طالبان کالا باغ ڈیم کی حمایت کریں

کالا باغ ڈیم بھی مسلۂ کشمیر کی طرح کا ایک ایشو ہے جس کی تعمیر چند کرپٹ سیاستدانوں کی وجہ سے اب تک ممکن نہ ہو سکی اور شاید نہ بھی ہو۔ گزشتہ روز اسی مسلے پر میری بی بی سی لندن کے پاکستانی نژاد سینئر صحافی ڈاکٹر شاہد قریشی سے بات چیت ہو رہی تھی کہ اُنہوں نے کالاباغ ڈیم کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان کی جانب سے ڈیم کی حمایت کر دی جائے توشاید حکومت اُن کے خوف سے یہ ڈیم بنا دے کیونکہ بجلی کا مسلہ صرف عوام کو نہیں بلکہ پاکستانی طالبان کو بھی ہے۔،جس پر طالبان کو اس مسئلے پر بھی حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیئے تاکہ حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس پر سوچ شروع کر دے۔

ٓآپ کی معلومات کے لئے میں بتاتا چلوں کہ کالا باغ ڈیم یا کالا باغ بند حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کرکے بجلی کی پیدا وار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے ایک بڑا منصوبہ تھا جو تاحال متنازعہ ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہ ہو سکا۔ اس منصوبے کے لئے منتخب کیا گیا مقام کالاباغ تھاجوکہ ضلع میانوالی میں واقع ہے ۔ ضلع میانوالی پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے (یاد رہے کہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ تھا جسے ایک تنازعہ کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔کالاباغ بند منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازعہ رہا ہے ۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ ــ"وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالا باغ بند تعمیر کرکے رہیں گے" جبکہ 26 مئی 2008ء کو پی پی پی کی حکومت نے کالاباغ بند تعمیر نہ کرنے کا اعلان کیا اور یہ کہا کہ دو صوبوں خیبرپختونخواہ، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا۔کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے پیش ہوتے ہی پاکستان کے چاروں صوبوں کے پی کے، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی تلخی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس منصوبے کی تعمیر کے حق میں صرف صوبہ پنجاب تھا جوکہ چاروں صوبوں میں سیاسی و معاشی لحاظ سے انتہائی مستحکم ہے ۔ مرکزی حکومت کی تشکیل بھی عام طور پر صوبہ پنجاب کی سیاست کے گرد گھومتی ہے ۔ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں نے اس منصوبے کی تعمیر کے خلاف آواز اُٹھائی تب سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑا رہااور اس پر کوئی بھی تعمیری کا ممکن نہ ہو سکا ۔
سیاسی و علاقائی مخالفتوں کے علاوہ ایک بڑی رُکاوٹ جو اس منصوبے کی راہ میں حائل ہے وہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر قانونی بلکہ قدرتی حق ہے کہ پانی کی ترسیل اس تک ممکن رہے ، اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس منصوبے کی تعمیر ممکن نہیں ہے ، البتہ قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتاتو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے ۔گو اس منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار اور پانی کے ذخیرہ کرنا ، جس سے زرعی زمین سیراب ہو سکتی ہے شامل ہے مگر اس ماحول پر بھی کئی مضر اثرات ہیں ، جو کسی بھی ایسے ہی بڑے منصوبے کی وجہ سے ماحول کو لاحق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ منصوبہ ایک بڑی آبادی کی ہجرت کا سبب بھی بنے گا۔اس منصوبے کے مخالفین نے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت اس کے تقصانات کو واضع طور پر اجاگر کیاہے جس کی وجہ سے تینوں مخالف صوبوں میں عوامی رائے عامہ اس منصوبہ کی تعمیر کے حوالے سے ہموار نہیں ہے کیونکہ عوام کو اس ڈیم کے نقصانات کے بارے میں ذیادہ اور فوائد کے بارے میں کم بتاکر ڈرایا گیا ہے جو عوام اس منصوبے کے حق میں نہیں اُن میں اکثریت مڈل کلاس طبقے کی ہے جن کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کالاباغ ڈیم کہاں ہے اور کیسا ہے بس اُن کے کانوں میں یہ افواہیں ڈال دی گئی ہیں کہ جس دن کالاباغ ڈیم بن گیا تو شہروں کے شہر ڈوب جائیں گے جس کی وجہ سے ڈیم کی مخالف سامنے آئی ہے۔۔ اگر اس ڈیم کے فوائد عوام کو بتا دیئے جاتے اور یہ ڈیم بن جاتا تو زرادری ، نواز اور مشرف کی حکومتیں چاہے پاکستان کو جتنا لوٹ لیتی مگر اس ڈیم کی وجہ سے پھر بھی کوئی فرق نہ پڑتا اور اسی وجہ سے پاکستانی کرنسی ملیشیاء اور سنگاپور کی کرنسی کے برابر ہوتی۔پنجاب جس کی بڑھتی آبادی صنعت و زراعت کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے پانی درکار ہے ، کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس کی ان ضروریات کو نہ صرف پورا کرسکتا ہے بلکہ یہ پورے ملک کے لئے سستی بجلی کا ایک مستقل ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔پنجاب میں ایک عام رائے یہ ہے کہ بحیرہ عرب میں دریائے سندھ کا شامل ہونا دراصل پانی کے ذخیرے کا "ضائع"ہو جانا ہے ۔ یہ پانی ملک میں اُن زمینوں کو سیراب کر سکتا ہے جو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بنجر ہیں۔پنجاب کے نقطۂ نظر میں کالا باغ بند کے علاوہ دو بڑے منصوبے بھاشا بند اور سکردو بند بھی تعمیر کئے جانے چاہیئے۔ کالاباغ بند چونکہ اس تینوں منصوبوں میں بہتر وسائل کی دستیابی کی وجہ سے قابل عمل ہے تو اس سے پہلے تعمیر ہونا چاہیئے۔ بہاولپور اور بہاولنگر کے علاقے کالاباغ بند کے ذخیرے سے سب سے ذیادہ مستفید ہوں گے۔1960ء کے اوائل میں بھارت کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر پاکستان نے دستخظ کئے اس معاہدے کے تحت ستلج اور بیاس کے حقوق بھارت کو دیئے گئے تب سے بھارت دریائے راوی، ستلج اور بیاس کو صرف سیلابی پانی کے اخراج کے لئے استعمال کرتا آیا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدے کی رو سے ان دریاؤں پر بند کی تعمیر کا حق رکھتا ہے ، وفاقی حکومت اس میں سے کسی بھی منصوبے پر واضع کامیابی حاصل نہیں کر سکی جس کے نتیجے میں صوبہ پنجاب کو فراہم کیا جانے والا پانی صرف تین دریاؤں تک محدود ہو گیا ہے ۔پنجاب کے نقطۂ نظر میں کالا باغ ڈیم دریاؤں یعنی دریائے ستیج اور بیاس کی بھارت کو حوالگی کے نتیجے میں ہونے والے صوبائی نقصانات کا بہتر نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ صوبائی نقصان بلا شبہ وفاقی سطح پر ہونے والی ذیادتی ہے۔ جس کے ذمہ دار دوسرے صوبے بھی ہیں۔

