بھیڑیا اورشیرپاکستان کے معاشی قاتل

معاشی قاتل کے اعترافات ایک کتاب کا نام ہے جو ایک امریکی جان پرکنز نے لکھی ہے۔ یہ کتاب 2004 میں چھپی تھی۔ کتاب کے سرورق پر جو تصویر بنی ہے اس میں ایک گدھ دکھایا گیا ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اور پس منظر میں امریکی جھنڈا ہے۔ ہٹ مین کرائے کے قاتل کو کہتے ہیں۔ پرکنز اپنے آپ کواکنامکس ہٹ مین کہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ ہم جیسے لوگوں کی تنخواہ بہت زیادہ ہوتی تھی اور ہم ساری دنیا کے ممالک کو دھوکہ دے کر کھربوں ڈالر کا کاروبار کرتے تھے۔ پرکنز کے مطابق اُسکا کام یہ تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے سیاسی اور معاشی رہنماوں کو جھانسہ یا رشوت دے کر ترقیاتی کاموں کے لیے عالمی بینک اور یو ایس ایڈ سے بڑے بڑے قرضے لینے پر آمادہ کرے۔ اور جب یہ ممالک قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے تو انہیں مختلف ملکی امور میں مجبورا امریکی سیاسی دباو قبول کرنا پڑتا ہے۔ پرکنز کے مطابق اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی بینک بھی معاشی کرائے کے قاتلوں کا ایک آلہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے کاموں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ایسے ممالک کو تلاش کروں جہاں قدرتی وسائل موجود ہوں۔ اور پھر ان ممالک کے لیے عالمی بینک اور اسکی ساتھی کمپنیوں سے بڑے بڑے قرضوں کا بندوبست کروں۔ ساری رقم اور سود چند مٹھی بھر خاندانوں میں چلی جاتی جبکہ اس ملک کے عوام پر قرضوں کا ایسا انبار رہ جاتا تھا جو وہ کبھی ادا نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہم پھر واپس آتے اور کہتے کہ چونکہ تم قرض ادا نہیں کر سکے ہو اس لیے تمہارا قرض "ری اسٹرکچر" کرنا پڑے گا۔ اب آئی ایم ایف کو گھسنے کا موقع ملتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ [آئی ایم ایف] اُن سے کہتا کہ ہم تمہارا قرض ری اسٹرکچر کرنے میں تمہاری مدد کریں گے، پھر وہ مطالبہ کرتےہیں کہ اپنے بجلی اور پانی کے ذرایع ہمارے کنٹرول میں دے دو یا ہمیں فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دی جائے یا ایسی ہی کوئی اور شرط۔ حتیٰ کہ وہ اسکولوں اور جیلوں تک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

صدر مملکت ممنون حسین کا شکریہ کہ وہ ایک ایسا سچ بول گے جو نہ نواز شریف بول رہے ہیں اور نہ ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ حکومت اعلان کے باوجود قرضوں کا کشکول توڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ ساڑھے چودہ ہزار ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ قرضے ہمارے لئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں۔ اس افیون کی عادت ختم کرنے کے لئے مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے۔ ساتھ ہی صدر صاحب نے نواز شریف کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ حکومت درست سمت میں گامزن ہے اس لئے عوام کو مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی سے جلد نجات مل جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے 2008ء میں اقتدار میں آنے کے وقت پاکستان پر 34 ارب ڈالر کا قرض تھا جو 2013ء میں بڑھ کر 66 ارب ڈالر ہوگیا تھا۔ زرداری جو جنرل پرویز مشرف کو دودھ پینے والا بلا کہہ رہے ہیں مگر بقول ممتاز بھٹو" جس کو زرداری بلا کہہ رہا ہے اس سے ہی شہید بے نظیر نے معاہدہ کرکے این آر او پاس کروایا جس میں سینکڑوں پیپلوں سمیت دیگر سیاستدانوں پر کرپشن اور قتل وغیرہ کے مقدمات معاف ہو گئے۔ اسکے بعد انہوں نے ہی اسکو صدر منتخب کرکے کرسی پر بٹھائے رکھا۔ تب تو یہی بلا بہت پیارا تھا اور اچھا بھی لگتا تھا لیکن اب اسکے دودھ پینے پر بھی اعتراض ہے"۔ اُس پر آئین سے غداری کے علاوہ اور بہت سے الزامات ہیں مگر ایک بھی کرپشن کا الزام نہیں ہے، جبکہ اپنے پانچ سالہ جمہوری دور میں زرداری اور اُنکے ہمنوا اس غریب ملک کی دولت کو بھیڑیوں کی طرح کھاتے رہے۔ پاکستان ساٹھ یا اکسٹھ سال میں جتنا مقروض ہوا تھا پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے صرف پانچ سالہ دور اقتدار میں اُسکو دگنا کردیا، کوئی ادارہ پیپلز پارٹی کی لوٹ مار سے نہ بچا، یہاں تک کے حاجیوں کو بھی نہ بخشا۔ زرداری کے دونوں وزیراعظم کرپٹ ترین تھے، روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے دنیا کے بدترین لٹیرئے ثابت ہوئے۔ یا تو نواز شریف بہت بھولے ہیں کہ اُن کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی نے ملک کو معاشی طور پر تباہ کردیا ہے یا پھر اب پانچ سال نواز شریف کماینگے۔ زرداری نواز شریف گٹھ جوڑ کے تحت اب باری نواز شریف کی تھی لہذا نواز شریف اپنے جلسوں میں معاشی بد حالی،کرپشن، لوڈ شیڈنگ، طرزِ حکمرانی اور بے روز گاری پر پیپلز پارٹی کی قیادت پر شدید تنقید کیا کرتے تھے اور وعدہ کرتے تھے کہ اگر ہماری حکومت آ گئی تو لوڈ شیڈنگ ختم کر دینگے، کشکول توڑ دینگے ، بین الا قوامی قرضے لینا بند کر دینگے۔لوگوں کو لگا شاید یہ کچھ کریں گے لہذا نواز شریف کو کامیاب کرواکر وزیراعظم بنوادیا، مگر نواز شریف کا خیال ہے کہ چونکہ اب اُنکی باری تھی اسلیے وہ وزیراعظم بنے ہیں۔ زرداری کو وہ حاجی کہتے ہیں اور زرداری اُنکو حاجی کہتے ہیں لہذا سات ماہ میں نواز شریف کی حکومت نے نہ تو کشکول توڑا اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کی سہولت دی بلکہ عوام کی مشکلات میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ اتفاق سے نہ پیپلز پارٹی کے پاس اور نہ ہی مسلم لیگ نون کے پاس ایک بھی معاشی ماہر موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ جماعتیں اسکی ضرورت محسوس کرتی ہیں، انکا اقتدار میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اپنے اثاثے بڑھانا ہوتا ہے، یہ علی بابا چالیس چور ہیں، انکو ملک سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ،یہ ہی وجہ ہے کہ نواز حکومت میں اقتدار یا تو اُنکےخاندان میں بٹا ہوا ہے یا صرف چند قریبی دوستوں میں، کوئی وزیر خارجہ نہیں، وزیر خزانہ ایک چیف اکاونٹنٹ ہے جو پہلے بھی ایک ناکام وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، لیکن کشکول کا سائز بڑا کرنے میں ماہر ہیں۔

صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا ابھی یہ حکومت تین سال اور قرضے کےلیے بھیک کا پیالہ پھیلاتی رہے گی۔ پاکستان میں سیاست کے نام پر چند خاندان حکومت کررہے ہیں جو اپنے مالی وسائل میں اضافے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں غرق رہتے ہیں۔ یہ ہی حکمراں اس بھیک کے پیالے میں پڑی ہوئی بھیک کو اپنا حق سمجھ کر لوٹ لیتے ہیں اور عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے ان علی بابا چالیس چوروں نے پچاس ارب ڈالر سے زائد کی قومی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کروا رکھی ہے۔ پاکستان کی ستر فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، جن کی روزانہ کی آمدنی دو سو روپے یا اُس سے کم ہے۔ملک کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں کے بستر ان مریضوں سے بھرے رہتے ہیں جو یہ پانی استمال کرتے ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی اکثریت تعلیم سے محروم ہے۔ غیرملکی قرضے یا بھیک ابھی تک پاکستانی عوام کی مشکلات بڑھاتے رہے ہیں ، یہ عام آدمی کے کسی کام کے نہیں اور اس کے نتیجے میں آنے والی نسلیں بھی مشکلات کا شکار ہونگی ۔ پاکستان بنیادی طور پر جن عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہے انکا ہمیشہ سے مطالبہ غریب کش اور امرا نواز پالیسیوں کا نفاز رہا ہے۔ اگر حکمراں چاہیں تو اپنے اثاثے بڑھانے کی جگہ پاکستان اور پاکستانی عوام کےلیے سوچیں تو یہ بھیک کا پیالہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اسکے لیے ملک کے تمام وسائل کو استمال کیا جائے، صرف ٹیکس کا نظام ٹھیک کرلیا جائے تو شاید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرروت نہ پڑئے مگر جہاں اسمبلی کے ممبران اور حکمران ہی ٹیکس ادا نہ کرتے ہوں وہاں یہ سب دیوانے کی بڑ ہے۔ 2008ء میں ہر پاکستانی شہری 37000 روپے کا مقروض تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس رقم میں 63000 روپے سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے اور 31 دسمبر 2013ءتک ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے پانچ سالہ دور میں 34 ارب ڈالر سے قرض کو بڑھاکر 66 ارب ڈالر پر لے آئی تھی، لیکن مسلم لیگ نون کی حکومت جس حساب سے کشکول کا سائز بڑا کرتی جارہی ہے لگتا ہے یہ قرض کے ہندسے کو 100 ارب ڈالرتک پہنچاکر زرداری کو باری دیگی۔ کیا نصیب پایا ہے اس بدنصیب پاکستانی قوم نے کہ اُسکا صدر قوم کو بتارہا ہے کہ "قرضے ہمارے لئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں۔ اس افیون کی عادت ختم کرنے کے لئے مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے"۔ لیکن افیون کھانے والے کےلیے کہا جاتا ہے کہ وہ کبھی بھی افیون کھانا نہیں چھوڑتا ہے۔ آصف زرداری جن کی پیپلز پارٹی اسوقت بھی صوبہ سندھ میں حکومت کررہی ہے ، انہوں نے گڑھی خدا بخش میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف کو یقین دلایا کہ وہ اُنکے ساتھ ہیں، ساتھ ہی انہوں نے مشرف کوبلا بنادیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ بلا دودھ پی گیا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ بلا تو دودھ پی گیا لیکن بھیڑیا اور شیر پاکستان کے معاشی قاتل ہیں۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485942 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More