لغت میں سیاست کے معنی حکومتی نظام ، ملکی انتظام اور رعب
داب ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاست آخری معنی تک رہ کر کھیل بن چکی
ہے جبکہ قومی کھیلوں میں ’’ سیاست ‘‘ کا راج ہے ۔قومی کھیلوں میں حصہ لینے
والے کھلاڑیوں کی عمر کے سیاست دان عملی طور پر سرگرم ہوچکے ہیں ، سیاست
دان کے معنی لغت میں ’’ وہ شخص جو علم مدن کا ماہر ہو ‘‘ بتائے گئے ہیں ۔عام
خیال یہ ہے کہ سیاست بھی خدمت کا ایک ذریعہ ہے ۔۔۔ ہمارے سیاست دانوں نے نا
صرف سیاست کے معنی تبدیل کرچکے ہیں بلکہ لفظ خدمت کو بھی مشکوک بنادیا ہے
۔۔۔۔۔خدمت کس کی اور کیسی ؟ یہ تو سب جانتے ہیں ۔۔۔۔۔عام لوگوں کی خدمت تو
ہمیشہ ہی سے سماجی تنظیموں اور این جی اووز تک محدود رہی چونکہ سیاست کے
معنی ملکی انتظام ہیں اس لیے ہمارے سیاست دان صرف اقتدار کے حصول کے لیے
سرگرم رہتے ہیں ،اس مقصد کے لیے وہ آپس میں لڑتے بھی ہیں اور پیار بھی کرتے
ہیں ۔ عمواََ ان سیاست دانوں کے دعوے ،وعدے اور عوامی مفاد کے اعلانات ان
کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی ہوا ہوجاتے ہیں ۔سیاست دان صرف اقتدار کے
حصول کے لیے بلکہ اسے مستحکم کرنے کے لیے بھی ’’ سیاست ‘‘ کرتے ہیں ۔ سیاست
کے کھیل کاجو جتنا بڑا کھلاڑی وہ کھیل بھی اسی طرح کھیلتا ہے ،تماش بین وہ
ہی بے چاری عوام ہوتی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ ’’ اب مزا آئے گا کیونکہ میچ
تو اب شروع ہوا ہے ‘‘ ۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ قوم بھی سیاست سے مزے لینے
لگی ہے ،سیاست دانوں کے بیانات ان کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیردیتے ہیں۔لطف
اندوز ہونے والوں کو اس وقت بوریت ہونے لگتی ہے جب چند روز میں واضع ہونے
لگتا ہے کہ یہ عوام کے حقوق کے نام پر یہ تو نورا کشتی تھی ۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے مکمل جمہوری دور میں پانچ سال تک وفاق اور
خصوصاََ سندھ میں یہ ہی کچھ ہوتا رہا ۔اس دوران سندھ حکومت کی اتحادی جماعت
متحدہ نے ریکارڈ احتجاج کیے ۔اس احتجاجی سیریل کی کم و بیش ڈیڑھ درجن اقساط
تھیں ۔ایم کیوایم نے ایک ہی دور میں حکومتی اتحادی جماعت کے ساتھ اس طرح کے
احتجاج کیئے کہ اس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی ، اہم بات یہ ہے کہ
ان احتجاج کا حاصل کیا تھا یہ کسی کو نہیں پتا چل سکا ، بعض اوقات تو
احتجاج کی وجہ بھی پرسرار رہی۔۔۔۔۔۔ پانچ سال تک سندھ میں ہی نہیں بلکہ
وفاق میں بھی جو کچھ ہوتا رہا اسے ’’ چوہے بلی ‘‘ کے کھیل کے سوا کوئی اور
نام نہیں دیا جاسکتا۔۔۔ ۔۔۔۔۔موجودہ مسلم لیگ حکمرانوں نے ایسی اپوزیشن
جماعت کا کردار ادا کیا جسے لوگوں نے ’’ دوستانہ حزب اختلاف ‘‘کا نام دیا
