے پیسے ہی نہیں بھرسکتایاپھر اگرٹکٹ مفت مل
جائے تو اس ٹریک تک پہنچنے کیلئے جو جبری ومشروط مشقت درکارہوتی ہے اسکے
لیئے بھی کئی پاپڑبیلنے پڑتے ہیں اورپاپڑمفت میں نہیں ملتے یہ توآپ کو بھی
معلوم ہے اورمجھے بھی۔لیکن اگر آپ ہرسطرکو غورسے اورتسلسل کرساتھ پڑھتے
جائیں گے توآپ کو میرے پیچیدہ وگنجلک فلسفے کی سمجھ باآسانی آجائے گی۔اورآپ
مجھ سے سوفیصداتفاق کریں گے لیکن ایسااتفاق رائے نہیں جس کے تحت اکثر سیاسی
جماعتیں بلدیاتی ٹکٹ بانٹ رہی ہیں ۔سرائیکی میں کہتے ہیں ’’انھاں ونڈے
ریوڑیاں تاں ول ول ڈیوے آپنٹڑیاں نوں‘‘۔یہ مثال ویسے ہی یاد آگئی وگرنہ میں
اتناکم فہم شخص نہیں کہ دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والوں پرایسے کڑوے
کسیلے جملے کسوں؟؟۔
موقع کی مناسب سے ایک واقعہ یاد آگیا‘چلوآپ سے بھی شیئر کرلیتے ہیں ‘ہم
کوئی فلاں جمہوری پارٹی کے صدرتھوڑی ہیں جو کچھ بھی شئیرنہیں کرتے ۔الیکشن
مئی 2013سے قبل مجھے دوجوان دوستوکے ساتھ جمہوریت کا بینڈ باجہ بجانے والی
ایک سیاسی جماعت کی میٹنگ میں جانے کااتفاق ہوا۔اس علاقہ کے صدرصاحب بڑے
جوش وجذبے کے ساتھ کارکنان کے خون میں گرمی پیداکررہے تھے کہ’’میرے
عزیزدوستواُٹھواورجنگ لڑوجاگیردارکے خلاف‘سرمایہ دارکے خلاف ‘‘اپنی عادت سے
مجبور ہم ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگے کیونکہ ہمیں اُس کی تقریرمیں سے
تضنع وبناوٹ کی بوآرہی تھی(گوکہ اسوقت اسکی جماعت جمہوری لگتی تھی)پھر جیسے
ہی اُس کے لفظوں کے پھریرے کم پڑنے لگے اور سوالات کامدہم سا آغاز ہواتوہم
نے بھی حصہ ڈالاکہ جناب عالی’’آپ جن وڈیروکے خلاف ان انجان جوانوکواُکسارہے
ہیں اگرآپ کی جماعت نے انھیں گلے سے لگالیاتو پھران جوانوکا کیاہوگا؟؟‘‘جواب
ملا’’کارکنان سے رائے لی جائے گی‘ہم ان کی رائے کوہی اہمیت دیں
گے‘‘۔بلاتامل ہم نے جواب داغاکہ ’’یہ توذوالفقارعلی بھٹونے بھی کہاتھااورآج
اُس کی جماعت میں کارکنان کاکیاحال ہے(اﷲ کرے بلاول صاحب جیالوں پرعنایات
کریں وگرنہ ۔۔)‘‘یہ سن کرانھوں نے بغیرجواب دیئے محفل برخاست کردی ۔کچھ
جوانونے مجھ سے شکوہ کے انداز میں کہاکہ آپ نوجوان طبقے کے حوصلے پست کررہے
تھے ‘کچھ نے کہاکہ بات درست تھی موقع غلط ۔ہم مسکرائے اورجواب دیاوقت
کاانتظارکیجئے ۔مگراسکے بعد ان مظلموں کے ساتھ تقدیرنے ایساستم کیا کہ جس
