جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ
اچھی بات کہے یا خاموش رہے،(بخاری شریف)۔قرآن میں ہے” اور انھوں نے دھوکا
دیا اور اللہ نے بہترین تدبیرکی اوراللہ بہترین تدبیروالا ہے۔۔۔۔۔اللہ
تعالیٰ کا بےحد احسان وکرم ہے کہ اس نے دنیا میں صدق یعنی سچائی جیسی عظیم
صفت بھی پیدا کی ہے اور انسانوں کویہ حکم دیا کہ سچائی کو اپنائیں۔۔ اللہ
تعالیٰ نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے
ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو“ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا”تو اگر وہ اللہ کے
ساتھ سچے رہیں تو ان کے لئے بہتری ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے”اللہ تعالیٰ
سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہوگا۔“ ایک دوسری جگہ ارشادہے ”ہے جو اپنی
بات میں اللہ سے زیادہ سچا ہو؟۔“ایک دوسری جگہ یہود کی من مانی شریعت پر
زجروتوبیخ کرتے ہو ئے فرمایا ”اور ہم یقیناً سچے ہیں۔“ ۔۔۔حضرت ابن مسعود
رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً سچائی
نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ آدمی سچ
بولتا رہتا ہے یہاں تک اسے اللہ کے یہاں بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ
نافرمانی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نافرمانی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور
آدمی یقینا ً جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں وہ بہت جھوٹا لکھ
دیا جاتا ہے۔“ ارشاد نبوی ہے ”وہ چیز چھوڑدے جو تجھے شک میں ڈالے اور اسے
اختیار کر جس کی بابت تجھے شک وشبہ نہ ہو اس لیے کہ سچ اطمینان کا باعث ہے
اور جھوٹ شک اور بے چینی ہے اگر اللہ تعالی ٰ کی جانب سے سچائی کو اپنا نے
اور جھوٹ سے دور دور رہنے کا حکم نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور
ہوتا ہر انسان ایک دوسرے سے جھوٹ بولتا ، اس لیے کہ جھوٹ بولنا بےحد آسان
ہوتا ہے۔ دل تھوڑا سا جھوٹ کی طرف مائل ہوا اور ہونٹوں میں حرکت ہوئی جھوٹ
نکل گیاجبکہ سچ بولنا بےحد مشکل ہے بہت زیادہ کٹھن ہے سچ کی طرف دل کو مائل
ہونے میں بھی دیر لگتی ہے اور سچ کے لیے ہونٹ بھی لرزتے ہوئے کھلتے ہیں۔ ۔ایسا
اس لیے ہوتا ہے کہ سچ یا جھوٹ کی نوبت ہی اس وقت آتی ہے جب معاملہ پھنستا
ہوا نظر آتا ہے، اور عموماً اس کے پیچھے کوئی ڈر اور کوئی خوف پوشیدہ ہوتا
ہے۔ کہیں مال کے ضائع ہونے کا ڈر، کہیں جان جانے کا ڈر، کہیں لوگوں کی
نظروں سے گر جانے کا ڈر تو کہیں نوکری چلی جانے کا ڈر اور ڈر کا یہ سلسلہ
زلف جاناں کی طرح دراز ہے یہاں تک کہ کہیں والدین کا ڈر، کہیں بچوں کا ڈر،
کہیں استاذ کا ڈر تو کہیں طلبہ کا ڈر،کہیں بیوی کا ڈر تو کہیں شوہر کا ڈر،
کہیں ذمہ داروں کا ڈر تو کہیں کسی اور کا ڈر اوریہ ڈر اس لیے پیدا ہوتا ہے
کہ انسان سے جانے یا انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہوجاتا ہے جس کا اظہار
معیوب ہو، یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی کا اندیشہ لاحق ہو اور اس پریشانی
سے بچنے کے لیے کوئی بہانہ تالاش کیا جائے۔ کوئی خوبصورت سا بہانہ بنا کر
اپنا دامن بچا لینا چاہتا ہو۔ ۔ایسا کرنے پر وقتی طور پرتو وہ خود کو
کامیاب تصور کرتا ہے مگر جھوٹ تو جھوٹ ہے اس کا پردہ کبھی نہ کبھی اور کہیں
نہ کہیں ضرور فاش ہوتا ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کا انجام برا ہوتا
ہے۔جھوٹ ایک فریب ہے، جھوٹ ایک دھوکہ ہے، جھوٹ ایک بیماری ہے، جھوٹ ایک
نہایت ہی بری خصلت ہے۔ جھوٹ سے اعتماد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ جھوٹ سے آپسی
تعلقات کمزور پڑ جاتے ہیں، جھوٹ سے انسان اخلاقی معیار سے نیچے گر جاتا ہے
جبکہ سچ ایک طاقت ہے، ایک اعلی ترین خصلت ہے۔ سچ سے انسان کو بلندی ملتی ہے۔
سچ انسان کو مضبوط بنادیتا ہے۔ سچ سے آپسی اعتماد بحال ہوتا ہے اس لیے جب
انسان سچ کو اپنا تا ہے تو فطری طور پر اس کے دل سے اللہ کے سوا تمام لوگوں
کا ڈر نکل جاتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تو مجھے
دیکھ رہا ہے مجھے اس کے سامنے بھی جواب دینا ہے ممکن ہے اس دنیا میں جھوٹ
بول کر نکل جاؤں مگر کل قیامت کے میدان میں جب اللہ کے سامنے میری پیشی
ہوگی تو کیا جواب دوں گا؟ نتیجتاً ایسا انسان برائیوں سے بچ جاتا ہے یا
