سائیں امیر بخش اپنے علاقے کا بہت بڑا وڈیرہ تھا۔ سارے
علاقے میں اس کا رعب دبدبہ تھا۔ اپنے ماتحتوں اور علاقے کے لوگوں کو اپنے
پالتو جانوروں کی سی اہمیت بھی نہ دیتا تھا۔ سائیں امیر بخش کے علاقے سے
کچھ دور ایک اور علاقہ تھا اور اس پر چوھدری غریب نواز کا راج تھا۔ نام تو
اس کا غریب نواز تھا لیکن اپنے علاقے کے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ سائیں
اللہ بخش سے کچھ مختلف نہ تھا۔
ایک دفعہ سائیں امیر بخش اور چوھدری غریب نواز کے درمیان کسی بات پر لڑائی
ہو گئی جو اس حد تک بڑھ گئی کہ چوہدری غریب نواز کے آدمیوں نے سائیں امیر
بخش کے علاقے کے ایک آدمی اللہ ڈنو کو مار ڈالا۔ چوہدری غریب نواز کے خلاف
مقدمہ ہوگیا اور وہ مفرور ہو گیا۔
چوھدری غریب نواز کا ایک بہت ہی غریب مزارع تھا عبداللہ جس کو دو وقت کی
روٹی بھی مشکل سے میسر آتی تھی۔ بچوں کے لئے تعلیم اور صحت کا تو کوئی تصور
ہی نہیں تھا۔ اس کو جب اِس لڑائی کی خبر ہوئی تو اس نے سوچا میں پھر ایک
بار چوھدری کو اپنی وفاداری دکھاتا ہوں اور چوھدری کا قرب حاصل کرتا ہوں
چنانچہ وہ چوھدری غریب نواز کے پاس گیا اور کہا کہ میاں صاحب میرے پاس ایک
طریقہ ہے آپ مجھے زخمی کردیں اور الزام سائیں اللہ بخش پر ڈال دیں اس طرح
ان کے خلاف بھی مقدمہ ہو جائے گا۔ چوھدری اللہ بخش کو یہ تجویز پسند آئی
اور اس نے عبداللہ کی ٹانگ پر گولی مار کر اسے زخمی کردیا۔ عبداللہ کے گاؤں
میں چونکہ کوئی اسپتال نہ تھا اس لیے اس علاج کے لئے شہر لے جانا پڑا لیکن
خراب اور کچے رستوں کی وجہ سے اسے بروقت اسپتال نہ لے جایا جاسکا اور وہ
رستے میں ہی دم توڑ گیا۔
جیل میں سائیں امیر بخش اور چوھدری غریب نواز کی بیرکس آمنے سامنے تھی۔
گرمیوں کی راتیں تھی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے قیدی بھی پریشان تھے۔ سائیں
اور چوھدری مچھروں کے ہاتھوں تنگ تھے چنانچہ انھوں نے جیل کی بیرکس سے ہی
صلح کا فیصلہ کیا اور ایک دوسرے کو معاف کر دیا اور یوں دونوں واپس اپنے
محلات میں آگئے اور سائیں کے گاؤں کا ہاری اللہ ڈنو اور چوھدری کے گاؤں کا
مزارع عبداللہ اپنی اپنی قبروں میں۔
یہ ایک سچی کہانی ہے جو میں نے کردار اور کچھ واقعات تبدیل کر کے لکھی ہے۔
یقینا آپ کو اس کہانی کے شیئر کرنے کا مقصد بھی سمجھ آگیا ہوگا۔ میں نے
جیسے ہی یہ کہانی سنی تو مجھے اس میں اور اپنے ملک کے حالات میں بہت مماثلت
نظر آئی۔ جس کے سائیں اور چوھدری ہمارے حکمران ہیں اور اللہ ڈنو اور
عبداللہ غریب عوام۔ یہ سائیں اور چوھدری الیکشن کے دنوں میں ایک دوسرے سے
خوب لڑتے ہیں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں غریب اور بھوکے ننگے اور جاہل
عبداللہ اور اللہ ڈنو بھی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اپنے اپنے آقاؤں کے لیے
نعرے لگاتے ہیں، گولیاں اور گالیاں کھاتے ہیں، ایک دوسرے کے گلے کاٹتے ہیں
اور امید لگاتے ہیں کہ اس بار تو ہمیں اپنی وفاداری کا صلہ ضرور ملے گا۔
آخر سائیں اور چوھدری کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کہ عبداللہ اور اللہ ڈنو
اپنی وفاداری سے کتے اور گھوڑے کی وفاداری کی کہاوتوں کو بھی شرمادیتے ہیں؟
وہ جادو ہے جہالت۔ جی ہا جہالت۔ چوھدری اور سائیں اللہ ڈنو اور عبداللہ کو
علم اور آگاہی کی ہوا نہیں لگنے دیتے کہ کہیں وہ جہالت کے اندھیروں سے نکل
نا آئیں اور انھیں یہ اندازہ نہ ہو جائے کہ وہ انسان ہیں اور ان کے کچھ
حقوق بھی بھی ہیں۔ انسان اور جانور کے درمیان فرق بھی صرف علم اور عقل کا
ہی۔ اگر عبداللہ اور اللہ ڈنو کو شعور آگیا تو اگلے الیکشن پر سائیں اور
چوھدری کے لیے آوے ای آوے، تیری عظمت کو سلام، قدم بڑھاؤ ، میرا قائد میرا
رہبر، غریبوں کا ساتھی، جیوے جیوے جیسے نعرے کون لگائے گا؟ |