کی مجھے بھی توقع نہیں تھی ۔گویاتنظیم نہ ہوئی کٹھ پتلی ہوئی ‘جس کی ڈور
مقہور و مجبور جوانو کو نچاتو نہیں سکی لیکن ان کی امیدیں خاک میں مل
گئیں۔لیکن اس علاقے میں جوانونے خوب رنگ دکھایا(الیکشن سے پہلے)ان کی بدولت
انکی پارٹی کے اُمیدوارکامیاب ہوئے۔جن کے ہارنے کایقین کامل تھاوہ فاتح
ٹھہرے۔اب غورکیجئے کہ سیاست کی ہولی کس نے کھیلی ؟جواب :غریب نے۔ جیتا کون؟
جواب: امیر‘ جاگیردار یاسرمایہ دار۔ایسامحض ایک حلقے میں نہیں ہوابلکہ
معمولی فرق سے ایسااتفاق کم وبیش پاکستان کے طول وعرض میں ہوتارہتاہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی جانب کہ ’’نہ کھاؤ نہ پیو‘‘۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم
الٹاچل رہے ہیں پہلے ٹائٹل کے آخری الفاظ ’’بس سیاست کروغریبو‘‘پر طبع
آزمائی کی اور پھر ’’ابتدائی‘‘ الفاظ پر۔توجناب صرف ہم ایسانہیں کرتے بلکہ
سب کرتے ہیں ۔میں نے سناہے کہ ایک ملک ’’پانی‘‘کاکیس تقریبا ہارگیاہے
اورپھربھی خوشیاں منارہاہے توپھرہم الٹ کیوں نہیں چل سکتے؟۔ہاں تو ہم پھر
موضوع سے ہٹ گئے جیسے سیاسی جماعتیں پاکستان میں الیکشن جیتنے کے بعداپنے
وعدوں سے ہٹ جاتی ہیں اوروہ بھی جمپ مارکے ۔اچھاتوجناب سنیئے ایک تازہ
رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں کھانے پینے کی اشیاء میں 35فیصداضافہ
ہواہے(رپورٹ اپنی جگہ مگرذاتی تجربہ یہ کہ ایک جگہ پالک دس روپے
کلواورپھروہاں سے تقریباڈیڑھ سومیل کے فاصلے پر پالک سترروپے کلولیکن
بدگمانی نہ کیجئے پوری بات سنیئے دس روپے والی پالک کاسبزرنگ تھاجبکہ
سترروپے والی ہرے رنگ کی تھی)۔یکم جولائی 2013سے ابتک آٹا 12فیصد‘گرم
مصالحہ 38فیصداور‘دال مونگ کی قیمت محض 35فیصدبڑھی ہے۔دودھ
‘سرف‘صابن‘خوردنی تیل اورگیس کی قیمتوں میں سترہ فیصداضافہ ممکن
ہوسکاہے۔دال مسور‘ثابت مسور‘دال ماش‘کی قیمتوں میں 25فیصداضافہ ہوا۔آٹے کی
قیمت بڑھ کر45روپے فی کلوتک جاپہنچی ہے۔سرخ مرچ 120روپے سے بڑھ کر ڈیڑھ
سوروپے کلوہوگئی ہے ۔ہمہ اقسام کی چائے کی پتی میں قریباپندرہ فیصداضافہ
نوٹ کیاگیا۔الائچی کلاں ‘لونگ اورکالی مرچ میں بھی حسب توفیق اضافہ
کیاگیا‘لفظ حسب توفیق’’ ‘‘قلم سے اس لیئے سرک جاتاہے کیونکہ کچھ اضافے
ہمارے دکاندار‘ہول سیل ڈیلر‘بروکراورپرچون برادران اپنی مرضی سے بھی کرتے
رہتے ہیں ۔اب آپ کے ذہن میں آئے گاکہ میں حکومت کی طرف داری کررہاہوں
