چنے کا پانی یا شوربا‘ پیشاب آور
اور قبض کشا ہے۔ چنا خون کو صاف کرتا ہے اور اس کے کھانے سے چہرے کا رنگ
نکھرتا ہے بدن کو گندے اور فاسد مادوں سے پاک کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کیلئے مفید
غذا ہے۔ گردے کے سدے کھولتا ہے اس کے کھانے سے بدن فربہ ہوجاتا ہے
قدیم اطباءنے چنے کو بے حد مقوی قرار دیا ہے اس سے بدن میں صالح خون پیدا
ہوتا ہے بدن میں خاص قوت کو بڑھاتا ہے۔ مغرب کی جدید تحقیقات نے بھی اس امر
کی تصدیق کی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اناج میں سب سے زیادہ مقوی غذا چنا ہے
ایک چھٹانک چنے میں دو سو چھ غذائی حرارے (کیلوریز) قوت ہوتی ہے۔ چنا میں
حیاتین ای ہے۔ اس حیاتین کی کمی سے مردوں میں خاص طاقت کم ہوجاتی ہے اولاد
نہ ہونے تک نوبت جا پہنچتی ہے۔ عورتوں میں بھی اندرونی اعضاءکمزور ہوجاتے
ہیں اور حمل گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ طب یونانی اور طب جدید دونوں اس امر
پر متفق ہیں کہ چنا مقوی غذا ہے۔ ایک ماہر غذایات نے تو چنے کے غذائی
اجزاءکو انڈے کی زردی کے برابر قرار دیا ہے۔ چنے کو انڈے کی جگہ استعمال
کیا جاسکتا ہے۔ قدرت نے چنے کو دیگر غذائی اجزاءسے سرفراز کیا ہے اس میں 17
فیصد لحمی اجزاء(پروٹین)‘ چکنائی‘ نشاستہ دار اجزاءچونا اور فاسفورس ہے۔
فولاد کی وافر مقدار چنا میں ہے‘ حیاتین الف‘ ب‘ ای اور ایگزلک ایسڈ اور
مکمل غذا ہے۔ چنا بدن کی خاص قوت کو بڑھاتا ہے۔ چنے کا پانی یا شوربا‘
پیشاب آور اور قبض کشا ہے۔ چنا خون کو صاف کرتا ہے اور اس کے کھانے سے چہرے
کا رنگ نکھرتا ہے بدن کو گندے اور فاسد مادوں سے پاک کرتا ہے۔ پھیپھڑوں
کیلئے مفید غذا ہے۔ گردے کے سدے کھولتا ہے اس کے کھانے سے بدن فربہ ہوجاتا
ہے۔ آواز کو صاف کرتا ہے۔ غرض کہ چنا گوناگوں اوصاف کا حامل ہے۔
بیسن چنے کا آٹا ہے۔ مختلف امراض ذیابیطس‘ برص وغیرہ میں بیسن کی روٹی
تجویز کرتے ہیں۔ بیسن چہرے کے ابٹن میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے
ابٹن سے چھائیاں اور چہرے کا رنگ گورا ہوتا ہے۔ اکثر حضرات موسم بہار میں
چھولیا استعمال کرتے ہیں۔ سبزی کے طور پر پکاتے ہیں اور اس کی ہولیں بھی
کھاتے ہیں۔ بعض حضرات اس بات سے آگاہ نہیں ہوتے کہ وہ خشک بونٹ کھارہے ہیں۔
فصل میں چنا کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔ فصل کے جیالے باشندے چنا کو بیج کے طور
پر بکھیر دیتے ہیں۔ بارش کی صورت میں وافر مقدار میں چنا زمینوں میں پیدا
ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے چنا کا شمار سبزی میں بھی ہوتا ہے۔
چنے کی اقسام
ہمارے ہاں چنے کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں سیاہ اور سفید چنے۔ ویسے تو سرخ
اور پیلے چنے بھی ہوتے ہیں طبی لحاظ سے سیاہ چنے مفید و موثر ہیں۔ چنے
استعمال کرنے کے مختلف طریقے ہیں مگر سب سے بہتر چنے کا شوربا ہے۔ کالے چنے
کا شوربا طبیب مریضوں کیلئے بھی تجویز کرتے ہیں۔ پکاتے وقت بار بار چنوں کو
نہ ہلائیں۔
چنے کا پلاو بھی اچھی غذا ہے۔ چاول کے ساتھ پکانے سے چنے چاول کی غذائی کمی
کو دور کردیتے ہیں۔ چنے کو گوشت کے ساتھ پکا کر استعمال کرتے ہیں۔ گوشت کے
ساتھ پکانے سے یہ گوشت کو گلا دیتا ہے چنے پکاتے وقت اس میں زیرہ ڈالیں
تاکہ پیٹ میں نفخ پیدا نہ کرے۔
چنے کا حلوہ ضعف باہ کے مریضوں کو تیار کرکے کھلاتے ہیں۔ عام طور پر آلوچنے
بکتے ہیں یہ ثقیل ہوتے ہیں چنے کو پانی میں ابالنے سے اس کے غذائی
اجزاءپانی میں حل ہوجاتے ہیں۔ اس کو گلایا نہیں جاتا۔ پھر اس میں آلو شامل
کردئیے جاتے ہیں جو ثقیل ہوتے ہیں البتہ بھنے ہوئے چنے کھاسکتے ہیں۔ دودھ
چنے میں تیار کردہ حریرہ آواز کھولنے کیلئے مفید ہے۔ قدیم اور جدید غذائی
تحقیق کے مطابق چنا غذائی اجزاءاور حیاتین (وٹامن) سے بھرپور ہے۔ ان خوبیوں
کی بنا پر چنا نہ صرف غریبوں‘ سفید پوش طبقہ کی غذا ہے بلکہ اسے بادشاہوں
کی بارگاہ میں بھی مقبولیت کا شرف حاصل ہے۔ مغل بادشاہ چنا اور اس کا آٹا
استعمال کرتے تھے۔ بیسن چنے کا آٹا ہے اس سے روغنی روٹی تیار کی جاتی ہے۔
پنجابی میں اسے مسی روٹی کہتے ہیں۔ پھلبہری میں چالیس روز تک بیسن کی روٹی
کھلاتے ہیں۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بیسن کی روٹی کا بڑا شوقین
تھا۔بادشاہوں کے علاوہ عوام بھی چنے کو کثر ت سے استعمال کیا کرتے تھے اور
اس سے انواع و اقسام کے کھانے تیار کرتے تھے۔
بحوالہ عبقری میگزین |