بلدیاتی انتخابات اور تاخیری حربے

سسٹم بڑا اچھا ہی کیوں نہ ہے۔ اگر اس کے چلانے والے اچھے نہ ہوں تو پھر کو ئی بھی سسٹم کا میابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی سسٹم کی کامیابی کا دار و مدار ہمیشہ ان کے چلانے والوں کی نیت پر منحصر ہو تا ہے۔وطنِ عزیز ویسے بھی مختلف سسٹم کا تجربہ گاہ رہاہے، کبھی پارلیمانی طرزِ حکومت تو کبھی صدارتی طرزِ حکومت، کبھی ما رشل لاء تو کبھی با ہر کی بلا ۔سابق صدر جنرل پر ویزمشرٌف لاکھ برا سہی ، مگر ان کے بعض کاموں کو ہم کسی بھی صورت میں برا نہیں کہہ سکتے بلکہ تاریخ ہمیشہ ان کے بعض اچھے کاموں پر اچھائی کا ٹھپہ ضرورلگا ئے گی۔اس میں ایک اچھا کام نجی ٹی وی چینلز کا اجراء یعنی ذرائع ابلاغ کی آ زادی ہے اور دوسرا بڑا اچھا کام مقامی حکومتوں کا قیام ہے ۔انہوں نے ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کروایا جو نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کا ایک بہترین سسٹم ہے ۔اس سسٹم کی کامیابی کے لئے ان ہی کے دورِ حکومت میں کا فی محنت بھی کی گئی اور ضلعی حکومتوں کا یہ نظام متعدد کمز وریوں کے با وجود عوام میں کا فی مقبول ہوا ، اس کی مقبولیت کا اندازا اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات کی نسبت بلدیاتی انتخابات میں عام لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ان کا جوش و خروش،ہار جیت پر تبصر ہ آرائی اور عملی تحریک کئی گنا زیادہ نظر آتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں کو نسلرز اور ناظمین وغیرہ کے لئے امیدوار ان کے جانے پہچانے اور شناسالوگ ہوتے ہیں جبکہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواران سے عوام کی اکثریت ناواقف ہوتی ہے کیو نکہ حلقہ انتخاب بڑا وسیع ہوتا ہے اور ووٹرزکو امیدوار کے بارے میں سنی سنائی با توں پرہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔جبکہ بلدیاتی انتخابات کے مو قعہ پر ووٹرز امیدوار کے ذاتی عیوب و محاسن سے واقف ہو تے ہیں اور وہ ان کے ہار جیت میں بھی زیادہ دلچسپی لیتے ہیں ۔اس میں بھی کو ئی دو رائے نہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام غریب عوام کے لئے ایک نہایت مفید نظام ہے ۔

مگر یہ بات کتنی افسوسناک ہے کہ مقامی حکومتوں کا جو نظام ایک فوجی حکمران نے متعارف کروایا تھا، جمہوری حکومتیں ان سے ہمیشہ گریزاں ر ہی ہیں اور بلدیاتی انتخابات کو کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرتے چلی آ رہی ہیں حالانکہ جمہوری نظامِ حکومت میں بلدیاتی انتخابات نہایت اہمیت کی حامل ہو تی ہیں۔بلکہ بلدیاتی انتخابات کوجمہوریت کا الف ب سمجھا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات اور آئینی تقاضوں کو با لائے طاق رکھتے ہو ئے بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے۔صوبائی حکومتوں نے بھی بلدیاتی انتخابات کرانا ضروری نہیں سمجھے۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مو جودہ حکومت نے بادلِ نخواستہ بلدیاتی انتخابات کے لئے ہاں تو کر دی ہے مگر مختلف حیلے بہا نوں سے فرار کی کو شش بھی جاری ہے۔جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں اسے پری پو لنگ رگینگ قرار دیا جا رہا ہے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی شیڈول خلاف الیکشن کمیشن کی درخواست پر ن نئی تا ریخوں کا اعلان کردیا گیا ہے اس لے مطابق سندھ میں ۱۸ جنو ری اور پنجاب میں ۳۱ جنوری الیکشن کی تاریخ مقرر کر دی گئی ہے جس کا شیڈول بھی جاری کر دیا گیا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صوبہ بلوچستان نے بروقت الیکشن کرواکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ، اگر حکومت چاہے تو الیکشن کروانا نا ممکن نہیں۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں با ئیو میٹرک سسٹم کے ذریعے انتخابات کروانے کاارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے مگر یہ انتخابات کب ہو نگے؟ اس کا یقینی طور پر فی ا لحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ایک بات واضح ہے کہ قومی اسمبلی کی قا ئمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امورکی سفارش سے الیکشن کمیشن نے مکمل اتفاق کر لیا ہے اور تاخیری حر بوں کے لئے مختلف جواز تلاش کئے جا رہے ہیں۔

ان تاخیری حر بوں کے پیچھے کون سے محرکات ہیں؟اگر ہم بغو ر جا ئزہ لیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ارکاں قومی اسمبلی یا ارکانِ صوبائی اسمبلی یہ نہیں چا ہتے کہ ان کے اختیارات میں ذرہ بھر کمی آ ئے یا جو فنڈ ان کو مختص کئے جا تے ہیں ان میں کمی آئے یا مقامی سطح پر ان کے اثر و رسوخ میں کمی آ جائے۔مگر سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کی تاخیری حربوں کا استعمال عوام میں ما یوسی
کا سبب بن رہے ہیں اور اگر بلدیاتی انتخابات کو پھر موخر کر دیا گیا تو یہ جمہوریت کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔آ خر کب تک حکمران آئینی تقاضہ اور ملکی ضرورت کو پسِ پشت ڈالتے رہیں گے ،آخر تو ان کا انعقاد ہو نا ہی ہے۔اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں بِلا تاخیر بلدیاتی انتخابات منعقد کرواکر کچھ اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرا دیں کیونکہ اسی میں ملک اور عوام کی بہتری ہے۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315663 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More