ایساہرگزنہیں ہے میں آپ کو صرف حقائق سے آگاہ کرناچاہتاہوں اور آپ بھی سن
کرحیران ہونگے کہ یہ تمام قسم کے دکاندارحکومتی دائرہ کار سے باہرہیں وگرنہ
سیدھے نہ ہوجاتے۔اب دیکھ لیجئے چینی کی قیمت آٹھ فیصد کم ہوئی کیونکہ یہ
چاروں صوبوں کہ انڈرہے ۔
اب ذرا سوچیئے کہ ان اضافہ شدہ ریٹس کے بعد غریب لوگ کیاہرروز گرم مصالحہ
‘لہسن‘ٹماٹر‘ادرک‘پیاز اورمعیارکے مطابق گھی سالن میں ڈال سکتے ہیں
؟ہرگزنہیں ۔روٹی دوکی جگہ ایک کھاتے ہیں۔گوشت مہنگاہوجائے تو سال میں ایک
دفعہ ہی کھاتے ہیں۔گیس کی توخیرکوئی بات نہیں کیونکہ وہ توہوتی ہی نہیں
اورویسے بھی مزدورکاسالن آہوں پربھی پک ہی جاتاہے۔لیکن غربت کی چکی میں
پسنے کے باوجودہم سیاست ہرگزنہیں چھوڑتے ۔اکثردھرنے دیتے ہیں‘اب
’’طاہرالقادری‘‘تشریف لائے ہیں تومتوسط طبقے کہ ہم جیسے کئی جوان گھرکے
چولہے کی فکرکیئے بغیر ادھراُدھرسے روپے پکڑکرجلسہ گاہ پہنچ کرسیاست کریں
گے ‘یخ بستہ ہوائیں ہمارے خون کوگرمائیں گی‘خلافت کے دورکی باتیں ہمیں عزم
واستقلال بخشیں گی اورہم یہ بھول جائیں گے کہ سیدناعمرؓکے پاس ایک سواری
ہوتوبیت المقدس پہنچتے تک خادم اورحاکم باری باری سوارہوتے تھے۔عمران خان
صاحب بلائیں تب بھی جائیں گے ۔ممکن ہے نئے الیکشن سے قبل اگرکسی نئی جماعت
کاظہورہوااوراُس نے بڑھکیں لگائیں توہم اس پربھی ضرورجان چھڑکیں گے ۔اورہم
یہ ہرگزنہیں سمجھیں گے کہ رات کوبھوکاسونے والے کادکھ سات قسم کے کھانوں سے
پیٹ بھرنے والاہرگزنہیں سمجھے گا۔جس کا باپ یورپ سے نزلے کی دوائی
لیتاہوگااُس کابیٹاجھگی میں یاتنگ گلی میں ایڑیاں رگڑرگڑکرمرنے والے مرحوم
کے بیٹے کے زخموں پرخاک مرہم رکھے گا۔لیکن بھینس کے آگے بین بجانافضول ہے‘
میرے جیسے میرے غریب ہم وطنو!آپ نہ کھاؤ نہ پیؤ بس سیاست کرو کیونکہ یہ
ظالم لوگ ہمارے مشترکہ مسائل کوہماری کمزوریاں سمجھ کرہمیں استعمال کررہے
ہیں اورہم آمناصادقاکہہ رہے ہیں ۔اورایساہم اُس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک
ہمیں یہ یقین نہیں آجائے گاکہ یہ ملک ہم بھی چلاسکتے ہیں ۔اورجس دن
ایساہوگیاہم نے مساوات کااصول سمجھ لیاتوپھرہماراکوئی ناداروزخم خوردہ
بھائی اُٹھے گااوراﷲ کی مدد سے انقلاب لے آئے گا۔اورعدل وانصاف قائم کرکے
انتہاپسندی کو جڑ سے اُکھاڑدے گااورکشکول توخود بخودبکھرجائے گا۔ |