تھا ۔ بہرحال جو گزشتہ پانچ سال تک ہوتا رہا اسے ’’ چوہے بلی ‘‘ کا کھیل
نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے ، پھر اس کھیل کو دوسرے جمہوری دور سے دور
رکھنے کے لیے شیر کو میدان میں لایا گیا ۔۔۔۔۔ مگر شیر بھی اندر سے گیڈر ہی
نکلا ۔
کراچی میں بدامنی سے تنگ شہریوں نے توقع لگالی تھی کہ شیر کچھ کرے گا
۔۔۔۔ابتدا میں شیر کی دھاڑ یہ بتارہی تھی کہ نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کے
سرغناؤں کو بھی یہ ختم کردے گا ۔۔۔۔مگر پھر پتا چلا یہ بھی ’’ سیاست ‘‘ ہے
۔
اب سوال یہ ہے کہ سندھ میں ایسی سیاست کرنے کی مسلم لیگ نواز کی حکومت
کوضرورت کیوں پیش آئی ۔۔۔۔۔ظاہر ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس لیے ضرورت پڑی کہ
مسلم لیگ کی خواہش ہے کہ یہاں بھی کسی طرح حکومت یا حکمرانی قائم کی جائے
اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو مزید مستحکم بھی بنایا جائے ۔ مسلم لیگ کی خوش
قسمتی اور لوگوں کی بدقسمتی سے صوبہ میں ایک ایسی قوت موجود ہے جو نظریات
اور حقوق کے حصول کا نعرہ لگاکر مسلسل دونوں کا گلا گھونٹ رہی ہے ۔ اس لیے
شریف برادران کا خیال اور خواہش ہے کہ اس قوت کو گلے لگاکر موجودہ سندھ کی
حکومت کا گلا گھونٹا آسان ہوجائے گا۔۔۔۔۔سو چوہدری نثار نے اپنے حالیہ
کراچی کے دورے کے دوران اس جانب پیش قدمی کرڈالی۔۔۔۔۔یہ ہے سیاست اب اس سے
عوام کا کیا تعلق اور اس سے ملک اور قوم کو کیا فوائد ہونگے اس کا اندازہ
قوم خود لگاسکتی ہے ۔
خواہشات تو کسی کی کچھ بھی ہوسکتی ہے ، چوہے بلی کا کھیل دیکھ کر جس قوت نے
شیر کو بھیجا تھا وہ بھی شیر کی نئی چالوں پر شائد حیران ہو ۔۔۔۔چوہے اور
بلی کے اس کھیل کے دوران آواز آئی ’’ جب سے پاکستان بنا ہے بِلا آکر دودھ
پی جاتا ہے ‘‘ ۔ یہ آواز تھی سابق صدر آصف زرداری کی ، انہوں نے گڑھی خدا
بخش میں بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی کے موقع پر اپنی پوزیشن کلیئر کرتے ہوئے
کہا کہ میاں نواز شریف بِلا پھنسا ہوا ہے اسے مت چھوڑنا ،بِلے کو انجام تک
پہنچانے کے لیے ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔۔۔۔۔ ایک بِلے کی دشمنی میں ایسی
دوستی کے پیغام کی مثال کم ملتی ہے۔۔۔۔۔بِلا کون ہے ؟ یہ آپ خود سمجھ سکتے
ہیں ۔۔۔۔لیکن میں صرف یہ بتاسکتا ہوں اس بِلے کو ماضی قریب میں آصف زرداری
نے خود آزادی تھی بلکہ پروٹول دیکر ملک سے رخصت بھی کیا تھا۔۔۔۔بِلا چونکہ
اپنے آپ کو اب تک ’’ طاقتور ‘‘ سمجھتا تھا اس لیے وہ خود ملک واپس پہنچا
اور پھنس گیا۔۔۔۔۔اب کوئی زرداری سے پوچھے کہ اسے چھوڑا کیوں تھا ۔۔۔۔کوئی
پرانی ڈیل یا کسی قوت کا اشارہ تو نہیں تھا ؟ جس کے باعث وہ خود اسے پکڑنے
میں ناکام رہے تھے ۔!