کوئی ایسی حرکت کرنے سے گریز کرتا ہے جس کے کرنے سے بعد میں ندامت ہو۔
گناہوں کی دو قسمیں ہیں ایک صغیرہ اوردوسرا کبیرہ ،پھر کبیرہ گناہوں میں
بعض انتہائی سنگین ہیں ،جن کی بنا پر لوگ شدید اذیت اور مشکلات سے دو چار
ہوتے ہیں ایسے ہی گناہوں میں سے ایک بد ترین گناہ جھوٹ ہے لیکن حیرت انگیز
بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوت عام ہو چکا ہے بہت سے لوگ دوسرے لوگوں
کے جھوٹ پر عقل و دانش کی علامت سمجھتے ہیں۔ دوسروں کو بے وقوف بنانے کا
تذکرہ اپنے لیے باعث افتخار گردانتے ہیں۔۔۔اگر پاکستانی ریاست ، سیاست اور
حکمرانوں کی بات کریں تو ان میں جھوٹ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔حکومت،
حکام، سیاسی رہنماوں، سفارتکاروں اور عوام کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندانہ
نگاہ سے انسانی حقوق کے بارے میں امریکہ اور مغرب کے پیچیدہ اور ظاہری
رویوں کا تجزیہ کریںمغرب نے اپنے استعماری دور میں مشرقی ملکوں منجملہ
اسلامی ملکوں پر اپنا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلط پھیلایا اور سائنسی
اور ٹیکنالوجیکل ترقی کی بنا پر یہ ظاہر کیا کہ ساری چیزوں کے لئے نمونہ
عمل اور مرکز مغربی دنیا ہی ہے حتی کہ جعرافیائی امور کو بھی مغرب کی برتری
ظاہر کرنے کے لئے بدل دیا اور مشرق قریب ، مشرق وسطی اور مشرق بعید جیسی
غلط اصطلاحات رائج کیں،آج علاقے اور عالم اسلام کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ
مغربی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلامی انقلاب کا مقابلہ کرنے میں پیچھے
رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی اس پسماندگی کو دورکرنے کےلئے
اپنی تمام تر توانائیوں سے کام لینا شروع کردیا ہے ،مغربی سیاست دانوں کی
خصلت جھوٹ بولنا اور تظاہر ہے، مغربی ممالک لاکھوں انسانوں کے مارے جانے،
پاکستان ، افغانستان اور عراق کے بے گناہ عوام کے قتل عام سے دکھ درد کا
احساس نہیں کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی جہاں کہیں ان کے مفادات کا تقاضہ
ہوگا انسانوں کے قتل عام سے نہیں گھبرائیں گے۔ ان تمام پہلوؤں پر اگر
سنجیدگی سے غور کریں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ ملک پاکستان
میںجھوٹ پر سخت ترین قانون ناگزیر ہے، اب وقت آگیا ہے کہ عالم اسلام اور
خاص کر پاکستان کو ایوان میں مشترکہ طور پر جھوٹ پر ایسا قانون بنانا پڑیگا
جیسا کہ قرآن و حدیث میں آیا ہے اور جھوٹ ثابت ہونے پر دس لاکھ جرمانہ ایک
سال قید با مشقت رکھی جائے ، صاحب حیثیت پر جرمانے اور قید سو گناہ اضافہ
کردیا جائے یہ قانون عام شہری سے اعلیٰ ترین سول، فوجی افسران بشمول صدر و
وزیر اعظم تک لاگو ہو۔ اُم الخبائث اور اُم الکبیر گناہ جھوٹ ہی ہے۔ اگر
کسی پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہو اور وہ ثابت ہوجائے تو الزام لگانے والے
کو دگنی سزا دی جائے ،کاش اس وطن عزیز پاکستان میںسیاسی،نوکو شاہی، فوجی و
سول کے تمام ملازمین کیساتھ ساتھ عوام اس قانون کو نافذ کرنے میں اپنا اپنا
کردار ادا کریں تو یقینا پاکستان دنیا بھر میں نہ صرف مستحکم ابھرے گا بلکہ
عزت و مقام کی اعلیٰ درجہ حاصل بھی کرلے گا ۔پاکستان جس دور سے گزررہا ہے
وہاں لاکھوں میں نہیںکڑوروں میں ماہر کاذب ہیں ، قول و فعل میں تضاد،دھوکہ
دہی کافیشن،مکر و فریب کا لباس اور جھوٹ کا راج۔۔۔ اس ملک میں سب کچھ ہے
مگر سچ نہیں جہاں سچ ہوتا ہے وہیں ایمان اور نیک نیت بھی ہوتی ہے، جہاں سچ
ہوتا ہے وہاں انصاف بھی پروان چڑھتا ہے، جہاں سچ ہوتا ہے وہیں سکون امن و
سلامتی کا ماحول رہتا ہے، جہاں سچ ہوتا ہے وہیں ترقی و تمدنی کا گہوارہ
رہتا ہے ، جہاں سچ ہوتا ہے وہیں تہذیب و ادب اور علم کا دور دورہ رہتا ہے،
جہاں سچ ہوتا ہے وہیں انسانیت معراج پر ہوتی ہے ۔نا ممکن نہیں ہے مگر مشکل
ضرور ہے پاکستان کے منتخب نمائندوں کیلئے کہ وہ اس بل کو پاس کریں کیونکہ
اس زد میں وہ بھی آئیں گے مگر ملک پاکستان اور پاکستانی عوام کیلئے ہمیشہ
کیلئے ایک سکون کا سانس مل جائے گا اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی سیاسی جماعت
اس جہاد، مشن اور اللہ اور اس کے حبیب کا قرب حاصل کرتی ہے ، یہ قوم اب بھی
مسیحا کا انتظار کررہی ہے شائد وہ مسیحا انہیں لیڈروں میں سے کوئی تو ہو!!!! |