صوبہ پنجاب کی اس منصوبہ کی حمایت دراصل اس حقیقت سے بھی جڑی ہوئی ہے کہ کالاباغ بند سے تقریباً3600میگاواٹ بجلی حاصل ہو سکتی ہے جو پاکستانی کی توانائی کے مسائل ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے کافی ہے ۔ یہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں ترقی کے دور کا پیش خیمہ ثابت ہو گی کیونکہ پانی سے پیدا ہونے والی بجلی دوسرے ذریعہ سے حاصل ہونے والی توانائی کی نسبت انتہائی سستی ہے۔ پنجاب نے اس منصوبے پر اپنے مؤقف میں لچکداری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور کالا باغ ڈیم سے حاصل ہونے والی وفاقی سطح پر آمدنی سے حصہ وصول نہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن پھر بھی دوسرے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی ۔تجزیہ کار کالاباغ بند کی تعمیر کے حوالے سے اہمیت اس بات کو دیتے ہیں کہ یہ منصوبہ دراصل پنجاب اور باقی تین صوبوں کے درمیان عدم اعتماد کے کا سبب بنے گا۔ تمام پاکستانی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے اور اس بارے میں جلد ہی کوئی مستقل حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ، اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم منصوبہ پر آج ہی سے کام شروع کر بھی دیا جائے بت بھی اسے مکمل اور فعال ہونے میں کم اَز کم آٹھ سال کا عرصہ درکار ہے ، تب تک پانی کی دستیابی بارے حالات اور بھی خراب ہو چکے ہوں گے۔ تکنیکی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اتنے بڑے منصوبے پر عمل درآمد کی بجائے کئی چھوٹے بند، بیراج اور نہریں تعمیر کی جانی چاہیے، اس سے نہ صرف دوسرے صوبوں کے تحفظات بھی دور ہوں گے بلکہ یہ آبی، ماحولیاتی اور زرعی وسائل کو محفوظ بنانے کے لئے ایک بہترین طریقہ بھی ہے، جس کی واضع مثال پنجاب اور سندھ میں نہری نظام کی شکل میں موجود ہے۔واپڈا جوکہ پاکستان میں بجلی اوت توانائی کا وفاقی ادارہ ہے کئی سالوں سے کالا باغ ڈیم بند کے بارے میں اعداد و شمار میں تبدیلیاں کرتا آیا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار پر پاکستان کے کسی حصے میں کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے اس ضمن میں ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی تھی اس کمیٹی کا مقصد کالاباغ بند کے منصوبے کے تکنیکی فوائد و نقصانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے چار جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں واضع طور پر رائے دی ہے کہ بھاشا بند اور کٹنررہ بند کی تعمیر پانی کے ذخائر بارے حالات خراب ہونے سے پہلے تعمیر کئے جانے چاہیے۔ رپورٹ کے اس حصے پر کئی گھمبیر عوامی و سیاسی مسائل کے کھڑے ہونے کا قوی امکان ہے۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 101 Articles with 90194 views i am a humble person... View More