اس کالم کے ابتداء میں میں نے لکھا ہے کہ ’’ ہمارے ملک میں سیاست کھیل بن
چکی ہے ‘‘ اب آپ غور کیجیے کہ کھیل کیسے ہوتا ہے ۔چونکہ ابھی آصف زرداری
اور ان کی پارٹی وفاق کی حکومت میں نہیں ہے ، اس لیے شائد وہ عملی سیاست
نہیں کررہے بلکہ صرف کھیل ، کھیل رہے ہیں ۔۔۔۔۔سیاست کے وہ مستند اور تسلیم
شدہ کھلاڑی کہلاتے ہیں ۔انہوں نے اپنے ون ڈے کھیل کے دوران جو بال پھینکی
اس کا جواب پرویز مشرف نے انتہائی غیر سیاسی انداز میں دیا ، سابق صدر مشرف
نے کہا کہ ’’ آصف زرداری کو پتا ہوگا ’’ بِلا ایک ہے یا پوری فوج ‘‘ ۔
پرویز مشرف کے اس مؤقف پر سوچنے والوں نے سوچا کہ ’’ فوج ‘‘ کا ذکر کیوں
آگیا۔
آصف زرداری نے اپنی بال پھینک کر بڑا مقصد حاصل کرلیا شائد انہیں یقین تھا
کہ سیاست کے نابالغ سابق جرنیل پرویز مشرف ان کے اس بیان سے اسی طرح کے
ردعمل کا اظہار کریں گے ۔پرویز مشرف کے ردعمل کا فائدہ ’’ چھوٹے اور بڑے
بھائی ‘‘کو پہنچے گا ۔ ۔۔۔۔۔
دراصل یہ ہی ہے سیاست ، میاں نوازشریف بھی ملک اور قوم کو درپیش مشکلات اور
مسائل کی آڑ میں اپنی حکومت کو درپیش مشکلات اور مسائل پر توجہ دے رہے ہیں
اس مقصد کے لیے وہ ایسے ایشوز کی تلاش میں ہیں جس سے قوم کا ذہن بڑے مسائل
سے ہٹ جائے ، لوگ شریف برادران کے وہ وعدے اور دعوے بھول جائیں ۔نوازشریف
کی کامیابی کا ہدف یہ ہے کہ وہ بھی کسی طرح پانچ سال مکمل کرلیں ۔
جبکہ قوم چاہتی ہے کہ اسے درپیش مسائل اور مشکلات کا سدباب پانچ دن میں
نہیں تو پانچ مہینے تو ہوجائے ۔۔۔۔۔قوم کو خدشہ ہے کہ اگر شریف برادران کو
پانچ سال مل گئے تو تب بھی صرف ان کے اور ان سے جڑے ہوئے لوگوں کے مسائل کا
سدباب ہوسکے گا۔
بات ہورہی تھی پرویز مشرف کی ۔۔۔۔پرویز مشرف سیاست میں نووارد ہیں ، انہوں
نے اپنی بقاء کے لیے منگل کو ریٹائرڈ فوجیوں سے ملاقات کی اور ان سے خطاب
کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے سب کچھ ملک اور قوم کے لیے کیا ہے ۔
پورے ملک کا نظام نان ایشوز کی بنیادوں پر چل رہا ہے ، سیاسی جماعتیں ،
سیاست دان اپنی بقا کے لیے سرکردہ ہیں انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی
نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی ملک کی بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنے ہی پیدا کردہ
مسائل میں گھرِ کر اب اپوزیشن کا روایتی کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں
کیونکہ وہ اب اندر سے ٹوٹنے لگی ہے ،اس کی مجبوری ہے کہ وہ عوام کو درپیش
مسائل اور مشکلات پر کچھ نہیں کرسکتی ۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال تک اپنی
حکومت کے دوران آزادی سے جو کچھ بویا اب وہ ہی اسے کاٹنا پڑرہا ہے ۔مسلم
لیگ نواز کی مجبوری یہ ہے کہ وہ امریکہ کی خواہشات اور پالیسیوں کے مطابق
حکومت نہیں چلاسکی تو اسے اپنی حکومت کی چھٹی کا خدشہ ہے ۔ دیگر جماعتیں
بھی صرف اپنے نظریہ ضرورت کے تحت چل رہیں ہیں ،تحریک انصاف ڈرون حملے کے
خلاف احتجاج کرکے یہ تو ثابت کیا کہ وہ عوامی قوت رکھتی ہے لیکن وہ تاحال
یہ ثابت نہیں کراسکی کہ وہ عوام کو ان کے مسائل سے چھٹکارہ دلانے والی
جماعت ہے ۔۔۔۔رہی بات متحدہ قومی موومنٹ کی تو اس کے لیے صرف یہ ہی کہا
جاسکتا ہے وہ ’’ اپنے روپ میں ایک حقیقت ہے ‘‘اس کے جلسوں میں رش ، اس کے
کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین الزام میں گرفتاریاں اور کراچی سے لندن
تک الزامات کے باوجود سنگین نوعیت کے الزامات کے باوجود قائد الطاف حسین پر
اعتماد یہ سب حقیقت ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ متحدہ اور اس کے قائد بھی صرف
اپنی بقاء کے لیے انقلاب کے نعرے لگارہے ہیں ۔جبکہ پورے ملک کی طرح کراچی
کے لوگ بھی صرف انتظار کررہے ہیں کہ ہمارا اصلی رہنما کب سامنے آئے گا اور
کب انکی تکالیف ، مشکلات اور پریشانیوں کا مداوا ہوگا۔ |